جھوٹی کہانی سننے کا شوقین بادشاہ اور چالاک حجام ۔ قسط نمبر ۱ ‎

پیارے بچو! اب سےکئی سو سال پہلے جب ہم بہت چھوٹے تھے آپ سے بھی زیادہ چھوٹے تو ہمیں پڑھنے لکھنے کا بڑا ہی شوق تھا مگرآتا جاتا ہمیں کچھ تھا نہیں ۔ محلے میں ایک بڑی بی ہؤا کرتی تھیں اکثر شام کو باہر چارپائی ڈال کر بیٹھ جایا کرتی تھیں اور ہم ان سے فرمائش کر کے مزے مزے کی کہانیاں سنا کرتے تھے لیکن خود پڑھنے اور لکھنے کا شوق اپنی جگہ موجود تھا ۔ بازار میں کتابوں کی دکان پر کہانیوں کی کتابیں اور رسالے دیکھ کر ہمارا بڑا ہی دل کرتا تھا کہ ہم انہیں پڑھ سکیں اور کچھ سیکھنے کے بعد پھر خود بھی لکھ سکیں ۔ ہم نے اپنے ابا سے ذکر کیا تو انہوں نے کہا کہ بیٹا! میں غریب آدمی ہوں دو دو خرچے افورڈ نہیں کر سکتا تم یا پڑھ لو یا لکھ لو ۔ چونکہ ہمیں پڑھنے کا زیادہ شوق تھا تو ہم نے پہلے پڑھنا سیکھنا شروع کیا ۔ ویسے ہم اپنے بچپن میں بہت زیادہ غریب ہؤا کرتے تھے اتنے کہ گھر میں کھانے کی صرف ایک ہی پلیٹ تھی جب کوئی بہن یا بھائی اس میں کھانا کھا رہا ہوتا تھا تو باقی سب بیٹھے ہوئے اس کا منہ تک رہے ہوتے تھے کہ کب یہ کھا کر ہٹے تو پھر ہماری بھی باری آئے ۔ خیر جب ہم نے پڑھنا سیکھ لیا تو پھر کہانیاں کتابوں اور رسالوں سے پڑھنے لگے ۔ بڑا ہی مزہ آتا تھا خود پڑھتے ہوئے ۔ ایک کہانی ہمیں بہت اچھی لگی تھی پتہ نہیں کس رسالے میں شائع ہوئی تھی ابھی اس کا نام تو ہمیں یاد نہیں ہے شاید ہمدرد نونہال ۔ پھر ہم نے لکھنا سیکھا اور اس کہانی کو ماہنامہ چاند میں ایک ڈرامے کی شکل میں لکھا جس کا اس وقت ہمارے پاس کوئی ریکارڈ موجود نہیں ہے نہ ہی اب ہم اس کو اسی طرح سے دوبارہ لکھ سکتے ہیں ۔ ہاں اس وقت اپنے الفاظ میں دوبارہ ضرور لکھ سکتے ہیں آپ کی دلچسپی کے لئے ۔ اصل کہانی تو زیادہ طویل یا تفصیلی نہیں تھی عنوان بھی پتہ نہیں کیا تھا یہاں ہم نے صرف مرکزی خیال مستعار لیا ہے باقی یہ پوری تحریر ہماری اپنی ذاتی کاوش ہے ۔

تو کہانی کچھ اس طرح سے ہے کہ کسی ملک کے بادشاہ کو کہانیاں سننے کا بڑا ہی شوق تھا جب دیکھو بیٹھا کہانی سن رہا ہے ۔ پھر اچانک اسے پتہ نہیں کیا سوجھی کہ اپنے وزیر سے کہا کہ ہمیں جھوٹی کہانی سننی ہے ایسی کہ جس پر ہم یقین نہ کر سکیں اور اسے جھٹلانے پر مجبور ہو جائیں اور سنانے والے کو ہم بھاری انعام سے بھی نوازیں گے ۔ وزیر نے مملکت میں اعلان کرا دیا کہ بادشاہ کو جھوٹی کہانی سنانے خواہشمند دربار میں حاضر ہو جائیں ۔ اب لوگ روزانہ آتے اور طرح طرح کے من گھڑت قصے بیان کرتے خوب لمبی لمبی بھی چھوڑتے مگر بادشاہ کہیں اختلاف نہ کرتا ہر عجیب و غریب قصے کو سنتے ہوئے ہاں میں ہاں ملاتا رہتا کہ بالکل صحیح بات ہے ضرور ایسا ہی ہؤا ہو گا ۔ ہر بے ڈھنگی اور بےتکی بات کو سچ مان لیتا اور اور سنانے والے کو ڈانٹ پھٹکار کر دربار سے باہر نکال دیتا اور وزیر پر گرم ہوتا کہ تم کیسے نالائق ہو اب تک کوئی ایسا بندہ پیش نہیں کر سکے جو ہمیں سچی مچی میں کوئی جھوٹی کہانی سنائے ۔ پھر ایک دن بہت غصے میں وزیر سے کہا کوئی ایسا بندہ ڈھونڈ کے لاؤ جو ہمیں صحیح کی جھوٹی کہانی سنائے ورنہ تمہاری خیر نہیں ہے ۔

وزیر پریشانی کے عالم میں بازار میں گھوم رہا تھا کہ کیا کروں کیسے بادشاہ کی فرمائش پوری کروں ۔ اتنے میں ایک حجام آیا اور اس سے کہا کہ مجھے اپنے بادشاہ کے پاس لے چلو میں اسے ایسی جھوٹی کہانی سناؤں گا کہ عالم پناہ کے ہوش ٹھکانے آ جائیں گے ۔ وزیر اسے اپنے ساتھ دربار میں لے گیا اور بادشاہ سے عرض کی کہ عالی جاہ! یہ ایک حجام ہے اور ایک زبردست جھوٹی کہانی آپ کے لئے لایا ہے ۔ بادشاہ نے اسے سنانے کی اجازت مرحمت فرمائی ۔ حجام نے کہانی سنانا شروع کی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
جاری ہے (رعنا تبسم پاشا)
 

Rana Tabassum Pasha(Daur)
About the Author: Rana Tabassum Pasha(Daur) Read More Articles by Rana Tabassum Pasha(Daur): 223 Articles with 1669611 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.