ضلع کرک سے تعلق رکھنے والی عظمی ایوب بھی این جی اوز ہی
کی متعارف کردہ طوائف تھی۔ اس نے بھی قانون نافذ کرنے والے اداروں اور
پولیس کے خلاف بلکل شازیہ کے انداز میں گینگ ریپ کا ڈراما کیا۔
اس ڈرامے نے پشاور ھائی کورٹ کی توجہ حاصل کی اور میڈیا میں بھی جگہ بنائی۔
لیکن بدقسمتی سے ڈرامے کی ڈائرکشن کافی کمزور رہی۔ تاہم عظمی ایوب سول
کالونی میں پشاور ھائی کورٹ کے حکم پر ایک انتہائی مہنگا فلیٹ حاصل کرنے
میں کامیاب رہیں۔ لیکن عظمی ایوب عالمی پزیرائی حاصل نہ کر سکیں کیونکہ وہ
ڈاکٹر شازیہ کی طرح زلزلہ برپا کرنے میں ناکام رہیں۔
غالب گمان ہے کہ 2009ء میں ریلیز ہونے والی سوات کی بدنام زمانہ ویڈیو میں
بھی ایسی ہی کسی لڑکی کی خدمات حاصل کی گئی تھیں۔ اس ویڈیو کو پاکستان کی
اعلی عدلیہ سمیت کئی تحقیقاتی اداروں نے جعلی قرار دیا۔ بقول ان کے ویڈیو
سٹیج کی گئی تھی۔
اس وڈیو کی پاکستانی میڈیا نے بھرپور تشہیر کی تھی۔ ویڈیو کا مقصد پاک فوج
پر پاکستانی عوام اور عالمی برادری کا دباؤ بڑھانا تھا تاکہ وہ اپنی ہی
سرزمین پر جنگ کر سکیں اور پاک فوج کو سوات کی پیچیدہ وادیوں میں پھنسایا
جا سکے۔
ویڈیو اپنا مقصد حاصل کرنے میں کامیاب رہی اور پاک فوج نے دہشت گردوں کے
خلاف پہلا بڑا آپریشن لانچ کیا۔ تاہم یہ الگ بات ہے کہ افواج پاکستان نے
ناقابل یقین تیزی سے یہ آپریشن مکمل کر کے دنیا کو حیران کر دیا۔
شرمین عبید چنائے بھی ایک عالمی طوائف ہی ہے۔ عام طوائف اپنا جسم بیچتی ہے
لیکن شرمین عبید جیسی طوائفیں پورے قوم کے وقار اور عزت کا سودا کرتی ہیں۔
شرمین عبید نے غریب پاکستانی عورتوں کو دھوکہ دیا جن کے چہرے تیزاب پھینکے
جانے سے بگڑ گئے تھے اور اس وعدے پر انکی ڈاکومینٹری ویڈیوز بنائیں کہ وہ
انکا علاج کرے گی۔ ان ویڈیوز کے زریعے اس نے دنیا کے سامنے پاکستانی معاشرے
کی منفی تصویر کشی کی اور پاکستان کو خواتین کے لیے ایک غیر محفوظ ملک ثابت
کیا۔
غریب عورتوں کو دھوکہ دینے اور پاکستانی معاشرے کے خلاف منفی مواد تیار
کرنے پر شرمین عبید چنائے کو آسکر ایوارڈ، عالمی شہرت اور بے پناہ دولت سے
نوازا گیا۔
ویڈیوز بنانے والے کئی ماہرین کے نزدیک ان کی ویڈیوز میں سوائے اس کے اور
کوئی خوبی نہیں کہ ان میں پاکستان پر تنقید کی گئی ہے۔
نام نہاد ملالہ یوسفزئی ( ملالہ "یوسفزئی" نہیں بلکہ "ملاخیل" ہے) اس پیشے
سے وابستہ عالمی اسٹیبلشمنٹ کا تیار کردہ سب سے بڑا کردار ہے۔ ضلع شانگلہ
شاہ پور سے تعلق رکھنے والی ملالہ کا خاندان لنڈی خاص مینگورہ ضلع سوات میں
نوے کی دہائی میں منتقل ہوا۔
ملالہ یوسفزئی کے لالچی باپ ضیاالدین یوسفزئی کو سی آئی اے نے بی بی سی کی
مدد سے ھائر کیا۔ بی بی سی کے کاکڑ اور بٹا گرام سے تعلق رکھنے والے احسان
داور نے ضیاالدین کو بی بی سی کے لیے "ڈائریز" کے نام پر جعلی اور انجنریڈ
خطوط لکھنے کےلیے تیار کیا۔ عائشہ نامی لڑکی کے انکار کے بعد ضیاالدین یوسف
زئی نے اس کام کے لیے اپنی بیٹی ملالہ پیش کی۔ ملالہ کے لیے گل مکئی کا
قلمی نام تجویز کیا گیا۔
یہ ڈائریاں مبالغے سے بھرپور اور دہشت گردوں ( سی آئی اے ہی کی زرخرید
ایجنٹس) کی کامیابیوں پر رننگ کمنٹریاں تھیں۔ انکا مقصد عوام کا مورال ڈاؤن
کرنا، پاک فوج کو آپریشن کے لیے مجبور کرنا اور دنیا کو یقین دلانا تھا کہ
