ملتان میٹرو پراجیکٹ کا ابتدائی تخمینہ تقریباً 167 ملین
ڈالرز یعنی ساڑھے 17 ارب روپے سے زائد تھا۔
اس پراجیکٹ کا ایک فیز حبیب رفیق لمیٹڈ کو ایوارڈ کیا گیا۔ حبیب رفیق نے یہ
پراجیکٹ پھر آگے کیپٹل انجنیئرنگ نامی کمپنی کو سب کانٹریکٹ کردیا۔ کیپٹل
انجینئرنگ نے یہی پراجیکٹ ' یابیٹ ' نامی چینی کمپنی کو سب کانٹریکٹ کردیا،
یوں اصل سٹیک ہولڈر یعنی یابیٹ نامی چینی فرم کی جیب میں مال پہنچا دیا
گیا۔
حبیب رفیق نے 57 ملین ڈالرز کا پراجیکٹ فیز سب کانٹریکٹ کیا، جس میں سے
ساڑھے 37 ملین ڈالرز یابیٹ کے حصے میں آئے۔
25 مارچ 2016 کو یابیٹ نے جب اپنی سالانہ رپورٹ میں 32 ملین ڈالرز کا منافع
شو کیا تو چین کی ریگولیٹری اتھارٹی کے کان کھڑے ہوگئے۔ انہوں نے خاموشی سے
تحقیقات کرنا شروع کیں تو پتہ چلا کہ
2 جنوری 2015 کو یابیٹ نے الاوائل ایمپلائمنٹ نامی شارجہ کی ایک لیبر
سپلائی فرم سے 2 اعشاریہ بتیس ملین ڈالرز کا لیبرسپلائی کا معاہدہ کیا تاکہ
وہ ملتان پراجیکٹ کیلئے لیبر سپلائی کرسکیں۔
یہ کتنا بڑا لطیفہ ہے کہ پاکستان میں میٹرو کی تعمیر کیلئے چائنہ کی کمپنی
شارجہ کی ایک کمپنی سے مہنگے داموں لیبر حاصل کررہی ہے، حالانہ سب جانتے
ہیں کہ چینی لیبر سستی ترین ہوتی ہے اور اس کے بعد پاکستان کی مقامی لیبر
بھی بآسانی دستیاب تھی۔ آپ انٹرنیٹ پر سرچ کریں تو الاوائل نامی کمپنی کے
نام پر بہت سے فراڈ رپورٹ ہوچکے ہیں۔ پھر یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ
یابیٹ نامی کمپنی نے ڈھائی ملین ڈالرز کا معاہدہ اتنی مشکوک کمپنی سے کیسے
کرلیا؟
وجہ جاننا چاہیں گے؟ شارجہ کی یہ کمپنی شریف خاندان کی ملکیت ہے اور اسی
کمپنی نے خواجہ آصف کا ابوظہبی میں اقامہ بھی لگوا کر دیا تھا۔
آگے چلیں۔
یابیٹ نے تقریباً 16 لاکھ ڈالرز کا میٹریل سپلائی کا معاہدہ ایک پاکستانی
فرم سے کیا جس کا نام ساہی سپلائی کمپنی تھا۔ اس کمپنی کا کوئی ریکارڈ آجکل
ایس ای سی پی کے پاس موجود نہیں۔ یہ کمپنی صرف ملتان میٹرو کیلئے قائم کی
گئی اور رقم بٹورنے کے بعد ہوا میں تحلیل کردی گئی۔
25 مارچ 2016 تک کیپٹل انجینئرنگ نامی فرم نے یابیٹ کو تقریباً 20 ملین
ڈالرز کی ادائیگی کی، جس میں سے ڈھائی ملین ڈالرز ڈائریکٹ ٹرانسفر ہوئے،
جبکہ 17 ملین ڈالرز سے زائد رقم 16 مختلف کمپنیوں کے ذریعے ادا کی گئی جو
امریکہ، ہانک کانگ، دبئی، ملائشیا اور چند دوسرے ممالک میں موجود تھیں۔
کیپٹل انجینئرنگ کو یہ رقم ڈائریکٹ ٹرانسفر کرتے موت پڑتی تھی؟ یاد رہے کہ
منی لانڈرنگ ورلڈ میں اسے چین ٹرانزیکشنز کی ٹیکنیک کہا جاتا ہے جس کے
ذریعے رقم ایک اکاؤنٹ سے دوسرے، پھر تیسرے، چوتھے اور کئی اکاؤنٹس سے
