نوٹ: یہ نظریہ میری تخلیق یا پیشکش ہے۔ اس کے پیچھے
کسی اور فلسفی کا کوئی نظریہ میری سوچ کے آس پاس موجود نہیں ہے۔ اس طرح کی
بات کا موجود ہونا ایک اتفاق تو سکتا ہے لیکن یہ نظریہ کسی ایسے نظریئے کی
نقل نہیں ہے۔ اس نظریئے سے اتفاق اور اختلاف دونوں کی گنجائش موجود ہے کیوں
کہ استدلال اور سمجھ میں فرق اور تضاد کی ہمیشہ گنجائش ہوتی ہے ۔ کسی دوسرے
شخص کے پاس اس سے بہتر نظریہ بھی موجود ہو سکتا ہے۔ مجھے اس سے کوئی اختلاف
نہیں ۔ ہر شخص دنیا کو اپنے انداز میں سمجھنے کی کوشش کر سکتا ہے ۔ ہر شخص
کا ذہن اپنے طور پر دنیا یا کسی واقعہ کو دیکھتا اور سمجھتاہے۔ا ن سب باتوں
کی گنجائش موجود ہے۔
اس نظریئے کے مطابق:
ہر انسان بنیادی طور پر تین دائروں کے اندر لپٹا ہوتا ہے۔ ان میں سب سے
پہلا دائرہ اس کی اپنی ذات کا، دوسرا دائرہ اس کے آس پاس یعنی ماحول کا اور
تیسرا دائرہ یونیورس، فطرت یا عالمگیریت کا ہوتا ہے۔
ان دائروں کے اندر اور بھی ثانوی یا ثالثی دائرے موجود ہو سکتے ہیں جن کا
میں نے مختصر ذکر اسی تحریر میں بھی کیا ہے۔اگر ان سب دائروں کو انفرادی
طور پر علیحدہ علیحدہ لیں تو دائروں کی تعداد ایک درجن سے بھی تجاوز کر
جائے گی۔ لیکن بات کو زیادہ واضح رکھنے اور آسانی سے قابلِ فہم بنانے کے
لئے اس دائروں کو کچھ غیر واضح ہی رکھا گیا ہے۔ دوسرے الفاظ میں ان کو تین
بڑے دائروں میں ہی سمو دیا گیا ہے، اگرچہ ان کی انفرادی حیثیت بھی تسلیم کی
گئی ہے۔
ان تین دائروں کے اندر ادب کا ہر کردار زیرِ بحث لایا جا سکتا ہے۔اگرچہ ان
دائروں کا ایک دوسرے پر اثرانداز ہونا ایک عمومی عمل ہے ، لیکن ان کی اپنی
علیحدہ علیحدہ حیثیت وجود رکھتی ہے ۔اور کردار کے قول و فعل پر پوری طرح
اثر انداز ہوتی ہے۔ ایک کردار کا ایک زمانے سے تعلق رکھنا اور کسی دوسرے
زمانے کے لوگوں کے لئے قابلِ غور ،اور اہم ہونا تیسرے دائرے کے لحاظ سے
زیادہ اہم ہے۔
ان تین دائروں کو اگر تین الفاظ کی مدد سے زیادہ آسان فہم انداز میں پیش
کیا جائے تو وہ تین الفاظ درج ذیل ہوں گے:
۱۔شخصیت یا ذات
۲۔معاشرہ یا ماحول
۳۔عالمگیریت یا فطرت
ان تین بڑے دائروں کے اندر درج ذیل چھوٹے دائرے بھی دیکھے جا سکتے ہیں:
شخصیت
۱۔ انسان کی موروثی وراثت
۲۔ انسان کا قدرتی رجحان، دلچسپی، وغیرہ
۳۔ انسان کا ماضی، حال اور مستقبل کا احساس
معاشرہ
۱۔ خاندانی حالت
۲۔ معاشرہ کی مذہبی نوعیت
۳۔ معاشرہ کی اخلاقی حالت
۴۔ معاشرہ کی قانونی حالت
۵۔ معاشرہ کی معاشی حالت
۶۔ معاشرہ کی علمی و ادبی حالت
۷۔ معاشرہ کی تاریخی وراثت
عالمگیریت
۱۔ قوانینِ فطرت
۲۔ عالمی اخلاقیات
۳۔ بنیادی انسانی ہمدردی اور احساس
۴۔ بنیادی انسانی اچھائیاں اور برائیاں
۵۔ انسانی نفسیات اور رویئے
پہلا دائرہ
انسان سب سے پہلے اپنی ذات کے دائرے میں ہوتا ہے۔ یہ دائرہ اس کا اپنی ماں
کے پیٹ سے شروع ہوتا ہے اور پھر زندگی بھر ا
س کے گرد بنا ہی رہتا ہے ۔ کوئی انسان اس دائرے سے مرتے دم تک باہر قدم
نہیں رکھ سکتا۔ اگر کبھی کسی تجربے یا مشاہدے میں وہ عارضی طور پر اس دائرے
کو کراس کرتا ہوا باہر جاتا بھی ہے تو یہ دائرہ ایک لمبوتری شکل اختیار کر
کے اس کو پھر سے اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے اور کبھی اس کا پیچھا نہیں
چھوڑتا۔ دوسرے الفاظ میں یہ ایک جبلت ہے جو انسان کے ساتھ ہمیشہ نتھی رہتی
ہے بلکہ اس کے اندر موجود رہتی ہے۔ لمحاتی طور پر اس سے کنارہ کشی ممکن ہے
جیسے کہ ایک سخت مزاج شخص کسی موقع، تقریب یا موڈ میں خوش یا نرم مزاج بن
جائے لیکن اس کے مزاج کی سختی کبھی مستقل طور پر اس سے دور نہیں جا سکتی۔
اسی طرح کوئی نرم مزاج کسی موقع یا موڈ میں سختی اختیارکر سکتا ہے لیکن اس
لمحے کے گزرجانے پر وہ پھر سے اپنی اصل جبلت میں واپس آ جائے گا اور وہ سخت
