ہیر پھیر

جب کبھی بھی کسی جمہوری قیادت نے طاقت پائی۔اسے مٹانے کے لیے منصوبہ بندیاں شروع ہوگئیں۔پہلے تو یہ کوشش ہوئی کہ جمہوری قیادت تابع داری پر آمادہ ہوجائے۔ڈرایا گیا۔دھمکایا گیا۔لالچ دی گئی۔ہر طریقہ آزمایا گیا کہ کسی نہ کسی طریقے سے جمہوری قیادت کو تابع کرلیا جائے۔عموما سازشی عناصر کوا کامیابی ملتی رہی ہے۔کچھ جمہہوری علمبردار جلد مان گئے۔کچھ ذرا نخرا دکھانے کے بعدا ور کچھ تھوڑی ڈانٹ ڈپٹ سن کر۔ایسا بہت کم ہوا کہ کوئی بندہ لوہے کا چنا ثابت ہواہو۔ورنہ عام طور پر اہل جمہور زیادہ ٹک نہیں پائے۔جمہوریت مخالف دھڑوں کے لیے سب سے اہم ٹاسک کسی بھی عوامی قائد کو پاؤں جمانے سے روکنا ہے۔وقت کے ساتھ ساتھ مختلف لیڈران کی کمر ٹھونک کر یہ سازشی ٹولا قیادت کا ہیر پھیر کرتارہا ہے۔چہرے بدلا بدلا کر وہ کسی کوبھی زیادہ مضبوط نہیں ہونے دیتا۔ اہل جمہوراس ہیر پھیر کے فارمولے سے کبھی بھی جڑ نہیں پکڑ پائے۔

جس طرح چئیرمین سینٹ کا معاملہ طول پکڑ رہا ہے۔اس سے پردے کے پیچھے چھپ کر شیطانی کھیل کھیلنے والوں کی بند نیتی محسوس کی جاسکتی ہے۔کچھ سیاست دان ہارس ٹریڈنگ کے ذریعے کامیابی حاصل کرنے کی کوشش میں تھے۔پردہ نشینوں نے اس شیطانی سوچ کو سپورٹ کیا۔اگر یہ حمایت نہ ہوتی۔تو ہارس ٹریڈنگ والے جلد ہی ہمت ہار کر بیٹھ جاتے۔پردہ نشین ہی ہیں جن کی شہ سے بے ایمانیوں کو طول ملتاگیا۔مسلم لیگ (ن) اور پی پی دونوں جماعتیں اپنی پسند کا چئیرمین سینٹ لانا چاہ رہی ہیں۔مطلوبہ اکثریت کے لیے انہیں دوسری جماعتوں کی حماعت درکار ہے۔ہارس ٹریڈنگ کا جو رنگ جما ہے۔اس نے چھوٹی جماعتوں بالخصوص آزاد اراکین کو ڈانواں ڈول کررکھا ہے۔چھوٹی جماعتیں ایسا گول مول رویہ اپنائے ہوئے ہیں کہ ان کی مرضی سمجھنا الجبرے کا سوال حل کرنے جیسا بن چکا۔دونوں بڑی جماعتوں کے لیے مطلوبہ اکثریت پالینے کا حتمی دعوی کرنا مشکل ہے۔ایسے میں ایک عچب تجویز مسلم لیگ (ن) کے قائد نوازشریف کی جانب سے آئی، کہاگیا کہ اگر رضا ربانی کو سینٹ کا چئیرمین نامزد کیا گیا۔تو ان کی جماعت حمایت کرے گی۔یہ تجویز عجب تھی۔مگر حیران کن طور پر اس تجویز کو پی پی قیادت کی طر ف سے مسترد کردیا گیا۔جناب زرداری صاحب کاکہنا تھا کہ رضاربانی کی نامزدگی پر مسلم لیگ (ن) حمایت کرتی ہے۔مگر ہم رضاربانی کو نامزد کرنا نہیں چاہتے۔