گھمائی جاتی ہے تاکہ ریگولیٹرز اس کا سورس ڈھونڈنے سے قاصر رہیں۔
جس کام کیلئے کیپٹل انجینئرنگ نے یابیٹ نامی کمپنی کو ساڑھے 32 ملین ڈالرز
دیئے، وہی کام پھر چائنہ ریلوے فرسٹ گروپ نامی کمپنی کو 24 ملین ڈالرز دے
کر کروایا گیا۔
چائنہ سیکیوریٹیز ریگولیٹری کمیشن نے مزید تحقیقات کی غرض سے پاکستان کا
دورہ کیا اور اس مقصد کیلئے ایس ای سی پی کو خط بھی لکھے اور ان سے
بالمشافہ ملاقاتیں بھی ہوئیں۔
پھر انہوں نے اسلام آباد کے میریٹ ہوٹل میں کیپٹل انجینئرنگ کے ڈائریکٹر سے
بھی انٹرویوز کئے اور تفتیش کی۔ یہ ڈائریکٹر فیصل سبحان تھا جو کہ آج کل
لاپتہ ہوچکا ہے۔
فیصل سبحان کو جب چینی حکام نے وارننگ دیتے ہوئے بتایا کہ وہ اپنے ذرائع سے
کام لیتے ہوئے نہ صرف اصل حقائق کا پتہ چلا لیں گے بلکہ کرپشن کے خلاف بین
الاقوامی کورٹس میں بھی جاسکتے ہیں تو اس کے پیروں تلے زمین نکل گئی۔
پھر فیصل سبحان نے انہیں بتایا کہ یابیٹ نامی چینی فرم کا 70 فیصد شئیر
ہولڈر کوئی اور نہیں بلکہ خادم اعلی شہباز شریف ہے۔ چینی حکام نے اس ضمن
میں ایک انتہائی اعلی سطح پر نوٹس لیتے ہوئے پاکستان کو لیٹر بھی لکھا ہے
اور یہ معاملہ ابھی تک حل طلب ہے۔
جب اس واقعہ کی رپورٹ سامنے آئی تو شہبازشریف نے حسب معمول منہ سے کف بہاتے
ہوئے اس سارے واقعے کو جھوٹا قرار دے دیا اور کہا کہ اگر ایک روپے کی کرپشن
ثابت ہوجائے تو وہ سولی پر چڑھنے کو تیار ہے۔ اگلے دن چینی حکام نے اپنی خط
و کتابت کا ایک حصہ میڈیا میں ریلیز کردیا جس پر خادم اعلی نے اگلے دن پریس
کانفرنس کرتے ہوئے فیصل سبحان کے وجود سے ہی انکار کردیا۔
وہ دن ہے اور آج کا دن، فیصل سبحان نامی شخص کا کچھ پتہ نہیں۔ جبکہ چینی
حکام کے آفیشل لیٹر کے مطابق وہ اس سے مل چکے ہیں اور تمام ٹینڈرز اور
پیمنٹ کی تفصیل حاصل کرچکے ہیں۔
اب حال ہی میں شہبازشریف نے تسلیم کرلیا کہ فیصل سبحان نے اس کے جعلی لیٹر
سے اس کے نام کمپنی قائم کی۔
اب اس بات کو کون تسلیم کرے گا کہ ' گڈ گورننس کے سردار ' کی ناک کے نیچے،
اس کے جعلی لیٹر سے ایک کمپنی رجسٹرڈ ہوئی، پھر اسی کمپنی کو ساڑھے 32 ملین
ڈالرز کا سب کانٹریکٹ دیا گیا، دو سال تک وہ کمپنی ملتان میٹرو کے پراجیکٹ
پر دندناتی پھرتی رہی اور خادم اعلی کو خبر تک نہ ہوسکی۔
پتہ نہیں فیصل سبحان اب زندہ بھی ہے یا نہیں، البتہ شہبازشریف نہ صرف زندہ
ہے بلکہ مسلم لیگ کا صدر بھی بن چکا۔
اگر لوٹ مار اور کرپشن کو آپ سائنس کہیں تو شریف برادران کا درجہ آئن سٹائن
سے بھی اونچا بنتا ہے ۔ ۔ ۔ انہوں نے کرپشن کے ایسے ایسے طریقے ایجاد کئے
کہ جو شاید شیطان کے بھی علم میں نہیں تھے! |