وسیلہ بعد از وصال

عَنْ اَنَسٍ اَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابَ کَانَ اِذَا قُحِطُوْا اسْتَسْقیٰ بِالْعَبَّاسِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ فَقَالَ:اَللّٰھُمَّ اِنَّا کُنَّا نَتَوَسَّلُ اِلَیْکَ بِنَبِیِّنَا فَتُسْقِیَنَا وَاِنَّا نَتَوَسَّلُ اِلَیْکَ بِعَمِّ بِنَیِّنَا فَاسْقِنَا قَالَ فَیُسْقَوْنَ۔(رواہ البخاری)
ترجمہ:’ ’حضرت انس رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ جب لوگ قحط میں مبتلا ہو ئے تو حضرت عمر بن خطاب رضی اﷲ عنہ ،حضرت عباس بن عبد المطلب رضی اﷲ عنہ کے وسیلہ سے بارانِ رحمت طلب کرتے اور کہتے کہ اے اﷲ ! ہم تیری بارگاہ میں تیرے نبی علیہ السلام کا وسیلہ پیش کیا کرتے تھے تو اس کا نتیجہ یہ ہوتا تھا کہ تو ہمیں سیراب فرما دیا کرتا تھا ۔اے مولیٰ!(اب) ہم تیری بارگاہ اقدس میں تیرے پیارے نبی علیہ السلام کے چچا کا وسیلہ لے کر حاضر ہوئے ہیں۔ ہمیں سیراب فرما دے ! (اس وسیلہ کا نتیجہ یہ ہوتا کہ ) وہ سیراب کر دئیے جاتے ۔(اس حدیث کو بخاری نے روایت کیا)

اس حدیث مبارک سے ثابت ہوا کہ طلب حاجات میں اﷲ کے نیک بندوں کا وسیلہ پکڑنا جائز ہے ۔منکرین وسیلہ کی طرف سے اگریہ کہا جائے کہ اس حدیث سے زندوں کو وسیلہ پکڑنا ،جائز ثابت ہوتا ہے مردوں کا نہیں ،اس لئے کہ حضرت عباس رضی اﷲ عنہ زندہ تھے بلکہ اگر غور کیا جائے تو اسی حدیث سے فوت شدہ بزرگوں کے توسل کی نفی ہوتی ہے ،کیونکہ حدیث میں مذکور ہے کہ اے اﷲ ! ہم تیرے نبی ﷺ کا وسیلہ پکڑا کرتے تھے ،اب تیرے نبی کے چچا حضرت عباس رضی اﷲ عنہ کا وسیلہ پکڑتے ہیں ۔صحابہ کرام حضور اکرم ﷺ کی زندگی میں حضور ﷺ کا وسیلہ پکڑتے تھے ۔اگر کسی بزرگ کے فوت ہو جانے کے بعد اس کا وسیلہ جائز ہوتا تو صحابہ کرام حضور اکرم ﷺ کے بعد بھی حضور اکرم ﷺ ہی سے توسل کرتے ،حضور نبی اکرم ﷺ کی بجائے حضرت عباس رضی اﷲ عنہ سے توسل کرنا ، اس بات کی دلیل ہے کہ کسی بزرگ کے فوت ہوجانے کے بعد اس سے توسل جائز نہیں۔

اس اعتراض کا جواب یہ ہے کہ حدیث مبارک میں نہایت واضح اور غیر مبہم الفاظ میں توسل مذکور ہے ،جس میں زندہ اور مردہ کا کوئی فکر نہیں اور نہ حدیث کا کوئی لفظ فوت شدہ بزرگوں سے توسل کی نفی پر دلالت کرتا ہے ،رہایہ امر کہ صحابہ کرام نے حضور سید عالم ﷺ کا وسیلہ یہاں کیونکرنہ پکڑا ؟تو جواباً عرض ہے کہ کسی حدیث میں حضور اکرم ﷺ کو وسیلہ بنانے کی نفی نہیں ،بلکہ کثرت احادیث سے روز روشن کی طرح ثابت ہے کہ صحابہ کرام اس بات میں حضور سید عالم ﷺ کے وصال کے بعد بھی سرکارمدینہ ﷺ سے توسل کو جائز سمجھتے تھے ۔ البتہ یہاں ایک شبہ باقی رہ جاتا ہے وہ یہ کہ جب زندہ اور فوت شدہ دونوں قسم کے بزرگوں کا وسیلہ پکڑنا جائز ہے تو حضرت عمر رضی اﷲ عنہ نے اس خاص موقع پر رسول اﷲﷺ کی بجائے حضرت عباس رضی اﷲ عنہ سے توسل کیوں کیا؟تو اس کے جواب میں حدیث اعرابی ،جو شفاء میں منقول ہے ، رفع شبہات کے لئے کافی ہے ۔جس میں مذکور ہے کہ صحابہ کرام کی موجودگی میں وہ اعرابی سید عالم ﷺ کے مزار مقدس پر حاضر ہوا اور سرکار مدینہ ﷺ سے توسل کیا ۔وہ اعرابی اپنے گناہوں کی مغفرت کی حاجت لے کر مزار پر انوار پر حاضر ہوا تھا ۔سرکار ابد قرار ﷺ کے توسل کی برکت سے اس کی حاجت پوری ہوئی اور قبر انور سے آواز آئی ۔اِنَّ اللّٰہَ قَدْ غَفَرَلَکَ۔’’ بے شک اﷲ تعالیٰ نے تیرے گناہوں کو معاف فرما دیا ۔‘‘نیز مشکوٰۃ شریف میں صفحہ545پر باب الکرامات میں بروایت دارمی ایک حدیث مرقوم ہے اور وہ یہ ہے :حضرت ابو الجوزاء سے روایت ہے کہ ایک سال اہل مدینہ سخت قحط میں مبتلا ہو گئے تو ام المومنین حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا کے پاس شکایت لائے ۔انہوں نے فرمایا حضور اکرم ﷺ کے مزار اقدس کو دیکھو اور مزار اقدس سے ایک روشن دان آسمان کی طرف کھول دو! یہاں تک کہ مزارِ انور اور آسمان کے درمیان چھت نہ ہو ۔اہل مدینہ نے ایسے ہی کیا تو خوب بارش ہوئی حتی کہ جانوروں کا چارہ بھی بکثرت پیدا ہوا اور اونٹ چربی سے خوب سے خوب موٹے ہوگئے ۔