سے نرم مزاج میں واپسی اختیار کر چکا ہو گا۔اسی طرح سخی، کسی وقت کنجوس اور
کنجوس کسی وقت سخی بھی بن سکتا ہے لیکن پھر جلد ہی اپنی اصلیت میں واپس آ
جائے گا۔
موروثی وراثت انسا ن کے گردپہلے دائرے کا پہلا ذیلی دائرہ ہے۔ انسان کو جو
موراثی وراثت ملی ہوتی ہے انسان اس سے بھی باہر نہیں جا سکتا ۔ جیسا کہ
پیدائشی طور پر جسم کا کمزور یا صحت مند ہونا، ایسے ہی پیدائشی طور پر ذہین
یا کند ذہن ہونا۔ پیدائشی طور پر اس کا قد کاٹھ، رنگ اور نسل کا تعین ہو
جاتا ہے۔ کالے والدین کی اولاد کالی۔ یا افریقی نسل کے والدین کی اولاد بھی
ا نہیں جیسی ہو گی۔ گوروں کے بچے بھی گورے ہوں گے۔ اسی طرح اگر وراثت میں
کوئی مخلوط عنصر کی شمولیت ہو گی تو وہ بھی اگلی نسلوں میں اپنا اظہار اور
اثرات کا تعین کرتی رہے گی۔ والدین کی ذہنی حالت بھی اگلی نسل میں منتقل
ہوتی ہے۔ بہادروں کی اولاد بھی بہادر اور بزدلوں کی اولاد بھی اکثر ڈرپوک
ہوتی ہے۔ جیسا کہ شیر کا بچہ شیر اور گیدڑ کا بچہ گیدڑ ہی پیدا ہوتا
ہے۔انسان اپنے ذہن اور وراثت کے حصار سے کبھی باہر نہیں آ پاتا۔بعض اوقات
الٹ بھی ہو سکتا ہے کہ اچھوں کے اولاد سے برے اور بروں کی اولاد سے اچھے
لوگ پیدا ہو جائیں لیکن جبلت کے ایک دوسرے پر غالب آنے اور مغلوب رہنے کے
وسیع امکانات اپنا کردار ادا کرتے چلے جاتے ہیں اور تبدیلیاں بھی رونما
ہوتی چلی جاتی ہیں۔ لیکن کسی بھی صورت میں انسان کے گرد یہ پہلا دائرہ بنا
ہی رہتا ہے جو انسان ماں کے پیٹ سے لے کے آتا ہے اور ساری زندگی اسی کے
اندر یا اس کے مطابق گزاردیتا ہے۔
قدرتی رجحانات انسان کے گرد پہلے بنیادی دائرے کا دوسرا ذیلی دائرہ بناتے
ہیں۔کسی انسان کے اندر کوئی خواہش قدرتی طور پر فروغ پا جاتی ہے اور وہ
نہیں سمجھ پاتا کہ یہ خواہش اس کے اندر کیوں در آئی ہے۔ بعض اوقات باہر کے
ماحول میں اس کی پذیرائی یا سرپرستی نہیں ہوتی لیکن پھر بھی اس خواہش کی
تڑپ اسے سکون سے نہیں بیٹھنے دیتی اور وہ بہت سی مشکلات برداشت کر کے بھی
اپنی اس خواش کو جو اس کے اندر قدرتی یا جبلتی طور پر آگئی ہے پورا کرنے کی
بھر پور بلکہ سڑ توڑ کوشش کرتا ہے۔بعض اوقات اسے اپنے اس اندر کے سکون کے
لئے باہر کی دشمنی بھی مول لینی پڑتی ہے۔
ماضی، حال اور مستقبل کا احساس انسان کے گرد پہلے دائرے کا تیسرا ذیلی
دائرہ بناتا ہے۔ چھوٹے چھوٹے بچے اکثر یہ
بات کرتے سنے جاتے ہیں کہ وہ بڑے ہو کر یہ بنیں گے وہ بنیں گے۔ جبکہ ان کو
ماحول کا کوئی شعور نہیں ہوتا کہ یہ سب کچھ کیسے ہو گا۔ لیکن ان کے اندر
قدرت مستقبل کی خواہشات، خدشات اور ماضی اور حال کا احساس پیدا کر دیتی ہے
اور وہ اپنے شب و روز اسی دائرے میں گزارنے لگتے ہیں اور جیسے جیسے وہ بڑے
ہوتے ہیں ان کے ماحول کے شعور کی آنکھ کھلتی ہے اور وہ اپنی ذات کے اس
دائرے سے باہر بھی دیکھنے اور سمجھنے لگتے ہیں۔ باہر کی زندگی میں پیش آنے
والے مشاہدات بھی اس کے اندر کے دائرے کا حصہ بنتے چلے جاتے ہیں اور وہ اس
اندر کے دائرے میں مذید لپٹا چلا جاتا ہے۔اس کے ا ندر کا دائرہ وسیع ہوتا
چلا جاتا ہے۔ لیکن دنیا بھر کا چکر لگانے کے بعد بھی اپنے اندر کے دائرے
میں محصور رہتا ہے۔
دوسرا دائرہ
انسان کے گرد دوسرا دائرہ اس کی ذات سے باہر کا معاشرہ ہے۔ معاشرہ اتنی بڑی
طاقت کا حامل ہوتا ہے کہ دن کو رات اور رات کو دن بنا سکتا ہے۔ کوئی معاشرہ
ہی یہ بات طے کرتا ہے کہ کون سی بات اچھی یا کون سی بات بری ہے۔ کس چیز کو
کس نظر سے دیکھا جانا ہے۔ کس چیز کو یاد رکھنا اور کس کو بھول جانا ہے۔ کس
تہوار کی تعریف کرنی ہے اور کس پر پابندی لگانی ہے۔ایک معاشرہ جن بنیادی
اکائیوں پر استوار ہوتا ہے ان میں خاندان، مذہب، معاش،اخلاق،قانون، علمی
ادبی حالت اور اس کی تاریخ کو زیادہ اہمیت حاصل ہے۔
خاندان انسان کا اپنی ذات سے باہر کے دائرے کا پہلا حصہ یا پہلا ذیلی دائرہ