سابق وزیر اعظم نوازشریف کی تجویز کامسترد کیے جانااانتہائی نامناسب رویے کی عکاسی کرتاہے۔رضاربانی پہلے بھی چئیرمین سینٹ رہے ہیں۔وہ پارٹی کے پرانے وفادار ہیں۔وہ ان چند گنے چنے لوگوں میں سے ہیں۔جن کا نام پی پی کی پہنچا ن بن چکا۔و ہ ملک کے صدر بنیں یا چئیرمین سینٹ وہ پی پی کے نمائندے ہی شمار ہونگے۔جانے کیوں جناب زرراری نے ان کی نامزدگی پر ہم ایسا نہیں چاہتے کہہ دیا؟ لگتاہے کہ اس وقت پی پی قیادت کو پارٹی سے زیادہ اپنی انا کی فکرہے۔وہ نوازشریف کا فائدہ روکنے کے لیے کسی بھی حد تک جانے کو تیار ہیں۔رضاربانی کے چئیرمین سینٹ بننے سے یہ عہدہ پی پی کے پاس آسکتاہے۔مگر نوازشریف کی جانب سے رضاربانی کو قابل قبول قراردینے سے زرداری صاحب کے کان کھڑے ہوئے۔فورا انکار کردیا۔پی پی قیادت کی مجبور ی ہے کہ وہ کسی بھی طرح سے نوازشریف کو دھول چٹائیں۔اگلا الیکشن سرپر ہے۔اس لیے وہ مسلم لیگ (ن)کے خلاف سیاست کرکے میدان مارنا چاہتے ہیں۔ان کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ بھی نہیں۔ناتو زردار ی دور کے پانچ سال اس قابل تھے کے عوام کو مائل کیا جاسکتانہ اب حزب اختلاف میں کوئی اچھی حکمت عملی اپنائی جاسکی۔جس کے ثمرات الیکشن کمپئین میں گنوائے جاسکتے۔پی پی قیادت بالکل خالی ہاتھ تھی۔ سوائے اس کے کوئی چارہ نہ تھاکہ وہ عمرا ن خاں کی طرح گھنے سایوں کی تلاش میں نکلیں۔نوازشریف کوکسی بھی طریقے سے کمزور کرنے کی فرمائش زرداری صاحب کو ادھرہی سے آئی تھی۔پی پی قیادت نے طے کرلیا کہ نوازشریف کے لیے نرم گوشہ دکھانا اگلے الیکشن سے آؤٹ ہونے کے مترادف ہے۔پی پی قیادت موجودہ حالات میں ایسی کوئی پالیسی نہیں اپنانا چاہتی۔جو گھنے سائے والوں کی شفقت سے محروم کردے۔ وہ کبھی نہیں چاہیں گے کہ عمران خاں اکیلے دعوے دار رہ جائیں۔یہ ایک آخری سہارہ ہے۔اسے گنوانے کو زرداری صاحب قطعی تیار نہیں۔اگر وہ نوازشریف کا نام سن کر بدک جاتے ہیں۔تو حیر ت کس بات کی۔پی پی قیادت اس کے سوا کوئی جائے امان بھی نہیں پاتی۔گھنے سایوں والے مطمئن ہیں۔پہلے عمران خاں امیدوارتھے۔انہوں نے خاصہ رنگ جمائے رکھا۔اب جناب زرداری اپنا شوکرنے میں مصروف ہیں۔ہیر پھیر کے اس فارمولے میں جیت اگر عمرا ن کی ہوئی تب بھی مالکوں کو اطمیان ہوگا۔اگر زرداری صاحب نے میدان مارلیاتوبھی مسئلہ نہیں۔اہل جمہور کوبکھرا کرگھنے سایوں والے بے فکر ہیں۔کبھی کسی کے کندھے کو تھپتھپانا اور کبھی کسی کی پشت پر تھپکی کے اس ادل بدل اور ہیر پھیر کے کھیل میں انہیں کبھی شکست نہیں دی جاسکی۔

Amjad Siddique
About the Author: Amjad Siddique Read More Articles by Amjad Siddique: 222 Articles with 123749 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.