بچوں نے چور پکڑا
(Engr. Dr. Ali Azam, Okara)
ایک چھوٹے سے قصبے کے سرکاری اسکول کی عمارت نہایت سادہ اور بنیادی سہولیات سے محروم تھی۔ کلاس رومز میں اینٹ اور سیمنٹ کے فرش اور لکڑی کے بینچ رکھے تھےجبکہ ٹوٹی پھوٹی کھڑکیوں کے شیشوں سے دھوپ ٹکڑوں کی صورت میں اندر آتی تھی۔ اسکول کی حالت یہ تھی کہ وہاں پڑھنے والے بچوں کے پاس کتابوں اور بستوں کے سوا تعلیمی سہولیات کے نام پر کچھ نہیں تھا لیکن اس کے باوجود وہ اپنی معصوم آنکھوں میں بہتر مستقبل کے خواب سجائے روزانہ اسکول آتے تھے۔
اسکول میں سب سے بڑی کمی پینے کے صاف پانی اور ٹوائلٹ کی سہولت نہ ہونا تھا جس کی وجہ سے بچوں کو بہت مشکل ہوتی ۔ ان حالات میں اسکول کے قریب واقع مسجد ہی بچوں کے لیے سہولت اور آسودگی کا واحد مرکز تھی جہاں وضو خانہ اور بیت الخلا موجود تھے اور ساتھ ہی ٹھنڈا مگر کڑوا پانی بھی دستیاب تھا ۔
اسکول انتظامیہ نے بچوں کو اجازت دے رکھی تھی کہ وہ ہنگامی ضرورت یا پانی پینے کے لیے مسجد جا سکتے ہیں مگر اس کے لیے سخت اصول وضع کیے گئے تھے تاکہ بچے اسکول کے وقت میں بلاوجہ باہر نہ جائیں۔ اس مقصد کے لیے ایک منفرد نظام بنایا گیا تھا۔ہر کلاس میں ایک لکڑی کا گیٹ پاس رکھا جاتا جو ہیڈماسٹر صاحب کے دستخط شدہ ہوتا اور ہمیشہ کلاس مانیٹر کے پاس رہتا۔ اگر کسی بچے کو بیت الخلا استعمال کرنے یا پانی پینے کے لیے مسجد جانا ہوتا تو وہ یہ گیٹ پاس مانیٹر سے لے کر اسکول کے گیٹ پر موجود چوکیدار کو دکھاتا اور پھر باہر جاتا۔اس نظام کی خاص بات یہ تھی کہ ایک وقت میں کلاس کا صرف ایک ہی بچہ مسجد جا سکتا تھااور گیٹ پاس زیادہ سے زیادہ بیس منٹ کے لیے ہی دیا جاتا تاکہ بچہ وقت پر واپس آ کر کلاس میں شامل ہو سکے اور اسکول کا نظم و ضبط قائم رہے۔
عبداللہ، جو پانچویں جماعت کا طالبِ علم تھا، حسبِ معمول اپنی کلاس سے مسجد جانے کے لیے مانیٹر سے گیٹ پاس لے کر نکلا۔ گرمیوں کے دن تھے، دوپہر کا وقت، سورج آگ کی طرح دہک رہا تھا اور گلیوں میں سناٹا طاری تھا۔ جب وہ مسجد کے مین گیٹ کے قریب پہنچا تو اس کی نظر ایک پرانی سائیکل پر پڑی جو گیٹ کے سامنے کھڑی تھی۔ اس کی گدی پھٹی ہوئی تھی اور ہینڈل زنگ آلود لگ رہا تھا۔وضو خانے کی طرف بڑھتے ہوئے عبداللہ نے بہتے پانی کی مدھم سی آواز سنی۔ وہ قریب پہنچا تو اس کی نگاہ ایک شخص پر پڑی۔ وہ بظاہر وضو کرتے ہوئے آہستہ آہستہ اپنے چہرے اور ہاتھوں پر پانی ڈال رہا تھا۔ لیکن حقیقت میں معاملہ کچھ اور تھا۔ وہ ایک ہاتھ سے وضو کا تاثر دے رہا تھاجبکہ دوسرے ہاتھ سے نہایت مہارت اور خاموشی کے ساتھ وضو خانے کی نل ایک ایک کر کے کھول رہا تھا۔ یہ سب کچھ اتنی صفائی سے ہو رہا تھا کہ دور سے دیکھنے والا اسے محض ایک عام نمازی ہی سمجھتا۔
