اب تو یہ کہتے اور سنتے ہوئے افسوس ہوتاہے جب کوئی
مسیحیوں کے ووٹ کی بات کرتاہے جو پنجاب کے پاکستان میں شامل ہونے کیلئے
کاسٹ کیا گیا۔ افسوس اس لئے ہوتاہے کہ یہ بات سنانے والے ہمیشہ ازخود
مسیحان پاکستان ہی ہوتے ہیں۔ ہاں! اب الیکشن قریب ہے توشاطرسیاستدان
عیسائیوں کو چکردیکر ووٹ حاصل کرنے کیلئے اِسکا استعمال کریں گے اور جیت
جائیں گے۔ مگر عیسائی وہاں کے وہاں جہاں تھے، بلکہ پتہ نہیں کہاں کے ہوکر
رہ جائیں گے۔
پاکستان 14اگست1947ء کو قائم ہوا اور بمطابق مطالعہ ِ تاریخ پاکستان دوقومی
نظریہ کے تحت وجودمیں آیا۔ اس سے پیشتر جولائی اور اگست1947ء کی تقاریر میں
محمد علی جناح کے اقلیتوں کیلئے تسلی بخش الفاظ نظر آتے ہیں۔ جیساکہ متذکرہ
بالا بیان کیا چکاہے کہ یہ الفاظ اورتقاریر صرف مسیحیوں کو ہی یاد ہیں
کیونکہ باقیوں نے اِنہیں یادرکھنا مناسب اور ضروری نہیں سمجھا۔ خیر اس بات
کو یہیں ختم کرتے ہیں کہ یہ بے فائدہ ہے!
ابھی کچھ سال گزرے ہی تھے کہ مسیحیوں کو ووٹ دینے کے نتائج مختلف صورتوں
اور پابندیوں میں ملِنا شروع ہوگئے۔ ملیں بھی کیوں نا، ووٹ کونسا بہت زیادہ
تھے، لاکھوں یا کروڑوں میں تو تھے نہیں اور محمد علی جناح بھی رحلت فرماچکے
تھے۔ وعدے تو انہوں نے کئے تھے کونساباقیوں نے ایسا کچھ کہا تھا۔ خیر اس
بات کویہیں ختم کرتے ہیں کیونکہ یہ۔۔۔۔۔ہے!
1965ء اور1971ء ہندوپاک کے مابین جنگوں کے دوران مسیحیوں کو شک کی نگاہ سے
دیکھا گیا بلکہ چند مسیحیوں کو تو جاسوسی کے الزام میں اذیت بھی پہنچائی
گئی اور1967ءمیں بدیسی مشنریوں کو جو یہاں انکے ہی فائدے کیلئے کام کررہے
تھے، مجبور کیاگیا کہ وہ جہاں سے آئے ہیں وہیں لوٹ جائیں۔خیر اس بات کویہیں
ختم کرتے ہیں کیونکہ یہ۔۔۔۔۔ہے!
1967ء سے 2018ء تک مسیحیوں پر جو گزری ہے، بستیوں، گاؤں اورگرجاگھروں پر
حملے اور انکا جلاؤگھیراؤ، کتب مقدسہ اور مقدس ظروف و علامات کی بے حرمتی
اورنذر آتش کیا جانا، مسیحی سکولزوکالجزکا قومی تحویل میں لیاجانا اور اس
پر مزاحمت کرنے والے مردوں کا قتل اور خواتین کی بے حرمتی، اتوار کی چھٹی
کا بند کیاجانا، حدود آرڈی نینس کااپنی مرضی سے استعمال، کسی اور اسلامی
ملک میں مسلم اُمہ پر کسی طرح کا ظلم اور اس کا ردِعمل ملک میں بسنے والے
مسیحیوں پر، توہین مذہب ورسالت 295، ملزمان کاقتل بذریعہ فائرنگ، اقلیتوں
کو قومی دھارے سے الگ کرنے کیلئے جداگانہ طریقِ انتخابات، شناختی کارڈ میں
مذہب کا خانہ، بشپ جان جوزف کی احتجاجاً خودکشی، چھوٹے بچوں پر توہین
کاالزام، گوشہ ء امن کی مسماری، نرسوں کی چائے میں زہر، مشنری خاتون برگیتا
المبی کا قتل، شہزاد اوراسکی حاملہ بیوی شمع کا جلایا جانا، گرجاگھر پر
حملے کے نتیجے میں متاثرہ افراد کو چھوڑ کر اختیار والوں کا مشکوک افراد کے
گھر ملاقات کیلئے جانا اور امداد،واقعے میں بے جا پکڑے ہوئے ملزمان
کوسرکاری وکیل کی تبدیلی ِ مذہب کے ذریعے رہائی کی پیش کش،مسیحی اور ہندو
لڑکیوں کا اغوا اور جبراً تبدیلی ءِ مذہب، زِنابالجبر، برہنہ تذلیل اور
نکاح، سرکاری سکولز میں پڑھنے والے مسیحی طلبا ء کے ساتھ امتیازی سلوک اور
قتل، ہاؤس چرچز پر پابندی، پادریوں کو اتوار کے علاوہ گرجاگھر کھولنے پر
جرمانے اور انکے ساتھ بدتمیزی بھری گفتگو،کرسمس اورایسٹرپرخون کی ہولی، چرچ
سیکیورٹی اور عبادتی اجتماعات کیلئے سیکیورٹی منظور کروانے کیلئے دفتر دفتر
دھکے ،گرجاگھر کی دیوار پر لکھنے نہ دینا اور اسکے نتیجے میں روکنے والوں
پر ایف آئی آر، مسیحی جوانوں پر سائبر کرائم کے تحت کاروائی، ملزم کے
چچازاد بھائی پر بے جا تشدد اور اس کو بد فعلی کیلئے مجبورکرنا اور اُسکا
مزاحمتاً فرار بذریعہ ایک اونچی عمارت سے چھلانگ، ملزمان کے وکیل کو اُن تک
رسائی نہ کرنے دینا اور ۔ اوربھی بہت کچھ ہے۔
جی ہاں! یہ سب کچھ یہاں ہی ہوا ہے۔ خیر اس بات کویہیں ختم کرتے ہیں کیونکہ
یہ۔۔۔۔۔ہے!