ہے۔ خاندان ایک لحاظ سے معاشرہ کا چھوٹا ترین نمائندہ ہوتا ہے۔خاندان انسان
کو زندگی اور دنیا کے ابتدائی اسباق یا دکراتا ہے۔ خاندان اس کی جسمانی،
ذہنی اور تعلیمی پرورش کرتا ہے اور اسے زندگی کے بنیادی رویئے سکھاتا ہے۔
یہاں تک کہ اس کے نظریات کی قطع بریدبھی کرتا ہے۔ اس کے اندر زندگی کے
ٹارگٹ متعین کرتا ہے۔ خاندان میں ماں اور باپ کا کردار انتہائی اہم ہے لیکن
بڑے بہن بھائی اور کچھ رشتہ دار بھی انسانی نفسیات اور خیالات پر بہت اثر
انداز ہوتے ہیں۔ کچھ لوگوں کی تاریخ سے پتہ چلتا کہ ان کی ناموری کے پیچھے
ان کے خاندان ہی کا کوئی فرد تھا جس نے ان کی زندگی میں ایسا جذبہ بھرا کہ
پھر وہ دنیا کی تاریخ میں نامور ہوئے بغیر نہ رہے۔ بعض لوگوں کی خاندانی
پسماندگی ان کی ذہنی بالیدگی کا سبب بنی اور بعض کو اپنے خاندان سے ایسا
علمی و ادبی ورثہ ملا کہ ان کو علمی میدان میں آگے بڑھنے میں کوئی مشکل پیش
نہ آئی۔ بعض کو خاندانی طور پر حکمرانی اور شہرت کا ورثہ ملا اور وہ
پیدائشی طور پر ہی نامور لوگ تھے۔ خاندان انسان کے بہت سے مسائل کا سبب بھی
بنتا ہے اور بہت سی باتوں کا تعین کنندہ بھی ہوتا ہے۔ خاندان، انسان کو
برادری، قبیلہ، مذہب، بنیادی رویئے ، زبان اور اخلاق بھی دیتا ہے اور یہی
چیزیں انسان کی زندگی کے بہت سے پہلوؤں کی اساس فراہم کرتی ہیں۔
مذہب کو ماحول کا دوسرا ذیلی دائرہ کہا جا سکتا ہے ۔کسی بھی معاشرے میں جو
بات سب سے پہلے دیکھی جاتی ہے وہ اس کا مذہب ہے۔ ہر انسان ، عام طور پر کسی
نہ کسی مذہب میں ہی پیدا ہوتا ہے۔مذہب کسی بھی شکل میں ہو یعنی رسومات،
نظریات وغیرہ انسان کو عزیز ہوتا
ہے۔ انسان اپنے مذہب کو ایک شدید محرک کے بغیر نہیں چھوڑ سکتا۔ اس کی ظاہری
یا باطنی مجبوری ایسی بن جائے جو اسے مذہب کی تبدیلی کی طرف اکسائے تو یہ
عمل پھر ہی ممکن ہو سکتا ہے۔ ورنہ انسان اپنے مذہب کی خاطر دوسروں سے
لڑتاہے یہاں تک کہ اپنی جان بھی دے دیتا ہے۔ مذہب انسان کی سب سے بڑی غیرت
کو ابھارتا ہے اور انسان اس کی خاطر کوئی بھی تکلیف برداشت کرتا ہے لیکن
اسے چھوڑتا نہیں۔ اس کی وجہ یہ بھی ہوتی ہے کہ مذہب انسان کو اگلی زندگی کا
نظریہ دینے کے ساتھ ساتھ یہ بھی باور کراتا ہے کہ اس کی اگلی زندگی کا مکمل
طور پر انحصار اس بات پر ہے کہ وہ اپنے مذہب کے ساتھ کتنا سچا اور پکا ہے۔
اس لئے انسان اپنے مذہب کے لئے سب کچھ قربان کرتا ہے۔ لیکن اگر وہ اپنے
نظریات میں تبدیلی لاتا ہے اور آہستہ آہستہ اپنے مذہب سے یا سارے ہی مذاہب
سے دور چلا جاتا ہے تو یہ بات بھی اسے اپنے ماحول اور تجربات اور کسی حد تک
اپنی نفسیاتی حالت سے بھی مل سکتی ہے۔ اگر وہ پیدائشی شکی مزاج ہے تو شاید
وہ کسی بھی مذہب سے مطمئن نہ ہو اور نہ ہی کسی مذہب پر کاربند رہے۔ مذہب
انسان کے گرد ایک بہت مضبوط، پائیدار اور دائمی حصار تعمیر کرتا ہے جس سے
انسان شاید ساری زندگی باہر نہیں آسکتا۔اس مذہب میں وہ اپنے والدین، بہن
بھائی اور رشتہ داروں کو بھی دیکھتا ہے۔ اس کے اکثر و بیشتر دوست بھی اسی
مذہب میں ہوتے ہیں تو اس کی قریباً تمام ظاہری و باطنی ضروریات اس مذہب سے
پوری ہو جانے کے باعث اسے مذہب سے باہر جھانکنے کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی،
اگر کبھی حالات اس کے ذہن کو جھنجھوڑتے بھی ہیں تو مذاہب کے نظریات اس قدر
وسیع اور ہمہ گیر ہوتے ہیں کہ اس کو دوسری طرف سے بھی مطمئن کر لیتے ہیں۔
اخلاق ماحول کا تیسرا ذیلی دائرہ کہا جا سکتا ہے۔ یہ مذہب کی گود میں جنم
لیتا ہے لیکن مذہب سے زیادہ اطلاق رکھتا ہے۔ جو لوگ مذہبی ہوتے ہیں وہ
اخلاق اپنانے کی بھی کوشش کرتے ہیں اور جو لوگ مذہبی ذہنیت نہیں بھی رکھتے
وہ بھی اخلاقی رہنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ایک علاقے کا اخلاق دوسرے علاقے کے
