نئی نسل کے کچھوے اور خرگوش کی دل چسپ کہانی : :نئی اُڑان
(Zulfiqar Ali Bukhari, Islamabad)
کچھوے اور خرگوش کی دوڑ کا ماجرا،جنھوں نے تاریخ بدلنے کا فیصلہ کرلیا تھا۔
ایک ایسی دوڑ کی کہانی،جس میں قسمت نے بازی جیت لی تھی۔
|
|
ازقلم: ذوالفقارعلی بخاری
٭……٭ کئی صدیوں سے جاری تنازعے کے سبب نئی نسل کے کچھوے اور خرگوش میں ناراضی چل رہی تھی۔اِس کی وجہ وہ مشہور زمانہ ”دوڑ“ تھی جس میں دونوں کے بڑوں نے شرکت کی تھی۔ کچھوے کی جیت تاریخ ساز قرار پائی تھی۔ خرگوش کی شکست دنیا بھر میں عبرت کی مثال بن چکی تھی۔ کچھوے کی جیت کو خرگوش کے خاندان نے کبھی دل سے تسلیم نہیں کیا تھا۔کچھوے کا خاندان ہمیشہ تشہیر کرتا تھا کہ وہ مسلسل محنت پر یقین رکھتا ہے اور منزل سے قبل ہار تسلیم کرنے کا عادی نہیں۔ نئے دور کے خرگوش کا موقف تھا کہ جب مخالف کھلاڑی سویا ہوا تھا تو مقابلے کو جاری رکھنا ”سپورٹس مین شپ“ کی خلاف ورزی تھی۔ اُس جیت کا کیا فائدہ جس میں مخالف کھلاڑی عالم بے ہوشی میں ہو اورکوئی موقع سے فائدہ اُٹھا لے۔ نئی نسل کے رہنما کچھوے کا نظریہ اِس کے برعکس تھا۔ اُس کا ماننا تھا کہ جب دوڑ کے لیے فریقین شرائط طے کیے بغیر اتفاق کر چکے تھے کہ جو پہلے پہنچے گا وہی جیتے گا،اِس تناظر میں موقع سے فائدہ نہ اُٹھانا بے وقوفی تھی۔ کچھوے اور خرگوش نے باہمی مشاورت سے طے کیا کہ بزرگوں کی دوڑ کو کالعد م قرار دیا جائے۔ماضی کو بھول کر ایک بار پھر قسمت آزمائی کی جائے۔اُ ن کے درمیان معاہدہ ہواکہ درست راستے کی نشان دہی کے لیے جدید سمت نما آلہ (کمپاس/قطب نما) کا استعمال کیا جائے گا۔اگرکوئی فریق فطری تقاضوں کے مطابق سو جاتا ہے تو پھر دوسرا فریق جاگنے کا انتظار کرے گا۔بارش، زلزلے یا سیلاب کی صورت میں ”دوڑ“ کو غیرمعینہ مدت کے لیے ملتوی کیا جائے گا۔اِس کا مقصد اپنی اورمخالف کھلاڑی کی جان کا تحفظ یقینی بنانا تھا۔کچھوے اور خرگوش نے اہم فیصلے کر نے کے بعد دوڑکی تاریخ مقرر کی۔ مقررہ دن صبح چار بجے دوڑ کے آغاز کا فیصلہ کیا گیا۔ چوں کہ گرمیوں کے دن تھے تو خرگوش اورکچھوے نے صبح کی سیر کو دوڑ کے رنگ میں ڈھال دیا۔ اُس روز محکمہ موسمیات کے مطابق بارش کا کوئی امکان نہیں تھا۔ خرگوش اور کچھوے نے پانی سے محروم دریائے ستلج کے اندرکم فاصلے و محدود وقتی دوڑ(sprinting)کا فیصلہ کیا تھا تاکہ نئے رجحان کو متعارف کروایا جائے۔ اُنھوں نے مقررہ مقام کا تعین کچھ ایسا کیا تھا کہ اگر اچانک دریائے ستلج میں پانی چھوڑا جاتا ہے تو اُنھیں فوراََ دکھائی دے اور وہ اپنی جان بچا سکیں۔ خرگوش اور کچھوے نے دوڑ سے قبل ایک دوسرے کو دیکھا اور پھر مقررہ مقام پر کھڑے ہو گئے۔اُنھوں نے آنکھوں ہی آنکھوں میں ایک دوسرے کو یوں گھورا جیسے خون پینے کے درپے ہوں۔ ایک بار پھر تاریخ لکھی جا رہی تھی اِسی وجہ سے دریائے ستلج کے دونوں کناروں پر کچھوے اورخرگوش کی برادری جمع تھی۔اچانک دونوں کے حلق سے آوازیں نکلیں اوردونوں نے ”مقابلہ“ شروع کر دیا۔ ابھی اُنھوں نے پچاس گز کا فاصلہ ہی طے کیا تھا کہ سامنے سے پانی برق رفتاری سے آتا دکھائی دیا۔ موت کو سامنے دیکھ کر خرگوش گھبرایا اورکچھو ا مسکرایا۔ دریائے ستلج پر قسمت کی دیوی مہربان ہو چکی تھی اورمقابلہ کرنے والوں سے روٹھ گئی تھی۔ کچھوے اور خرگوش نے ایک دوسرے کو آنکھوں سے اشارہ کیا کہ جان بچانا چاہیے۔اُنھوں نے یوں رخ تبدیل کیا تھا کہ اب پانی اُن کے پیچھے تھا۔کچھوا چوں کہ پانی میں رہنے کا عادی تھا چناں چہ جیسے ہی پانی کچھ بلند ہوا،اُس نے آرام سے تیرنا شروع کر دیا۔پانی کا بہاؤ تیز ہوا تو کچھوے سے چند انچ کی دور پربھاگتے خرگوش نے تیرتے ہوئے کچھوے کا سہارالینے کا سوچا اور تیزی سے چھلانگ لگا کراپنے حریف کی پیٹھ پر سوار ہو گیا۔ کچھوا مزے سے تیرتے ہوئے کنارے پر جا پہنچا اور خشکی پر پہنچتے ہی خرگوش اُس کی پیٹھ سے اتر گیا۔ حیران کن طور پر اُن کی بھاگ دوڑ مقررہ فاصلے سے زیادہ کی ہو چکی تھی۔دریائے ستلج کے دونوں کناروں پر جو ش و خروش سے نعرے لگائے جا رہے تھے۔ خرگوش اور کچھوے کو زندگی کا ایک اہم فلسفہ سمجھ آگیا تھا کہ جب زندگی داؤ پر لگی ہو تو جان بچانا سب سے بڑی جیت ہے۔اُنھیں احساس ہو گیا تھا کہ جب برابری اوراُصولوں کی بنیاد پر مقابلہ کیا جاتا ہے تو پھر ہار جیت بے معنی رہ جاتی ہے اورمسلسل جہدوجہد اہمیت کی حامل ہو جاتی ہے۔ ۔ختم شد۔ بشکریہ بازیچہ اطفال(روزنامہ اساس، راولپنڈی) مورخہ 13ستمبر2025 |