حیدرآباد میں پیش آنے والا یہ انوکھا واقعہ کہ ایک سات
سالہ بچہ گلی میں کھیلنے سے روکے جانے پر محلے کی دو خواتین کے خلاف تھانے
جا پہنچا، سوشل میڈیا اور خبروں میں زیر بحث ہے۔ بچے کی معصوم شکایت سن کر
پولیس اہلکار کا نرم لہجہ اور مسئلہ حل کرنے کی یقین دہانی، اس چھوٹے واقعے
کو ایک بڑی سماجی کہانی میں بدل دیتی ہے۔
بچہ بظاہر انصاف کی تلاش میں تھا، مگر یہ واقعہ اس سے کہیں زیادہ ہے، یہ
ہمارے معاشرے میں بچوں کے لیے محدود ہوتی کھلی جگہوں، بڑھتی بے صبری، اور
مشترکہ رہائش کے نظام میں پھیلتے عدم برداشت کی عکاسی کرتا ہے۔
کھیل کی جگہ، ایک بنیادی ضرورت ہے جس سے کسی صورت کسی کو محروم نہیں کیا جا
سکتا، کھیلنا بچوں کا حق ہے۔ یونیسف اور دیگر بین الاقوامی ادارے اس بات پر
متفق ہیں کہ کھیل جسمانی نشوونما، ذہنی بہتری اور تخلیقی صلاحیتوں کو جلا
بخشنے کے لیے نہایت ضروری ہے۔ لیکن افسوس کہ ہمارے شہروں میں یہ حق روز
بروز محدود ہوتا جا رہا ہے۔ کبھی میدانوں پر قبضہ ہو جاتا ہے، تو کبھی
سڑکیں اور گلیاں گاڑیوں کی پارکنگ میں بدل جاتی ہیں۔ نتیجہ یہ ہے کہ بچہ اب
اپنی گلی کو ہی میدان سمجھتا ہے، اور جب وہاں بھی اسے روکا جاتا ہے تو وہ
تھانے جا پہنچتا ہے۔
بزرگوں کی بے زاری یا مجبوری؟ یہ واقعہ ایک طرف بچوں کی آواز ہے، تو دوسری
طرف محلے کی خواتین کی بھی ایک کہانی ہے۔ ممکن ہے ان خواتین کو شور و غل سے
کوئی تکلیف ہو، یا ان کے گھر میں کوئی بیمار یا پڑھنے والا ہو، یا شاید وہ
صرف اس لیے ناراض ہوں کہ آج کل کا بچہ ’ادب‘ میں کمی دکھاتا ہے۔ اصل مسئلہ
شاید صرف کھیل کا نہیں، بلکہ ایک مکالمے کی کمی، ایک تعلق کے فقدان کا ہے۔
اس کہانی میں پولیس کا کردار شکایت کنندہ بچے کیلئے ایک امید ہے جہاں سے
اسے اپنا حق ملنے کا قوی یقین ہے ،حیرت کی بات یہ ہے کہ بچہ سیدھا تھانے
گیا، اور پولیس نے بھی مذاق اڑانے کے بجائے اسے تحمل سے سنا، اور تسلی دی۔
یہ پولیس کا ایک مثبت چہرہ ہے، جو معاشرے میں بھروسے کو بڑھا سکتا ہے۔ اگر
یہ سنجیدگی ہر سطح پر نظر آئے تو یقیناً قانون کا وقار بڑھے گا اور بچوں
میں شعور بھی۔
اس واقعہ سے ایک سبق بھی ملتا ہے کہ بچوں کو سنیں، انہیں سمجھیں، اور جگہ
دیں، یہ واقعہ ہمیں بتاتا ہے کہ بچے صرف کھلونے یا اسکول کی کتابوں تک
محدود مخلوق نہیں، بلکہ وہ بھی اپنی جگہ، اپنی آزادی اور اپنے جذبات رکھتے
ہیں۔ ہمیں انہیں سننے کی عادت ڈالنی ہوگی۔ ہمیں ان کے لیے شہر کی منصوبہ
بندی میں جگہ رکھنی ہوگی، اور گلی محلوں میں صبر و برداشت کی ثقافت کو فروغ
دینا ہوگا۔
سات سالہ بچے کی تھانے میں حاضری بظاہر ایک معصوم سی شرارت یا نادانی لگتی
ہے، لیکن یہ ہمارے لیے آئینہ ہے۔ آئینہ جس میں ہمیں اپنے شہروں، رویوں، اور
ترجیحات کو دیکھنا ہے۔ اگر ہم نے بچوں کے کھیلنے کی جگہوں کو محفوظ نہ کیا،
اور اگر ہم نے تعلقات میں تحمل پیدا نہ کیا، تو آنے والے وقت میں شاید بچے
تھانوں سے عدالتوں تک کا راستہ بھی سیکھ لیں گے۔
|