اخلاق سے مختلف بھی ہو سکتا ہے اور ایک جیسا بھی۔ اکثر انسانی معاشروں میں
اخلاقی ضوابط تقریباً ایک جیسے ہی ہوتے ہیں لیکن کچھ باتوں میں فرق بھی آ
جاتا ہے۔ انسا ن کو اپنے علاقے کا اخلاق اپنانے کی کوشش بھی کرنا پڑتی ہے۔
اس اخلاق میں اس کا لباس اور اس کا رویہ، شادی بیاہ کے انداز ، اور دوسری
رسومات بھی شامل ہو سکتی ہیں۔ انسان ان سب باتوں کو اپنے گرد ایک لازمی
سوال کی طرح ضروری پاتا ہے۔ اسے بعض اوقات اخلاق کا ماسک بھی پہننا پڑتا
ہے۔اور یہ بات بھی اسے کرنی ہی پڑتی ہے۔ بعض اوقات انسان تکلف بر طرف کرنے
کی کوشش بھی کرتا ہے جیسا کہ دوستوں یا قریبی رشتہ داروں میں لیکن پھر بھی
بڑی حد تک اسے اپنے آس پاس کے اخلاق اپنانے ہی ہوتے ہیں۔ وہ اس اخلاقی
ضابطے سے صرف اس صورت باہر جا سکتا ہے کہ وہ اس معاشرے یا ماحول ہی سے باہر
چلا جائے ورنہ اس پر اس معاشرے کا اخلاق کسی نہ کسی حد تک ایک مجبوری کی
طرح نافذ ہی رہے گا۔
قانون ماحول کا چوتھا ذیلی دائرہ بناتا ہے۔ اخلاق کی طاقتور شکل ہے۔ اخلاق
عام طور پر شائستگی اور انکساری کا مظہر ہوتا ہے لیکن جب معاملات سنگین ہو
جائیں اور لاتوں کے بھوتوں کو سیدھا کرنے کی ضرورت ہو تو اخلاق کو اپنا
لہجہ سخت کرنا پڑتا ہے اور اس سخت لہجے کے
اخلاق کو قانون کہا جاتا ہے۔ کسی بھی علاقے یا معاشرے کا قانون اس کے اخلاق
سے اپنی بنیاد لیتا ہے۔ جیسا کہ یورپ میں نوجوان لڑکیاں ، لڑکے کھلے عام
دوست بنتے اور اکٹھے رہتے ہیں وہاں کے اخلاق میں یہ برائی نہیں تو وہاں کے
قانون میں بھی کسی کو کسی کی پرسنل لائف میں دخل اندازی کا حق نہیں جبکہ
ہمارے معاشرے کے اخلاق میں اس بات کی اجازت نہیں تو یہاں کے قانون میں بھی
مردو زن بغیر کسی اخلاقی یا قانونی رشتہ کے اکٹھے نہیں پھر سکتے یا رہ
سکتے۔ قانون کا دائرہ انسان پر منڈلاتا رہتا ہے اور جب انسان اس طرح کا
ایکشن جسے جرم کہا جاتا ہے کر لیتا ہے تو قانون اس پر اپنی حکمرانی کا حق
ثابت کرتا ہے۔ اگر انسان قانون کے مطابق معصوم یا بے گناہ رہتا ہے تو اسے
قانون حفاظت اور عزت دیتا ہے۔ انسان جس بھی معاشرے میں رہتا ہے اس پر قانون
کا دائرہ اپنی برتری یا حاکمیت جتاتا ہے۔اخلاق کا انتقام نظر سے گرانا لیکن
قانون کا انتقام تختہء دار پر لٹکانا بھی ہو سکتا ہے۔ انسان قانون کی
چاردیواری سے اوپر نہیں اڑ سکتا۔
معاش ماحول کا پانچواں ذیلی دائرہ تعمیر کرتا ہے۔ یہ انسان کے گرد ایک بہت
سخت اور مضبوط دائرہ بناتا ہے۔ انسان کی اپنی معا شی حالت کیا ہے اور وہ کس
معاشرے میں رہتا ہے یہ دونوں باتیں انسان کے ذہن پر جتنی اثر انداز ہوتی
ہیں اتنا عام طور پر کوئی اور چیزیں نہیں ہوتیں۔ عام طور پر زیادہ تر
انسانوں کو معاش کا مسئلہ ہی اپنے اندر الجھائے رکھتا ہے اور وہ صبح سے شام
اور شام سے صبح تک اپنے کاروبار کی ترقی اور آمدنی میں اضافے کے خواب ہی
دیکھتا رہتا ہے۔ اکثر غریب لوگ معاش کے ہاتھوں پریشان رہتے ہیں اور اکثر
امیر لوگ معاش کی بہتات کی چکر میں پریشان رہتے ہیں۔ دوسرے الفاظ میں معاش
ہی زندگی کا اصل یا سب سے زیادہ کمپریہنسو مسئلہ ہے جس نے ہر امیر، غریب کو
اپنے حصار میں لے رکھتا ہے۔ دنیا کے بازار، سڑکوں کی ٹریفک ، یونیورسٹیوں
کی ریسر چ وغیرہ بنیادی طور پر کسی نہ کسی معاشی خواہش کے گرد ہی گھوم رہی
ہوتی ہے۔ اگرچہ معاش کے حصول سے معاشی مسئلہ ختم نہیں ہوتا بلکہ اپنی شکل
بدل لیتا ہے اور نت نئے انداز اور روپ میں سامنے آتا ہے لیکن انسان اس کے
قدم قدم پر دھوکے کھانے کے باوجود اس کی طلب اور خواہش سے باہر نہیں آ
پاتا۔ انسان کی سماجی عزت اور احترام کا دارومدار بھی اسی بات پر ہوتا ہے
کہ انسان کی تجوری خالی ہے یا بھری ہوئی۔ انسانی ضرورتوں اور آسائشوں کو
پورا کرنے کے لئے معاش کا کردار کسی تعارف کا محتاج نہیں ہے۔ایک انسان کی