ہر نل کھولنے کے بعد وہ نہایت مہارت سے بڑے پائپ کے سوراخ میں مکئی کا ڈنٹھل پھنسا دیتا تاکہ پانی کا بہاؤ رک جائے اور کسی کو شک نہ ہو۔قریب ہی ایک تھیلا پڑا تھا جس میں وہ کھولی گئی نل ایک ایک کر کے جمع کرتا جا رہا تھا۔عبداللہ یہ منظر دیکھ کر حیران رہ گیا۔ کچھ لمحے وہ وہیں کھڑا سوچتا رہا پھر ہمت کر کے اس شخص کے قریب گیا اور بولا: آپ یہ نل کیوں کھول رہے ہیں؟ وہ شخص پرسکون لہجے میں بولا، یہ پرانی اور خراب ہو چکی ہیں۔ اب ان کی جگہ نئی نل لگانی ہیں۔ عبداللہ نے مزید سوال کیا، اگر نئی نل لگانی ہیں تو فوراً کیوں نہیں لگا رہے؟ اور ان میں مکئی کے ڈنٹھل کیوں ڈال رہے ہیں؟ یہ سن کر وہ شخص لمحہ بھر کے لیے گھبرا گیا اور جلدی سے بولا، میں شام کو نئی نل لگاؤں گاابھی تو پرانی نل ہی اتار رہا ہوں۔ عبداللہ کو یہ وضاحت بالکل بھی تسلی بخش نہ لگی کیونکہ اس نے اس شخص کو پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ اسکول اور مسجد کی کمیونٹی اتنی چھوٹی تھی کہ وہاں ہر کوئی ایک دوسرے کو جانتا تھااور کسی اجنبی کا یوں اچانک آ کر وضو خانے کی نل کھولنا عبداللہ کے لیے نہایت مشکوک لگ رہا تھا۔
وہ کچھ لمحے وہیں کھڑا سوچتا رہاپھر آہستہ اور پرسکون انداز میں مسجد سے باہر نکلا۔اس کے ذہن میں طرح طرح کے سوالات گردش کر رہے تھے اور دل میں ایک انجانا سا خدشہ جنم لے رہا تھا۔سیدھا امام صاحب کے گھر پہنچ کر اس نے پورا واقعہ بیان کیا۔ امام صاحب نے عبداللہ کی بات نہایت غور سے سنی اور معاملے کی سنگینی کو فوراً بھانپ لیا۔بغیر کسی تاخیر کے وہ فوراً عبداللہ کے ساتھ تیز قدموں سے مسجد کی طرف دوڑے۔لیکن جب وہ مسجد پہنچے تو یہ منظر دیکھ کر حیران رہ گئے کہ وہ اجنبی شخص تمام نل اپنے تھیلے میں ڈال چکا تھا اور سائیکل پر سوار ہو کر تیزی سے نکل چکا تھا۔امام صاحب اور عبداللہ نے فوراً اس کا پیچھا کرنے کی کوشش کی مگر وہ شخص سائیکل اتنی مہارت اور پھرتی سے چلا رہا تھا جیسے کوئی ماہر کھلاڑی ہو اور لمحوں میں گلی کا موڑ کاٹتا ہوا نظروں سے اوجھل ہو گیا۔اب وہ دونوں مایوسی بھری نظروں سے ایک دوسرے کو دیکھ رہے تھے۔امام صاحب نے گہری سانس لیتے ہوئے کہا،عبداللہ بیٹا، تم نے بروقت خبر دی ورنہ نقصان اور بھی زیادہ ہو سکتا تھا۔ اتنے میں اچانک اسکول کی چھٹی کی گھنٹی بجی۔لمحوں میں اسکول کا دروازہ کھلا اور سینکڑوں بچے باہر نکل آئے۔عبداللہ نے اس موقع کو غنیمت جانتے ہوئے زور سے شور مچانا شروع کر دیا، وہ چور ہے! وہ چور ہے! اُدھر جا رہا ہے! پکڑو اسے! پکڑو! اسکول کے بچے فوراً متوجہ ہوئے اور ایک زبردست شور مچ گیا۔وہ شخص اسکول سے تقریباً پانچ سو میٹر دور ہی پہنچا تھا کہ بچے اس کے پیچھے دوڑ پڑے۔یہ منظر ایسا تھا جیسے پورا قصبہ اُمڈ آیا ہو۔بڑے بچے تیزی سے آگے بڑھ کر اس کا راستہ روکنے کی کوشش کرنے لگے جبکہ چھوٹے بچے پیچھے دوڑتے رہے۔کچھ بچے سائیکل کی رفتار کو مات دینے کے لیے اپنی پوری طاقت سے دوڑ رہے تھے۔تقریباً آٹھ سو میٹر کا فاصلہ طے کرنے کے بعد بالآخر بچوں نے اسے چاروں طرف سے گھیر لیا۔کسی نے سائیکل کا ہینڈل پکڑ لیا تو کسی نے چور کو ۔چور نے خود کو چھڑانے کی بھرپور کوشش کی مگر بچوں کے عزم اور طاقت کے آگے وہ بے بس ہو گیا۔لمحہ بھر میں شور و غل کے درمیان وہ شخص مکمل طور پر قابو میں آ گیا۔ سائیکل، تھیلا، نل اور خود چور سب کو فاتحانہ انداز میں اسکول کے ہیڈماسٹر صاحب کے سامنے پیش کر دیا گیا گویا کسی معرکے کے بعد دشمن کو گرفتار کر کے لایا گیا ہو۔چھوٹے چھوٹے بچے نعرے لگا رہے تھے، ہم نے چور پکڑا! ہم نے چور پکڑا!
