علماء اہل سنت کے درمیان شرک و بدعت کے مسائل ہوں یا
تقدیسِ الوہیت اور عظمتِ رسالت سے متعلقہ ابحا ث، یہ تو دیوبند اور بریلی
کے مدارس کے قیام سے بھی بہت پہلے کی ہیں۔ مسئلہ امتناعِ نظیر کے حوالے سے
شاہ اسماعیل صاحب دہلوی اورعلامہ فضل ِ حق خیرآبادی کے درمیان بحث مباحثہ
تو مشہور و معروف ہے۔ خاص دیو بندی و غیر دیوبندی (بریلوی) تنازعہ کے تناظر
میں بھی دیکھنا ہو تو ساری بحث اثر ابن عباس کے حوالے سے مولانا احسن
نانوتوی کی کتاب سے شروع ہوئی ۔ اس کی تائید میں مولانا قاسم نانوتوی نے
۱۲۹۰ھ /۱۸۷۲ء میں تحذیر الناس لکھی ۔ اس پر اہل سنت کے حلقوں میں خوب شور
اٹھا۔اور ہندوستان بھر میں علماء نے مخالفت کی۔ بلکہ خود مولانا تھانوی نے
کہا ہے کہ جب مولانا نانوتوی نے تحذیر لکھی تو ہندوستان بھر میں کسی نے
موافقت نہ کی سوائے مولانا عبد الحئ لکھنوی کے (دیکھیے الافاضات الیومیہ،
جلد چہارم) ۔ یہ الگ بات کہ مولانا لکھنوی نے بھی بعد میں رسالہ ”ابطالِ
اغلاطِ قاسمیہ (۱۳۰۰ھ/۱۸۸۳ء)“ کی تائید کر کے پہلے موقف سے رجوع کر لیا۔یہ
رسالہ بھی کسی بریلوی عالم کی کاوش نہ تھی۔ بلکہ شروع میں مخالفت دیگر سنی
علماء کی طرف سے سامنے آئی۔اور وہیں سے بات آگے بڑھی۔ اسی طرح اس دورمیں
ایک اور تصنیف جو بعد میں علماء دیوبند اور سنی علماء کے مابین وجہ بحث بنی
وہ ” انوار ساطعہ” ہے جس کے مصنف مولانا عبد السمیع رامپوری تو حاجی
امداداللہ مہاجر مکی کے خلیفہ تھے۔ کوئی بریلوی نسبت نہ تھی ۔ بلکہ یہ کتاب
آپ نے ۱۳۰۲ھ میں لکھی۔جبکہ دارالعلوم منظرِ الاسلام بریلی کا قیام
۱۳۲۲ھ؍۱۹۰۴ میں عمل میں آیا۔ اس کے ردّ میں براہین قاطعہ ۱۳۰۴ھ میں آئی ۔ان
موضوعات پر پہلا بڑا مناظرہ علامہ غلام دستگیر قصوری (خلیفہ حضرت مولانا
محی الدین قصوری جو معروف نقشبندی مجددی شیخ یعنی شاہ غلام علی دہلوی کے
خلیفہ تھے) اور مولاناخلیل احمد سہارنپوری کے درمیان بہالپور میں ۱۳۰۶ھ میں
ہوا۔ مولانا قصوری کی زندگی بھر مولانا احمد رضا خاں بریلوی ( م ۱۳۴۰ ؍
۱۹۲۱) سے ملاقات تک ثابت نہیں چہ جائیکہ انہیں بریلوی کہا جائے۔ بلکہ زمانی
لحاظ سے بھی انہیں مولاناکے والد، مولانا نقی علی خان، کا معاصر کہنا زیادہ
درست ہو گا ۔ گویا علماء دیوبند کے مقابل علمی بحث اور مناظرہ بازی سنیوں
میں جن دو بڑی قد آور شخصیات نے شروع کی۔ دونوں کا بریلویت سے کوئی تعلق
نہیں ، یعنی ایک ان کے اپنے شیخ حضرت مہاجر مکی کے خلیفہ مولانا عبد السمیع
رامپوری اور دوسرے علامہ قصوری ۔گویا یہ عقائد و معمولات کا اختلاف اور
مناظرے مولانا احمد رضا بریلوی کے فتاویٰ سے بھی دو دہائیاں پہلے کے ہیں ۔
اگرچہ یہ بات درست ہے کہ حسام الحرمین ( ۱۹۰۶) نے دیوبندی بریلوی تنازع کو
بہت اجاگر کیا اور طرفین کے رویوں میں شدت آنے لگی۔ تاہم دیوبندی بریلوی
تنازع کو سمجھنے کے لیے اس کا تاریخی پس منظر سمجھنا ناگزیرہے اور اسکے لیے
دو کتب کا مطالعہ از حد ضروری ہے اور جیسا کہ پہلے عرض کیا گیا یہ دونوں
کتابیں کسی بریلوی عالم کی نہیں ۔ ایک حاجی امداداللہ مہاجر مکی کے خلیفہ
اجل کی ہے میری مراد ’انوار ساطعہ‘ از علامہ عبد السمیع
رامپوریؒ(م۱۳۱۸؍۱۹۰۰)سے ہے۔ جبکہ دوسری معرکہ آراء تصنیف ’ تقدیس الوکیل‘
علامہ غلام دستگیر قصوری نقشبندیؒ (م۱۳۱۵/ ۱۸۹۷) کی ہے جو خواجہ غلام محی
الدین قصوری نقشبندی مجددیؒ (خلیفہ شاہ غلام علی دہلویؒ) کے خلیفہ اور
شاگرد تھے ۔لہذا ان اکابر کی کتب کا مطالعہ بڑی حد تک اس علمی و فکری پس
منظر کو واضح کردیتا ہے۔ ان دو کے علاوہ اکابر دیوبند کے پیر و مرشد سید
الطائفہ حاجی امداد اللہ مہاجر مکی (۱۳۱۷/۱۸۹۹م ) کا رسالہ ” فیصلہ ہفت
مسئلہ ” ( شائع شدہ ۱۳۱۲ ھ/۱۸۹۴ ء )بھی لائق مطالعہ ہے۔ان کتب کے مطالعہ سے
اچھی طرح معلوم ہو جائے گا کہ یہ اختلاف اب کے نہیں بلکہ زمانہ صحابہ کے
ہیں اور یہ اختلاف رحمت ہے آج کے اس دور میں یہ اختلاف صرف برائے اختلاف ہی
رہ گئے ہیں اور عوام تک پہنچ چکے ہیں ہر دو مسلک کی عوام کو چاہیے کہ ان سے
خود ذاتی طور پر کوسوں دور رہیں ورنا امین سے ہاتھ دوھ بیٹھیں گے،یہ صرف
علمی حلقوں تک محدود ہونے چاہیے ۔اللہ پاک ہم سب ھدایت نصیب فرمائے۔آمین۔
|