یار غار ، خلیفہ رسول اﷲ ﷺ سیدنا صدیق اکبرؓ کی حیات
مقدسہ وسیرت مطہرہ کا امتیازی وصف اور مخصوص جو ہر حضورﷺ کی سیرت طیبہ سے
کامل توافق وتشابہ اور مکمل یک رنگی وہم آہنگی ہے ، اخلاقِ نبوی وسیرت
مصطفےٰﷺ سے تخلق وتشبہ کی نعمت وسعادت سے جو بہرۂ وافر آپ کو ملاہے ، وہ
اور کسی کو نہ مل سکا اور اس اعتبار سے آپ یاران رسول اﷲﷺ کی پوری جماعت
میں ماشاء اﷲ ممتاز ومنفرد نظر آتے ہیں ۔اگر آپ حضرت ابوبکرؓ کی پوری زندگی
خصوصاً زمانہ خلافت کو بہ نگاہ تعلق دیکھیں گے توآپ کو معلوم ہوگا کہ انہوں
نے وہ کام کبھی نہیں کیا جو نبی کریمﷺ نے نہیں اور جو کام رسول اﷲ صلی اﷲ
علیہ وسلم نے کیا وہ آپ نے بہر حال کیا اور ہر قیمت پر کرکے چھوڑا ۔
اشبہ برسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم :حضرت شاہ ولی اﷲ محدث دہلوی ؒ رقم فرماتے
ہیں :ابوعمر نے استعباب میں حضرت اسید بن صفوانؓ کے تذکرہ میں ایک حدیث حسن
حضرت علیؓ سے حضرت ابوبکر صدیق ؓ کی تعریف میں روایت کی ہے پھر میں نے (کتاب)
’’ریاض النصرہ‘‘ میں یہی حدیث پائی جس کے الفاظ یہ ہیں :
اسیدؓ بن صفوان سے روایت ہے کہ اور انہوں نے نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کو پایا
تھا وہ کہتے تھے کہ جب حضرت ابوبکرؓ نے انتقال فرمایا تو ان پر ایک چادر
اوڑھادی گئی پھر حضرت علیؓ تشریف لائے اس حال میں کہ آپ ؐانا ﷲ وانا الیہ
راجعون پڑھتے جاتے تھے پھرفرمایا اے ابوبکر! اﷲ آپ پر رحمت فرمائے آپ رسول
خدا صلی اﷲ علیہ وسلم کے دوست تھے ۔اور سیرت وعادت راست روی ومہربانی اور
فضل وبزرگی میں رسول خدا صلی اﷲ علیہ وسلم کے سب سے زیادہ مشابہ تھی ‘‘۔(ازالۃ
الخلفاء )
ایک پر دوسرے کا گمان:تشابہ ویک رنگی کا کمال ملاحظہ ہو ، آپ حضور صلی اﷲ
علیہ وسلم کے رنگ میں اس حد تک رنگے گئے ،ان دونوں ذوات قدسیہ میں باہم اس
درجہ کی یک رنگی ومشابہت پیدا ہوگئی کہ خلق خدا کو ایک پر دوسرے کا گمان
ہونے لگا ہے ۔
من توشدم تو من شدی من تن شدم تو جان شدی
تاکس نہ گوید بعد ازیں من دیگرم تودیگری
صحیح بخاری میں روایت ہے کہ (ہجرت فرماکر) جب رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم قبا
تشریف لائے ، دو شنبہ کا دن تھا اور ربیع الاول کا مہینہ !انصار میں سے جس
نے حضور ﷺ کو نہیں دیکھا تھا وہ آکر پہلے حضرت ابوبکر صدیقؓ کو سلام کرتا
تھا ۔ یہاں تک کہ سورج کی تپش حضورﷺ کو تکلیف دینے لگی تو حضرت ابوبکرؓ
اٹھے اور آپؐ پر اپنی چادر سے سایہ کردیا ۔تب لوگوں نے رسول اﷲ ﷺ کو پہچانا
(صحیح بخاری ) تو جب تک حضرت ابوبکرؓ نے آگے بڑھ کر حضرت محمد صلی اﷲ علیہ
وسلم کے سر پر اپنی چادر سے سایہ نہ کیا انصار مدینہ حضرت ابوبکر ؓ ہی کو