زندگی کا انحصار اس بات پر بھی ہوتا ہے کہ وہ جس معاشرے میں رہتا ہے وہ
اپنے لوگوں کو کیا کیا معاشی مواقع فراہم کرتا ہے۔اگر معاشرہ شہری ہے یا
خوش حال ہے تو شخص پر اس کے اثرات کا انداز دیہاتی اور پسماندہ معاشرے کے
اثرات سے مختلف ہو گا۔ پوش علاقوں میں غریب لوگ اور پسماندہ علاقوں میں
امیر لوگوں کا گزارا عام طور پرنہیں ہو پاتا۔ غریب، غریبوں کے ساتھ اور
امیر، امیروں کے ساتھ ہی نبھا کرتے ہیں یا وہ لوگ جن کی آپس میں انڈرسٹیڈنگ
ہو جائے اکٹھے رہ سکتے ہیں۔ لیکن کسی بھی صورت میں معاش انسان کے گرد
معاشرتی سطح کا ایک زبردست دائرہ ہے جو اس کی خواہشات، حرکات و سکنات، اور
سماجی مقام و مرتبہ کا تعین کرتا ہے۔ معاشی طور پر غریب لوگ چاہے کتنے ہی
عظیم کیوں نہ ہوں عام طور پر لوگوں کے نزدیک باوقار نہیں بن پاتے۔ اور
معاشی طور پر امیر لوگ چاہے کیسے بھی کیوں نہ ہوں با وقار ہی رہتے ہیں۔
علمی ادبی حالت کسی ماحول کا چھٹا ذیلی دائرہ بناتی ہے۔ کسی بھی انسان کے
گرد ایک دائرہ اس کے شعور کا بھی ہوتا ہے اور اس کا شعور اس کے علی ادبی
ماحول سے فروغ پاتا ہے۔ ایک گھر کی علمی ادبی حالت کیا ہے، ایک معاشرے کی
علی ادبی حالت کیا ہے، اس سے کسی انسان کے رویئے جنم لیتے ہیں۔ ایک نسان
اپنے اس شعور کی مدد سے مزید آگے بڑھتا ہے ۔ اس کی زبان ، اس کے علم اور اس
کی معلومات اس کے ضمیر اور کردار کا تعین کرتی ہیں۔ دنیا ایک ایسا سٹیج ہے
کہ یہاں ہونے کو کچھ بھی ہو سکتا ہے لیکن ایک عمومی بات کا جائزہ انہی
اصولوں پر لیا جائے گا جو عمومی نفسیات اور ادراک کو قرینِ قیاس محسوس ہوں
گے۔ اسی اصول پر جب پرکھیں تو عام بات کی جاتی ہے کہ پڑھے لکھوں کا رویہ ان
پڑھوں سے مختلف ہوتا ہے یا ہو نا چایئے۔ تعلیم کی ضرورت دراصل وہی دائرہ
تعمیر کرنے کے لئے محسوس کی جاتی ہے جس کے زیرِ اثر وہ کر دار پیدا ہو سکے
جس کی تعلیم سے توقع کی جاتی ہے۔ ماحول میں علمی ،ادبی عناصر اور ان حالت
اور معیار اس ما حول میں رہنے والوں کے کردار اور رویوں اور ان کے معیار کا
تعین کرتے ہیں جیسے کہ شہری لوگوں کے رویئے دیہاتی لوگوں کے رویوں سے مختلف
ہوتے ہیں اور دیہاتی لوگ شہری رویوں کی کاپی کر کے اپنا معیار بلند کرتے
ہیں۔ یا یوں کہہ لیں کہ ترقی یا فتہ دنیا کی نقل ترقی پذیر یا پسماندہ دنیا
کے باشندے کرتے ہیں اور اپنے آپ کو مہذب گردانتے ہیں۔ یا یوں سمجھ لیں کہ
ایک ترقی یافتہ زبان کے انداز اور الفاظ پسماندہ زبان اپنانے کی کوشش کرتی
ہے اور اپنا ذخیرہ الفاظ بہتر بناتی ہے۔یہی انداز انسان کا بھی ہے۔ اس کے
گرد تعلیم کا دائرہ اس کے رویوں کا تعین کرتا ہے۔ یہ بات ہمارے ماحول میں
بہت عام ہے کہ پڑھے لکھے لوگ ان کاموں سے اجتناب کرتے ہیں جن میں مشقت اور
جسمانی ایکٹوٹی شامل ہو۔ جب کہ ان پڑھ لوگ وہی کام بغیر کسی ہچکچاہٹ کے کر
رہے ہوتے ہیں اور کافی روزگار بھی کما رہے ہوتے ہیں۔ تعلیم یافتہ دنیا میں
جہاں سارے لوگ ہی پڑھے لکھے ہوتے ہیں وہاں بھی پڑھے لکھے لوگ جسمانی مشقت
کے کام کرتے ہیں بلکہ افسران اپنا دفتر خود ہی صاف کرتے ہیں کیوں کہ وہاں
کے تعلیمی ماحول میں یہ بات شامل نہیں جو ہمارے تعلیمی ماحول میں ہو جاتی
ہے ۔
معاشرہ کی تاریخ کسی ماحول کا ساتواں ذیلی دائرہ بناتی ہے۔کسی معاشرہ کی
تاریخ اس ماحول میں رہنے والے لوگوں کے رویئے متعین کرتی ہے۔ ایک ماحول کچھ
چیزوں کو تاریخی اعتبار سے قابلِ تعریف بناتا ہے اور کچھ چیزوں کو قابلِ
تنقید سمجھا جاتا ہے۔ اگر ایک شخص نے اس ماحول میں رہنا ہے تو اسے بھی وہ
نارم اپنانی پڑتی ہے جو اس ماحول نے اپنائی ہوئی ہے۔ جیسا کہ پاکستان میں
رہنے والوں کے لئے کچھ تاریخی ہستیوں کی تعریف کرنا ضروری ہے یا کم از کم
وہ ان کے خلاف بات نہیں کر سکتے۔ اسی طرح انڈیا میں رہنے والوں کے لئے کچھ
تاریخی ہستیوں کی تعریف لازم ہے۔ اسی طرح واقعات کو بھی ایک خاص انداز سے