ہیڈماسٹر صاحب نے مسجد کے امام صاحب کو نل واپس کیں اور فوراً پولیس کو اطلاع دی۔تھوڑی ہی دیر میں پولیس موقع پر پہنچ گئی۔شور و غل دیکھ کر لوگ بھی جمع ہو گئے۔پولیس نے چور کو حراست میں لیا اور تھانے لے گئی۔
اگلے دن اسکول کی اسمبلی میں ایک خاص اعلان کیا گیا۔تمام طلبہ قطاروں میں کھڑے تھے۔ہیڈماسٹر صاحب نے عبداللہ کا نام پکارا ۔عبداللہ پُر اعتماد قدموں کے ساتھ آگے بڑھا۔ہیڈماسٹر صاحب نے پوری اسکول کمیونٹی کے سامنے کہایہ ہمارے اسکول کا وہ ذہین اور بیدار نظر بچہ ہے جس کی تیز نظر اور حاضر دماغی کی بدولت ہم نے مسجد اور اپنے گھروں کو ایک بڑے نقصان سے بچا لیا۔پھر انہوں نے عبداللہ کو نقد انعام دیا اور بچے زور زور سے تالیاں بجانے لگے۔ہیڈماسٹر صاحب نے سب بچوں کو نصیحت کی ہم سب کو عبداللہ سے سبق لینا چاہیے۔ اگر ہم اپنے آس پاس کے حالات پر گہری نظر رکھیں اور ذمہ داری کا مظاہرہ کریں تو ہم نہ صرف اپنے اسکول بلکہ اپنے گھروں اور محلے کو بھی محفوظ رکھ سکتے ہیں۔یہ واقعہ پورے علاقے کے لیے ایک سبق تھا۔ سب نے یہ طے کیا کہ ہمیں نہ صرف اپنی چیزوں کا خیال رکھنا چاہیے بلکہ اپنے اردگرد کے حالات اور مشکوک افراد پر بھی گہری نظر رکھنی چاہیے۔
آج جب پاکستان شدید سیلاب کا شکار ہے لاکھوں لوگ بے گھر ہو گئے ہیں اور بے شمار علاقے پانی میں ڈوبے ہوئے ہیں ایسے نازک وقت میں کچھ لوگ دوسروں کی مجبوری کا فائدہ اٹھا کر لوٹ مار کرتے ہیں اور لوگوں کے خالی گھروں سے سامان چرا لیتے ہیں۔یہ کہانی ہمیں یاد دلاتی ہے کہ اگر ہم سب مل کر ہوشیار رہیں اور ایک دوسرے کی مدد کریں تو ایسے عناصر کو کبھی کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔عبداللہ اور اسکول کے بچوں نے یہ ثابت کر دیا کہ بیداری اور اتحاد سے بڑے سے بڑا نقصان بھی روکا جا سکتا ہے۔یہ صرف ایک اسکول یا مسجد کی کہانی نہیں بلکہ پورے معاشرے کے لیے ایک اہم پیغام ہے کہ اگر ہم سب اپنی آنکھیں کھلی رکھیں دوسروں کا خیال رکھیں اور ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کریں تو کسی کو بھی ہمارے ملک کے امن اور سکون کو نقصان پہنچانے کا موقع نہیں ملے گا۔
|