رسول اﷲ سمجھتے رہے اور جو بھی آتا پہلے حضرت ابوبکر صدیقؓ کو ہدیہ سلام
پیش کرتا تھا -
عمر بھر کبھی حضورﷺ کی کوئی مخالفت نہیں کی :خود نبی کریمﷺ کے ایک ارشاد سے
اس حقیقت کا اظہار ہوتا ہے کہ صدیق اکبرؓ نے ساری عمر حضور صلی اﷲ علیہ
وسلم کی کوئی مخالفت نہیں کی ۔
طبرانی رحمۃ اﷲ علیہ حضرت سہلؓ سے نقل کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺجب حجۃ الوداع
سے واپس تشریف لائے تو منبر پر چڑھے خداتعالیٰ کی حمدوثنا بیان کی پھر
فرمایا:اے لوگو! بلا شبہ ابوبکر رضی اﷲ عنہ نے کبھی مجھے رنجیدہ ومغموم
نہیں کیا ۔‘‘(تاریخ الخلفاء) یعنی اخلاق وصفات توبجائے خود افکار واعمال
میں بھی اس درجہ تشابہ وتوافق تھا کہ عمر بھر صدیق اکبرؓ نے نبی اکرمﷺ کی
کبھی کوئی مخالفت نہیں کی ۔آخر اس کی وجہ کیا ہے ؟ کہ حضرت سیدنا ابوبکرؓ
سے کبھی کوئی ایسا فعل سرزد نہیں ہوا جو حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کی
پریشانی خاطروتکدر طبع کا موجب ہوتا اور اس میں حضورﷺ کی مخالفت کا شائبہ
بھی ہوتا ؟
طینت واحدہ :محدث خطیب رحمۃ اﷲ علیہ نے حضرت عبداﷲ بن مسعودؓ سے روایت کی
کہ حضورﷺ نے فرمایا : میں اور ابوبکر وعمر ایک ہی (پاک)مٹی سے پیدا کئے گئے
ہیں اور اسی ایک ہی مٹی میں دفن ہوں گے (کتاب المتفق والمفترق)شرح مناسک
میں علامہ نوویؒ تحریر فرماتے ہیں :’علماء نے لکھا ہے کہ آدمی جس جگہ دفن
ہوتا ہے اسی جگہ کی مٹی سے ابتدا میں وہ پیدا کیا جاتا ہے تو گویا حضور
اقدس صلی اﷲ علیہ وسلم کا بدن مبارک بھی اسی مٹی سے بنا ہے ۔‘‘ (فضائل حج
ص170از حضرت مولانا محمد زکریاؒ)ا س حقیقت کے پیش نظر حضرات شیخین رضی اﷲ
عنہا کی رفعت شان و عظمت مقام کی کوئی حدو انتہا نہیں رہی ، کیونکہ جس مقدس
مٹی سے حضورﷺ کا وجود اقدس تیار کیا گیا ہے ۔ اسی خاکِ پا سے حضرات شیخین
رضی اﷲ عنہم کا خمیراٹھا یا گیا ہے ۔تو ان کی طینت اور رسول پاک صلی اﷲ
علیہ وسلم کی طینت میں وحدت ویگانگت پیدا ہوگئی ۔اﷲ اﷲ اپنی صناعی اور صفت
تخلیق کا بہترین مظاہرہ کرنے کیلئے چشم قدرت نے جس مقدس جگہ کا انتخاب کیا
اور دست قدرت نے جہاں سے حضور پاک صلی اﷲ علیہ وسلم کے وجود پاک کے لیے پاک
مٹی اٹھائی اس مبارک ومقدس ومقام کا نام ہے روضہ رسول اﷲﷺ۔
اس پاک مقام کی پاک مٹی سے صانع حقیقی نے اپنی صنعت کے تین مثالی نمونے
اپنی قدرت کاملہ کے تین بے نظیر مظہر ،اپنی قوت تخلیق کے تین بے مثال
شاہکار اور حسن عمل وجمال سیرت کے تین بے مثل پیکر تیار فرمائے ان میں سے
ایک کانام نامی اسم گرامی رکھا محمد صلی اﷲ علیہ وسلم ،دوسرے کانام ابوبکر
صدیقؓ اور تیسرے کا عمرؓ ۔ اس پاک مقام کی پاک مٹی سے ان تینوں حضرات کا
خمیر اٹھایا گیا اور اسی مقدس جگہ میں پھر تینوں حضرات کو قیامت تک سلادیا
گیا ۔ |