اس سے پہلے رواں ہفتے میں وہ تین شدہ خواتین کے جنازے پڑھ
چکا تھا اور متعلقین سے رسمی اور جعلی ہی سہی‘ اظہار افسوس بھی کر چکا تھا۔
گزرتے ہفتے میں ہی‘ ہمسائے کی جوان اور منہ متھے لگتی شدہ خاتون کا جنازہ
اٹھا تو بےاختیار اس کے آنسو چھلک پڑے۔ اس نے لاکھ چھپانے کی کوشش کی لیکن
کھوجی آنکھوں سے‘ آنسوؤں کی لکاچھپی چھپ نہ سکی۔ پھر کیا تھا‘ کانا پھوسی
کا عمل جاری ہو گیا۔ ایک سے دوسرے اور دوسرے سے تیسرے کے کان میں‘ اس کے
آنسوؤں کی کہانی پہنچ گئی۔ کفن دفن کا عمل ختم ہوا تو‘ بیبیوں کی گرہ میں
کرمے کے آنسو لگ گئے۔ ہر کسی نے اپنی کہانی گھڑ لی۔ مرنے والی تو قبریں سما
گئی‘ لیکن کرمے کے حوالہ سے وہ کچھ طے پا گیا‘ جو اس کے فرشتوں تک کو علم
نہ تھا۔
ادیبوں کے افسانے یوں ہی خامہ و قرطاس کی زینت نہیں بنے‘ ان میں زیادہ نہیں
تو‘ کم از کم ففٹی پرسنٹ خواتین کا حصہ بھی ہے لیکن تحقیقی و تنقیدی عمل
میں‘ کبھی کسی نے ان کا ذکر خیروبد کرنے کی زحمت نہیں اٹھائی۔ بلا شبہ یہ
کفران نعمت کے زمرے میں آتا ہے۔
کہا گیا کہ مرنے والی سے کرمے کے ناجائز تعلقات تھے۔ دیکھنے میں کرما کتنا
شریف تھا لیکن اندر سے پورا نکلا۔ مرنے والی کتنا پردہ کرتی تھی۔ کسی
غیرمرد سے نظریں تک نہ ملاتی تھی لیکن من کی کتنی میسنی نکلی۔
کچھ نے بلاجانے‘ اس کے میکے کے ایام بھی آلودہ کر ڈالے۔ بات کب رکتی ہے۔
کرمے کی شدہ خاتون کے کانوں میں بھی کرمے کی عشق بازی کے قصے پڑ گئے۔ اگر
سچ میں کچھ تھا‘ تو چپ کا روزہ لازم تھا کہ مرنے والی کا پردہ رکھا جاتا
اور اس کا کفن میلا نہ ہونے دیا جاتا۔ آخر سب نے جہاں چھوڑ جانا ہے۔ کرمے
کی بیوی بلا ناغہ‘ کرمے کی بہہ جا بہہ جا پر اتر آئی۔ اس نے لاکھ قسمیں
اٹھائیں لیکن وہ اس مقولے کی قائل تھی‘ چور یار ٹھگ کی قسم کا اعتبار نہیں
کیا جا سکتا۔ وہ پہلے ہی اس کے لیے جہنم سے کچھ کم نہ تھی‘ اب تو اس کے لیے
حاویہ بن گئی۔
باہر آتا تو مرحومہ کا خاوند‘ کھا جانے والی نظروں سے دیکھتا۔ ایک دو بار
تو اس نے بلاوجہ توتکرار سے کام لیا۔ وہ ہر بار برداشت سے کام لیتا اور
نظریں بچا کر نکل جاتا۔ اس روز تو اسے پھینٹی چڑھ گئی‘ بہانہ یہ بنایا گیا
کہ اپنے گھر کا کوڑا کرکٹ‘ اس کے گھر کے دروازے کے قریب پھینکتا ہے۔ بھولی
بسری یادیں پھر سے تازہ ہو گئیں اور کرمے کی اندر خانے کی عشق لڑائی‘ پھر
سے گلی بازار میں آ گئی۔ ہر دیکھتا اس پر ہنستا۔ عمر رسیدہ بیبیاں‘ اسے توے
توے کرتیں۔ اس سے ایک مثبت بات یہ ہوئی کہ دو ایک چالو خواتین نے اسے چالو
مال سمجھ کر لائیں مارنے کی کوشش کی۔ ایک سے اس کی ڈنگ ٹپائی آڑپھس بھی ہو
گئی۔ اس زبانی کلامی ان دیکھے ان جانے عشق کے حوالہ سے‘ چھپا رستم ایسا
بلندپایہ خطاب بھی اس کا مقدر ٹھہرا ورنہ علاقہ کا کوئی ایرہ غیرہ بھی اس
پر نظر نہ رکھتا تھا۔
وہ اکثر سوچتا‘ یہ لوگ کتنے بےحس اور کہانی باز ہیں۔ کسی نے ان آنسوؤں کی
وجہ جاننے کی زحمت ہی گوارہ نہ کی۔ یہ بات اپنی جگہ کہ کوئی پوچھتا تو وہ
اصل وجہ بتا بھی نہیں سکتا تھا۔ اگر اگل دیتا تو بھی پولے‘ روز کا مقدر
ٹھہرتے اور اس سے بڑھ کر اس کی بری ہوتی اور ہر روز ہوتی۔ دوسرا مقدر کا
اپنا کھیل ہے۔ ہر خواہش پوری ہو جائے‘ ضروری تو نہیں۔ ہمسائے کی بیوی کا
جنازہ اٹھتے سمے‘ اس کا یہ سوچنا کہ اوروں کی عورتیں ہر دوسرے‘ قبر کی راہ
لیتی ہیں اور اس والی اس ذیل میں ٹس سے سے مس نہیں ہو رہی۔ اللہ جانے وہ یہ
خوشی کا دن کب دیکھے گا۔
جو بھی سہی‘ یہ گھڑت بدنامی رائیگاں تو نہ گئی تھی۔ اپنی کے علاوہ نیکاں
بلاکوشش اس کی نرک حیات میں خوشیوں کا گہنا بن کر اتر آئی اور اس سابقہ
رولے میں اس کی سچ مچ کی چھپی رستمی سامنے نہ آئی تھی۔ |