ملا علی قاری رحمۃ اﷲ علیہ مرقاۃ شرح مشکوٰ ۃ میں فرماتے ہیں کہ صحابہ کرام حضور اکرم ﷺ کی حیات ظاہری میں بھی قحط سالی اور خشک سالی میں حضور اکرم ﷺ سے توسل کیا کرتے تھے ۔حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا نے وصال اقدس کے بعد بھی مزارِ انور سے توسل کیا اور حضور اکرم ﷺ کے توسل کی برکت سے خلق اﷲ اسی طرح خوشحال ہوئی ،جس طرح پہلے ہوتی تھی ۔اس مبارک حدیث سے آفتاب عالمتاب سے زیادہ روشن اور واضح ہو گیا کہ صحابہ کرام حضور اکرم ﷺ کے وصال کے بعد بھی حضور اکرم ﷺ سے توسل کرتے تھے اور دونوں توسلوں میں کوئی فرق نہ تھا ۔دیکھئے سرکار مدینہﷺکی ظاہری حیات میں بھی بارانِ رحمت کی طلب اور قحط سالی دور کرنے کے لئے توسل کیا گیا اور وصال کے بعد بھی قبر انور سے خشک سالی دور ہونے اور بارانِ حمت نازل ہونے کیلئے توسل کیا گیا ۔ اب معترض کا یہ کہنا کہ فوت شدہ بزرگوں سے توسل جائز نہیں ،نیز یہ کہ صحابہ کرام بعد از وصال حضور اکرم ﷺ سے توسل نہ کرتے تھے ،کیسے درست ہوسکتا ہے ؟ دوسرے شبہ کا جواب یہ ہے کہ اگر غور کیا جائے تو اچھی طرح واضح ہو جائے گا کہ یہاں حضرت عباس رضی اﷲ عنہ کی ذات سے توسل نہیں ،یہ توسل بھی حضور سید عالم ﷺ ہی سے ہے کیونکہ حدیث کے الفاظ یہ ہیں ۔اَنَا نَتَوَسَّلَ بِعَمِّ نَبِیِّکَ۔اے اﷲ ! ہم تیرے نبی کے چچا کا وسیلہ اختیار کرتے ہیں ۔عم مضاف ہے نبی کی طرف یعنی حضرت عباس رضی اﷲ عنہ سے جو توسل کیا جا رہا ہے ،وہ اس نسبت اور اضافت کی بنا پر ہے کہ جو انہیں حضور سید عالم ﷺ کے ساتھ ہے ۔اس نسبت سے قطع نظر کر کے توسل نہیں ۔جب توسل کا دار و مدار اس نسبت و اضافت پر ہوا ،تو ثابت ہوا کہ یہ توسل حضرت عباس رضی اﷲ عنہ سے نہیں ،بلکہ حضور ﷺ سے ہے ۔فرق صرف اتنا ہے کہ قبل الوصال حضور اکرم ﷺ سے بلا واسطہ توسل ہوتا تھا اور یہ توسل بالواسطہ ہے ۔

بالواسطہ توسل میں حکمت یہ ہے کہ اگر صحابہ کرام ہمیشہ بلا واسطہ توسل کرتے اور سید عالم ﷺ کی ذات گرامی کا بغیر واسطہ کے وسیلہ اختیار کرتے رہتے ،نیز سرکار مدینہ ﷺ کے کسی غلام کے واسطہ سے کبھی توسل نہ کرتے تو منکرین وسیلہ کہہ دیتے کہ حضور اکرم ﷺ کے سوا کسی سے توسل جائز ہی نہیں ،اگر جائز ہوتا تو صحابہ کرام کبھی تو کسی غیرِ نبی کا وسیلہ پکڑتے ۔حضرت عمر رضی اﷲ عنہ نے حضرت عباس رضی اﷲ عنہ کے واسطہ سے توسل کر کے اس دعویٰ پر دلیل قائم کر دی کہ جس طرح حضور اکرم ﷺ سے بلا واسطہ توسل جائز ہے ، اسی طرح نبی اکرم ﷺ کے غلاموں کے واسطہ سے بھی بلا شبہ توسل جائز اور صحیح ہے ۔اب قیامت تک ہر ولی اﷲ اور بزرگ کے ساتھ وسیلہ پکڑنے کا جواز ظاہر ہو گیا۔

مختصر یہ کہ حضرت عمر فاروق رضی اﷲ عنہ نے حضرت عباس رضی اﷲ عنہ سے توسل فرما کر توسل کو آگے بڑھایا اور وسیلہ کو عام کیا اور اس بات کی وضاحت فرمادی کہ یہ توسل حضور اکرم ﷺ کے ساتھ نسبت اور اضافت پر مبنی ہے ۔لہٰذا قیامت تک اﷲ کا جو نیک بندہ بھی اس نسبت اور اضافت کے شرف سے مشرف ہو ،اس کے ساتھ وسیلہ اختیار کرنا شرعاً جائز اور درست ہے ۔
٭٭٭٭٭

Peer Tabasum
About the Author: Peer Tabasum Read More Articles by Peer Tabasum: 40 Articles with 69257 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.