بچوں کی دنیا بڑی نرالی، بڑی پیاری اور بڑی انمول ہوتی ہے۔
ان کے خواب رنگین، باتیں سادہ، اور دل بالکل شفاف آئینے کی مانند ہوتے ہیں۔
وہ جو محسوس کرتے ہیں، وہی کہتے ہیں؛ ان کی مسکراہٹ میں خلوص ہوتا ہے اور
آنکھوں میں ایک ان دیکھی امید جگمگاتی ہے۔
ہم اکثر یہ سمجھ بیٹھتے ہیں کہ بچے صرف کھیلنے، کھانے اور ہنسنے میں مصروف
رہتے ہیں، اور دنیا کے بڑے مسائل سے ناآشنا ہوتے ہیں۔ مگر سچ تو یہ ہے کہ
بچے اپنی ایک الگ اور مکمل دنیا رکھتے ہیں—ایسی دنیا جس میں رنگ ہیں، خیال
ہیں، خواب ہیں، اور سب سے بڑھ کر احساس ہیں۔
یہ دنیا ہماری دنیا سے بہت مختلف ہے۔ یہاں کوئی نفرت نہیں، کوئی فریب نہیں،
کوئی سیاست نہیں۔ یہاں صرف محبت ہے، سچائی ہے اور تخیل کی پرواز ہے۔ ایک
بچہ جب مٹی کے کھلونوں سے کھیلتا ہے، تو وہ صرف کھیل نہیں رہا ہوتا، وہ
اپنی دنیا کو تشکیل دے رہا ہوتا ہے۔ وہ جب تصویریں بناتا ہے، تو گویا اپنے
دل کی زبان بولتا ہے۔
بچوں کا تخیل مستقبل کی بنیاد ہوتا ہے کیونکہ تخیل وہ چراغ ہے جس سے دنیا
روشن ہوتی ہے، اور بچوں کا تخیل کسی قوم کا سب سے قیمتی سرمایہ ہوتا ہے۔ جب
ایک بچہ آسمان کی طرف دیکھ کر کہتا ہے کہ وہ “چاند پر جائے گا”، تو اس کی
بات کو ہنسی میں اڑانے کے بجائے ہمیں اسے سراہنا چاہیے۔ کیا معلوم وہی بچہ
کل کا سائنسدان ہو، خلانورد ہو یا کسی نئی دنیا کا موجد؟
ہمیں بچوں کو صرف الفاظ یاد کروانے کے بجائے انہیں سوچنا سکھانا ہے۔ انہیں
سبق پڑھانے کے ساتھ ساتھ زندگی جینے کا ہنر سکھانا ہے۔ ان کے سوالوں کو
روایتی جوابات سے نہیں، محبت اور غور و فکر سے جواب دینا ہے۔ کیونکہ جب بچے
سوال کرتے ہیں، تو وہ سیکھنے کی کوشش کر رہے ہوتے ہیں — اور جب ہم جواب
دینے میں ناکام ہو جاتے ہیں، تو ہم انہیں خاموشی کی تعلیم دیتے ہیں۔
یہ صدی اگرچہ ٹیکنالوجی کی صدی ہے لیکن ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ اس کادباؤبچوں
کو کس سمت لے جارہا ہےیا بچے اس کے زیر اثر اب کہاں جا رہے ہیں؟بغور مطالعہ
سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ ج کی دنیا میں بچوں کی دنیا پر کئی دباؤ ہیں —
موبائل، ٹیبلٹ، کارٹون چینلز، اور سوشل میڈیا کے غیر فطری رنگ۔ یہ سب کچھ
ان کی معصومیت کو آہستہ آہستہ نگل رہا ہے۔ وہ کھیل کے میدان سے کٹ کر
اسکرین کے قیدی بن گئے ہیں۔ وہ کہانیاں سننے کے بجائے یوٹیوب کی ویڈیوز میں
گم ہو گئے ہیں۔ ایسے میں ہماری ذمہ داری دوچند ہو گئی ہے
والدین کو چاہیے کہ بچوں کے ساتھ وقت گزاریں۔ ایک وقت تھا جب دادا دادی کی
باتوں میں بچوں کی شخصیت پروان چڑھتی تھی۔ اب وہ روایت ختم ہو رہی ہے۔ وہ
کہانیاں، وہ “ایک تھا بادشاہ، ایک تھی رانی”، صرف کتابوں میں رہ گئی ہیں۔
جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ان کہانیوں میں پوشیدہ حکمت آج بھی بچوں کی تربیت کا
مؤثر ذریعہ بن سکتی ہے۔
ایک اور اہم بات وہ یہ کہ ہم سمجھتے ہیں کہ بچے صرف ہم سے سیکھتے ہیں، لیکن
اگر ہم غور کریں، تو بچے بھی ہمیں جینے کا ڈھنگ سکھاتے ہیں۔ وہ رونا کھل کر
روتے ہیں، ہنسنا دل سے ہنستے ہیں، اور ناراضگی کے بعد فوراً مان بھی جاتے
ہیں۔ ان میں وہ سادگی ہے جو ہم نے کھو دی ہے۔ ان کے دل میں وہ گداز ہے جسے
ہم نے اپنی خود غرضیوں میں دفن کر دیا ہے۔
آج کے شور و شر، الجھنوں اور نفسیاتی دباؤ کے دور میں، اگر کوئی دنیا ہمیں
سکون دے سکتی ہے، تو وہ بچوں کی دنیا ہے۔ آئیے!ہم اس دنیا کو محفوظ رکھیں۔
آئیے، ان کے خوابوں کی حفاظت کریں، ان کی آنکھوں کے خوابوں میں روشنی بنیں۔
اور سب سے بڑھ کر، ان کے اندر کے انسان کو مرنے نہ دیں کیونکہ اگر بچوں کی
دنیا سلامت رہی، تو انسانیت سلامت رہے گی۔
اور اگر وہ دنیا اجڑ گئی، تو ہماری دنیا صرف ایک بھیڑ بن کر رہ جائے گی —
ایک ایسی بھیڑ جسے منزل کا علم نہیں ہوگا۔ڈاکٹر افضل رضوی کے درج ذیل الفاظ
ہمیں سوچنے کی طرف راغب کرتے ہیں:
“بچوں کی آنکھوں میں چھپا خوابوں کا جہاں، ہمیں وہ سچ دکھاتا ہے جسے ہم بڑے
بھول چکے ہیں — ان کی دنیا فقط کھیل کی دنیا نہیں، بلکہ انسانیت کی آخری
پناہ گاہ ہے۔”
|