دیکھا جاناہوتا ہے۔ا س انداز کو ایک معاشرہ طے کرتا ہے اور ایک شخص اس کو
اپنے لئے ضروری سمجھتا ہے ورنہ وہ اس معاشرہ سے کٹ آف ہو جائے گا یا تنقید
کا نشانہ بنے گا یا شدید ردِ عمل کا سامنا کرے گا۔ اس بات کو قومی بیانہ
بھی کہا جاتا ہے ایک قوم کا باشندہ اپنی قوم کے بیانہ کا علمبردار ہوتا ہے۔
اور یہ بیانہ ایک خاص تناظر میں اپنی حتمی شکل اختیار کرتا ہے۔ اس میں بہت
سی باتیں آتی ہیں یہاں تک کی زبان اور مذہب بھی آ جاتے ہیں اور چھوٹی سطح
پر مسالک اور سیاسی پارٹیوں سے وابستگی بھی اس کا حصہ بن جاتی ہے۔ انسان
اپنی نفسیات کے تابع رہتا ہے اس کا سوفٹ ویئر اپنے اندر اتنی وسیع
برداشت نہیں رکھتا اس لئے وہ اپنی طاقت اور کمزوری کے وقت اپنی رویوں اور
نظریوں میں تبدیلی یا فرق پاتا ہے۔
تیسرا دائرہ
عالم گیریت انسان کے گرد سب سے وسیع دائرہ بناتی ہے جو انسان کے باقی سب
چھوٹے چھوٹے دائروں کو بھی اپنے حصار میں لے لیتا ہے۔ اور یہ وہ دائرہ ہے
جس کی حدود و قیود سے کوئی انسان اپنی کوشش، مرضی یا خواہش سے کبھی بھی
نہیں نکل سکتا۔اس دائرے میں مذید چھوٹے دائرے بھی شامل ہیں جن کو ذیل میں
زیرِ بحث لایا گیا ہے۔
قدرتی فطرت اس تیسرے دائرے کا پہلا ذیلی دائرہ ہے۔ قوانینِ فطرت انسان کو
اس طرح اپنے حصار میں لیتے ہیں جیسے زمین و آسمان جن سے دور انسان کہیں
نہیں جا سکتا۔ انسان جس طرح ظاہری طور پر زمین و آسمان میں مقید ہے ایسے ہی
ذہنی اور جسمانی طور پر ان کا قیدی ہے۔ انسان موت سے بھاگ نہیں سکتا ۔موت
اس کے پیچھے ایک میزائل کی طرح فطرت نے لگا دی ہے اور اب وہ اس سے بچ نہیں
سکتا ۔ انسان موت کا ایسے ہی تابع ہے جیسے وہ اپنی پید ائش کا تابع تھا۔ وہ
اپنی پیدائش اپنی مرضی سے نہیں کر پاتا، ایسے ہی اس کی موت بھی اس کے جتنا
مرضی نہ چاہنے کے باوجود واقع ہونی ہی ہوتی ہے اور اکثر اس کی خواہش یا
انتخاب کے بغیر ہی ہوتی ہے۔ یہاں تک کہ بعض کو تو اپنی منتخب جگہ میں دفن
ہونا بھی نصیب نہیں ہوتا۔ ہندوستان کا آخری مغل شہنشاہ بہادر شاہ ظفر ؔیہاں
یاد آئے بغیر نہیں رہتا:
کتنا ہے بد نصیب ظفر دفن کے لئے
دو گز زمیں بھی نہ ملی کوئے یار میں
فطرت انسانی جسم میں جو تبدیلیاں طے کر چکی ہے وہ ہو کے رہنی ہوتی ہیں۔ اور
اگر فطرت کا رستہ غیر فطری طریقوں سے روکا جائے تو اس کے نتائج تباہ کن
نکلتے ہیں۔ فطرت نے انسانی جسم اور دوسرے جانداروں میں جو تبدیلیاں یا
مراحل رکھے ہیں وہ انسان کی خوہش کے بغیر بھی طے ہوتے ہی رہنے ہیں۔جیسا کہ
بڑھاپا آ کے رہنا ہوتا ہے۔ اور باقی تبدیلیاں بھی۔ زہر کی تاثیر میں ہلاکت
ہی رہنی ہے۔ انسان اپنی مرضی سے اپنی زندگی یا چیزوں کی تاثیر یا فطرت کے
اصول و ضوابط نہیں بدل سکتا۔ اسے اس دائرے کی تابعداری کرنی ہی پڑتی ہے۔
کوئی شخص اڑنے کی خواہش ہیلی کاپٹر یا ہوائی جہاز کے ذریعے تو پوری کر سکتا
ہے پر وہ اپنے پر نہیں بنا سکتا اور پرندوں کی طرح اڑ نہیں سکتا۔ مصنوعی
چیزوں کا انداز اور ہے۔ افریقی ماحول کے لوگ، یورپی ماحول کے لوگ اور
ایشیائی ماحول کے لوگ واضح طور پر اپنی اپنی فطرت کے تابع وقت گزارتے ہیں ۔
موسم بھی فطرت کا ایک نمائندہ ہے۔ اور جب آتا ہے اپنی مرضی کرتا ہے۔ باہر
کی فطرت اور پھر اندر کی فطرت جس کی اوپر بات ہو چکی ہے جیسا کہ بچپن،
جوانی اور بڑھاپا سب اپنا اپنا حکم لاتے ہیں اور انسان اس حکم کی رعایا کی
طرح اسکو مانتا چلا جاتا ہے ۔انسان اس دائرے سے فرار اختیار نہیں کر سکتا۔
اور فطرت نے جس چیز میں جو اثر رکھ دیا ہے وہ بھی نہیں بدل سکتا۔انسان ان
کے تابع ہے۔انسان نہ سورج کو طلوع ہونے سے روک سکتا ہے اور نہ غروب ہونے
سے۔ اسے فطرت کے احکام ماننے ہی پڑتے ہیں۔
عالمی اخلاقیات تیسرے دائرے کا دوسرا ذیلی دائرہ ہے۔کچھ اخلاقیات علاقائی