اوہو! احسانات کو تو میں بھول ہی گیا، پرنٹ والیکٹرونک میڈیا پر عیسائی
عیسائی کی رٹ ختم کرکے اب مسیحی کہا اور پکارا جاتاہے جسے سوشل میڈیا پر
ترلے ڈال ڈال کر عمل کروایا گیاہے جبکہ اب بھی لفظ مسیحی زبان پر عام نہیں
ہوپارہا۔ 2013ء میں نادراء کا مختلف چرچز کے نکاح نکاموں کو قبول کرنے پر
اتفاق، جو تاحال کسی بھی مثبت عمل کے گم شدہ ہے۔ ارے ہاں، بھول گئے، 2017ء
میں ڈاکٹر روت فاؤ کو کتنے اعزازات کے ساتھ نوازا گیا تھا جنہوں نے پاکستان
کو کوڑھ سے پاک ملک بنایا تھا جبکہ یہاں کے بسنے والوں سے ابھی تک پولیو پر
کنٹرول کیا نہ جاسکاہے، خیر اس بات کویہیں ختم کرتے ہیں کیونکہ یہ۔۔۔۔۔ہے!
ملکی حکومت میں اقلیتی نمائندوں (کرائے کے ٹٹو/مداری کے بندر) کی بھرتی اور
عالمی برادری کو اقلیتوں کی مذہبی آزادی کے حوالے سے میڈیا پر تسلی بخش
بیانات، اقلتیں محفوظ ہیں، نوکریاں دے رہے ہیں، مذہبی تہوار دھوم دھام سے
منائے جارہے ہیں، جیسے دل کش بیانات۔
ارے نہیں نہیں،انویسٹی گیشن کا کہا ہے، اقلیتی وزراء ہسپتال جاکر ساجد مسیح
کے ساتھ تصاویر بنوا کرنمبر بنا تو رہے ہیں اور کیا کریں۔
ملک کے آئین ودستور میں گنتی کے دو تین قوانین عالمی برادری اور اقلیتوں کو
خوش کرنے کیلئے کافی ہیں کیونکہ یہاں وہ ہیں ہی 2، 3 فیصد، تو قوانین بھی
تو اتنے ہی ہوں گے نا۔ مردم شماری تو ہوگئی، مسیحی کتنے ہیں اور باقی
اقلیتوں کی تعداد کیا ہے، اب تک درست نمبر معلوم نا ہوسکاہے۔
اور کیا کیا سنیں گے، کیا کیا سنائیں۔ پطرس مسیح اور ساجد مسیح کے کیس میں
جو کچھ ہوا، اس کے بعد اب انتہاء ہوگئی ہے۔ اور کہیں کس کو اور سنائیں کس
کو۔ سناتے وہاں ہیں جہاں کوئی سننے والا ہو۔ کیا کہا الیکٹرونک و پرنٹ
میڈیا سے مدد لے لیں۔ ارے بھئی، وہ ہماری خبر کو کیوں نشر کریں گے کیونکہ
میڈیا بھی تو آزاد ہے۔
اور ہماری سنیں گے بھی کیوں، ہماری اہمیت ہے ہی کیا۔ صفائی والا،خاکروب،
چوڑا، شراب، چرس بیچنے والے، بھٹوں پر کام کرنے والے، شب وروز مختلف صورتوں
میں مذہبی تعصب اور امتیازی سلوک کو برداشت کرنے والے اور نا جانے کیا
کیا۔۔۔اتنے آزاد کہ کھل کر احتجاج بھی نہیں کرسکتے اور احتجاج کریں بھی تو
کس کے سامنے، جب سامنے کوئی ہے ہی نہیں، ایک بھی نہیں۔
اب آؤ اِس بات کو یادرکھیں کہ یہ پاکستان ہے اور ہم آزاد ہیں، برابر کے
شہری جنہیں اپنے مذہب کی پیروی کرنے، اس پر عمل کرنے، اسکی تبلیغ کرنے، ہر
مذہبی گروہ کو اور اسکے ہرفرقے کو اپنے ادارے قائم کرنے، برقرار رکھنے اور
انکا انتظام کرنے اورآزادیِ اظہارِ رائے کا حق حاصل ہے۔ اور ہم عہد کریں کہ
2018ء کے عام انتخابات میں جو سب سے زیادہ ہمیں مکھن لگائے اورالو بنائے
اُسے کامیاب کروائیں گے۔
بارک اللہ فیک |