پاکستانی ریاست اپنے کئی علاقے کھو چکی ہے اور دہشت گرد اسلام آباد کے قریب
ہیں۔
گل مکئی کے نام سے لکھے گئے ان جعلی خطوط اور پاکستانی میڈیا نے لال مسجد
والے واقعے کے ساتھ ملکر اس ساری صورت حال کو جنم دیا۔ لال مسجد کیس میں سی
ڈی اے کے کچھ عناصر نے غیر ملکی اشارے پر اسلام آباد کے مختلف علاقوں میں
اچانک 7 مساجد کو گرانے کا حکم دیا جس کے بعد وہ سارا کھیل شروع ہوا۔
ملالہ کو ھالینڈ نے امن کے ایوارڈ سے نوازا۔ جبکہ پاک فوج کے ہاتھوں شکست
کھانے والے دہشت گردوں کو سی آئی اے نے افغانستان کے صوبوں کنڑ اور نورستان
میں امریکہ اور نیٹو کی چھتری تلے محفوظ پناہ گاہیں فراہم کی گئیں۔ جہاں سے
پاکستان میں انکی کاروائیاں آج بھی جاری ہیں۔
////// ملالہ والے معاملے کی تفصیل جاننا چاہیں تو Issues & Events ایپ
انسٹال کیجیے جہاں " ملالہ یوسف زئی، دہشت گردی اور سرکاری سکولوں کی تباہی
" کے عنوان سے پانچ حصوں پر مشتمل تفصیلی مضمون شیر کیا گیا ہے //////
بی بی سی نے مختلف این جی اوز کے ساتھ ملکر پاکستان دشمن ایجنسیوں کے تعاؤن
سے پاکستان پر دہشت گردی کے خلاف جنگ کو مسلط کیا۔
این جی اوز دہشت گردی کے لیے زمین ہموار کرتی رہیں تو پاکستانی میڈیا تمام
دہشت گردانہ واقعات کو براہ راست نشر کر کے لوگوں کے دلوں میں دہشت پھیلاتا
رہا اور یوں ریاست کو غیر مستحکم کرنے کا سلسلہ جاری رکھا۔
جبکہ پاک فوج اپنی ہی سرزمین پر اپنی جانیں دے کر دہشت گردوں کے چنگل سے
پاکستانی علاقے چھڑاتی رہیں۔
پاکستانی عوام کا اپنے دفاع پر بھروسہ توڑنے کے لیے پاکستان پر ڈرون حملے
جاری رکھے گئے۔
طالبان سے خفیہ روابط رکھنے والے ریمنڈ ڈیوس نے پاکستانی سرزمین پر
پاکستانی ایجنسیوں کے دو اہلکاروں کو شہید کر دیا۔ دیت کے ذریعے اسکی رہائی
کا حکم جاری کرنے والی ہماری بے مثل عدلیہ کا خطرناک کردار ارباب خان نامی
مجسٹریٹ جیسا ہی تھا جس نے 80 سال قبل بڈہ بیرے کے زبیر کو سزا سنائی تھی۔
خلاصہ ۔۔۔۔۔
عوام میں پاک فوج کی بے پناہ مقبولیت کی وجہ سے مغرب کو پاکستان کو
نیوکلئیر ہتھیاروں سے غیر مسلح کرنے میں مشکل پیش آرہی ہے۔
اس لیے پاک فوج کی ساکھ کو نقصان پہنچانے کے لیے مغرب نے طوائفوں کے ذریعے
پاک فوج کو بدنام کرنے کی کوششیں کیں تاکہ عوام اور افواج میں دوریاں پیدا
کی جا سکیں بلکل ویسے ہی جیسے حکومت برطانیہ نے بڈہ بیرے کے زبیر کے ساتھ
کیا تھا۔
کیا آپ نوٹ نہیں کر رہے میڈیا اور سوشل میڈیا پر موجود مغربی کٹھ پتلیوں کا
سارا زور اسی پر ہے کہ کسی طرح عوام میں افواج کے خلاف نفرت پیدا کی جا
سکے۔
آپ یقین کییجیے وہ وقت دور نہیں جب تھک ہار کر عالمی طاقتیں پاکستان کے
سامنے دو آپشنز رکھیں گی کہ یا تو خود ہی اپنے ایٹمی اثاثوں سے دست بردار
ہوجاؤ یا ہم بذریعہ طاقت تمھاری یہ صلاحیت ختم کرتے ہیں اور اسکا خمیازہ
بھتگنے کے لیے تیار رہو۔
بلکل ایسے ہی آپشنز عراق کے صدام حسین، لیبیا کے معمر قذافی اور شام کے
بشارالاسد کے سامنے رکھے گئے تھے۔
پے در پے 10 سالہ جمہوری دور میں پاکستان کو معاشی طور پر اس قدر تباہ کر
دیا گیا ہے کہ بل کلنٹن کی طرح کوئی اور امریکہ صدر بھی پاکستانی عوام کو
پیغام دے سکتا ہے کہ " تمھیں ایٹمی ہتھیاروں کی نہیں گندم اور مونگ پھلی کی
ضرورت ہے " اور اس وقت بہت سے لوگ سر ہلاتے ہوئے کہیں گے کہ " ہاں یہ تو سچ
کہہ رہا ہے " ۔۔۔۔
|