ہوتی ہے جیسا کہ لباس ، گھروں، خاندانوں اور شادی بیاہ کے رویئے اور طور
طریقے وغیرہ۔ لیکن کچھ اخلاقیات عالمی اور ابدی ہوتی ہے جیسا کہ انسانی جان
سے ہمدردی، غربت کے ماروں سے ہمدردی، نا خواندہ لوگوں سے ہمدردی وغیرہ۔
انسان، علاقائی اخلاقیات سے تو بغاوت اور کنارہ کر سکتا ہے لیکن عالمی یا
انسانی اخلاقیات سے نہیں۔ ہم ایک نارمل اور اچھے انسان کی بات کر رہے
ہیں۔ہر انسان کی نہیں جو کہ ممکن بھی نہیں۔ ایک انسان چاہے کسی مذہب وملت،
علاقے یا زمانے کا ہو انسانی اخلاقیات سے کنارہ کش نہیں ہو سکتا یا اس کے
خلاف بات نہیں کر سکتا۔ عالمی انسانی ہمدردی کی تنظیمیں اور خیراتی ادارے
علاقوں، مذہبوں اور زبانوں کے تعصبات سے بالا تر ہو کر اپنا کام کرتے
ہیں۔دو ممالک ایک دوسرے سے جنگ بھی لڑ سکتے ہیں اور زلزلے اور سیلاب کی
صورت میں ایک دوسرے کے معاون اور مدد گار بھی ہو سکتے ہیں۔ زلزلوں اور
دوسری آفتوں کے وقت انسانی ہمدردی یا انسانی اخلاقیات اپنا ظہور کرتی ہے
اور جنگوں ک صورت میں علاقائی یا معاشرتی یا قومی بیانیئے اور نظریئے ایک
دوسرے سے لڑ رہے ہوتے ہیں۔ ریڈ کراس کی تنظیمیں بھی انہی علاقوں میں کام کر
رہی وہوتی ہیں جن پر انہی تنظیموں کے سر پرست حملہ آور ہو رہے ہوتے
ہیں۔عالمی اخلاقیات کے تناظر میں گھناؤنے جرائم کی دنیا بھر میں مخالفت کی
جاتی ہے اور اچھے کاموں کو سراہا جاتا ہے۔
بنیادی انسانی ہمدردی اس عالمگیریت کا تیسرا ذیلی دائرہ ہے۔ انسان کے اندر
دوسرے انسانوں، جانداروں اور تمام اشیا سے ایک قدرتی ہمدردی پائی جاتی ہے
جسے انسانی ہمدردی کہا جا سکتا ہے۔ اس انسانی ہمدردی کی موجودگی میں انسان
کے لئے ممکن نہیں کہ وہ دوسرے انسانوں سے ہمدردی نہ رکھے۔ اگرچہ کسی فلسفی
کا قول بھی موجود ہے کہ انسان کی دنیا میں حالت یہ کہ ایک انسان دوسرے
انسانوں کے ساتھ حالتِ جنگ میں ہے۔ لیکن یہ بات اس تناظر میں نہیں کہ ایک
انسان دوسرے انسانوں کا قاتل یا دشمن ہے بلکہ اس تناظر میں ہے کہ ایک انسان
کا دوسرے انسانوں سے مقابلہ ہے، میچ ہے ، ٹورنامنٹ ہے۔ لیکن یہ باتیں زندگی
اور دنیا کی ترقی کے لئے ضروری بھی ہیں۔ آرٹ میں بھی مقابلہ ہے اور سائنس
میں بھی مقابلہ ہے، ادب میں بھی مقابلہ ہے اور ٹیکنا لوجی میں بھی لیکن یہ
مقابلہ مثبت ہے اور اس کے ثمرات اور اثرات بھی مثبت ہیں اگرچہ بعض صورتوں
میں خرابی بھی سامنے آ جاتی ہے جو کہ لوگوں کا ذاتی یا وقتی مسئلہ یا فعل
ہوتا ہے ایک عالمی سچائی نہیں۔بنیادی انسانی ہمدردی کی بنا پر ایک انسان
دوسرے انسانوں کے لئے اچھا سوچتا اور اچھا کرتا ہے۔ اگر بنیادی انسانی
ہمدردی نہ ہو تو عالمی اخلاقیات اور عالمی بہتری کی تمام سکیمیں اور منصوبے
نہ صرف جنم ہی نہ لیں بلکہ کوئی انسان دوسروں کا سوچے ہی نہ۔ ہمارے ملک میں
غیر ملکی خیراتی ادارے این جی اوز کی صورت میں بہت اچھا کام کر رہی ہیں خاص
طور پر تعلیم پر بہت خرچ ہو رہا ہے۔ ہر انسان چاہتا ہے کہ سب انسانوں کو
اچھی زندگی ملے اگر کوئی انسان نہیں چاہتا تو وہ وہ ہے جس کی ذات کسی برائی
اور خرابی میں مبتلا ہے۔ انبیائے کرامؑ، اولیائے عظامؒ اور سب مذاہب کے نیک
لوگوں نے اجتمائی انسانی ہمدردی کا سبق بھی دیا اور اس پر کاربند بھی ہوئے۔
بنیادی انسانی اچھائیاں اور برائیاں تیسرے دائرے کا چوتھا ذیلی دائرہ بناتی
ہیں۔ یہ بات انسان کی اپنی ذات سے
متعلق بھی ہے اور تمام انسانوں کے متعلق بھی ہے۔ یہ وہ دائرہ ہے کہ کوئی
انسان اس سے باہر جانے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔ انسان اپنا ملک چھوڑ سکتا ہے
، اپنا برِ اعظم بھی بدل سکتا ہے۔ لیکن اپنی اندر کی فطرت سے پیچھا نہیں
چھڑا سکتا ۔ یہ بات انسان کی ذاتی بھی ہے اور عالمی بھی کیوں کہ یہ بات ایک
انسان کے اندر بھی ہوتی ہے اور سب انسانوں کے اندر بھی ہوتی ہے اس لئے یہ
بات اس بحث کے آغاز میں بھی آئی ہے اور اختتام میں بھی۔ بات یہ ہے کہ
بنیادی انسانی اچھائیاں اور برائیاں ایک جیسی بھی ہیں اور مختلف بھی ہیں۔
یا دوسرے الفاظ میں ہر انسان ایک جیسا سوفٹ ویئر رکھنے کے باوجود ایک جیسا
نہیں ہے۔ ہر انسان دوسرے انسان جیسا بھی ہے اور اس سے مختلف بھی ہے۔ مختلف
ہونے میں اس کی ذات بنتی ہے ایک جیسا ہونے میں عالمگیریت جنم لیتی ہے۔ہر
انسان ان اچھائیوں اور برائیوں کومختلف انداز میں بروئے کار لاتا ہے۔ اسی
احساسِ یکسانیت کی بنیاد پر ایک انسان ، دوسرے انسانوں کے جذبات سمجھ پاتا
ہے۔ ایک انسان کی خوہشات کا ادارک ہوتا ہے اور اس کی اچھائی یا برائی کا
درجہ متعین ہوتا ہے۔انسان ان سے بچ نہیں سکتا ۔ وہ بہت سے اچھائیوں اور
برائیوں میں سے کچھ اختیار کر لیتا ہے اور باقی دوسروں کے لئے چھوڑ دیتا
ہے۔یہ دائرہ آفاقی اور دائمی ہے انسان اس کی حدود سے تجاوز نہیں کر
سکتا۔اور اپنے ریفرنس سے وہ دوسروں کو سمجھتا ہے۔اور دوسروں کے ریفرنس سے
خود کو۔
عالمی انسانی رویئے اور نفسیات تیسرے بنیادی دائرے کا پانچواں ذیلی دائرہ
بناتے ہیں۔انسانی اچھائیوں اور برائیوں کے ساتھ ساتھ ہر انسان بے شمار قسم
کے نفسیاتی مسائل اور حالات کا شکار بھی ہوتا ہے۔ نفسیاتی مسائل اگرچہ
زیادہ تر انفرادی نوعیت کے ہوتے ہیں لیکن اس دور میں انسان انٹر نیشنل ہو
چکا ہے۔ اس پر عالمی حالات ایسے ہی اثر انداز ہوتے ہیں جیسے کہ اس کے اپنے
ملک یا اپنے گھر کے حالات۔ ڈالر کی قیمت میں کمی بیشی سے وہ مہنگائی اور
چیزوں کی قیمتوں سے متاثر ہوتا ہے۔ اسی طرح انٹر نیشل میچ اس کے جذبات پر
اثرات ڈالتے ہیں ۔ عالمی منڈی کا تصور زیادہ واضح اور موئثرہوتا جا رہا ہے۔
عالمی سطح کا اندازِ زندگی اپنانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ انٹرنیٹ اور سوشل
میڈیا جیسی چیزوں نے انسانوں کی قربت میں طلسماتی کردار اداکیا ہے۔ اب
انسان عالمی سطح پر ایک دوسرے کے قریب رہنے لگے ہیں اور اس طرح اایک دوسرے
سے زیادہ متاثر بھی ہو رہے ہیں۔ یہ باتیں ان کی نفسیات پر گہرے اثرات چھوڑ
رہی ہیں۔ تعلیم کے معییار ایک جیسے ہونے کو جا رہے ہیں۔ زبانوں میں سے بھی
عالمی زبانوں کی برتری کا ڈھول زیادہ اونچا بج رہا ہے اور کچھ زبانیں اپنا
سکہ جما رہی ہیں۔ اور کچھ نئی زبانیں بھی فلورش کر رہی ہیں ۔ زبانوں کی
ڈکشن بڑی تیزی سے تغیر پذیر ہے۔دوسرے الفاظ میں ایک علاقے کی ٹینشنیں اب
دوسرے علاقوں کی ٹینشنیں بن رہی ہیں۔اس طرح اب عالمی نفسیات اور عالمی
رویئے انسان کو اپنے حصار میں لے رہے ہیں جیسا کہ آج کل لباس بھی عالمی ہو
رہے ہیں جیسا کہ پینٹ شرٹ یا کوٹ پہلے کی نسبت بہت زیادہ پہنے جا رہے ہیں۔
خاص طور پرپسماندہ اور ترقی پذیر ممالک کی لڑکیاں پینٹ سے ہی دل لگا بیٹھی
ہیں اور آنے والے کچھ سالوں میں ان پر کسی کو اعتراض بھی نہ رہے گا۔ موبائل
کا استعمال دنیا میں ہر جگہ فروغ پا رہا ہے اور اس کے مسائل اور فوائد بھی
قریباً ایک جیسے انداز میں ساری دنیا کے سامنے آ رہے ہیں۔انٹر نیٹ نے تو
انسان کی وحدت میں کمال کر دیا ہے۔ اور انسانوں کو ایک جیسی سہولتوں اور
صعوبتوں سے آشنا کر دیا ہے۔ جب مسائل اور ذرائع ایک جیسے ہوں گے تو نفسیات
بھی ایک جیسے انداز میں کام کرے گی اور ڈسکس ہو گی۔ اگر چہ کچھ کچھ
اختلافات یا فرق تو کبھی بھی ختم نہیں ہوتے اور وہ ہر جگہ اپنا وجود برقرار
رکھتے ہیں لیکن یہ ایک بہت بڑی تبدیلی آ رہی ہے جو انسان کو عالمی سطح پر
ایک جسے انداز میں ڈیل کر رہی ہے۔
اس طرح یہ تینوں دائرے انسان کے ذہن اور عمل کو اپنی لپیٹ میں لئے رکھتے
ہیں اور انسان ان دائروں میں اور کبھی کبھی ایک سے دوسرے دائرے میں آتا
جاتا رہتا ہے۔ ان دائروں کا باہی انحصار ہوتا ہے اور ایک دوسرے سے ہمسایوں
، رشتہ داروں اور رفقائے کاروں کی طرح معاونت لیتے رہتے ہیں۔ |