اسلامی جمہور ، مقلد یا امام

آج سے ستر سال پہلے کا پاکستانی مسلمان یہ نہیں سوچ سکتا تھا کہ پاکستان میں مسلمان ایک دوسرے کے گلے کاٹیں گے اور پاکستان کے میوزیکل چینلز پر پاکستان کی مسلمان خواتین گانے گائیں گی لیکن مغرب کی اطاعت اور تقلید کے باعث آج ستر سال کے بعد یہ سب کچھ پاکستان میں ہو رہا ہے

جنگ جاری ہے، موجودہ جنگ میں ایٹمی ہتھیاروں کا کوئی کام نہیں، کسی بھی قسم کا آتشیں اسلحہ استعمال نہیں ہورہا بلکہ یہ جنگ قیادت و اقتدار کے بل بوتے پر لڑی جا رہی ہے۔جب تک مسلمانوں کے پاس قیادت اور اقتدار تھا، دنیا میں اسلام کا ڈنکا بجتا تھا، مسلمان ہی اقوامِ عالم کی ہر طرح کی رہنمائی کرتے تھے، اقتصاد، سیاست، دفاع، تعلیم، صحت، اور تحقیق و تالیف سب میں مسلمان قیادت آگے آگے تھی،لیکن جب امریکہ و یورپ نے مسلمانوں پر شب خون مارنے کے بجائے ان سے قیادت چھین لی اور مسلمان امام کے بجائے مقلد بن گئے، مسلمانوں کو اپنا مقلد بنانے کے بعدانہوں نے تمام شعبہ جات کے لئے مسلمان افراد کی تربیت کر کے حکومت بھی سنبھال لی اور آج تمام شعبوں میں ہم مسلمان اختراعات کرنے کے بجائے، غیر مسلموں کی نقالی کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔

قیادت کے ساتھ دوسری چیز حکومت ہے، جب کسی ملک میں جمہور اسلامی ہوتو وہاں حکومت بھی جمہوری ہونی چاہیے لیکن ہمارے ہاں جمہور تو اسلامی ہوتا ہے لیکن حکومتیں آمرانہ ہوتی ہیں۔اس کا نتیجہ یہ ہے کہ ہمارے حکمران اور حکومتیں بھی امریکہ و غر ب کی تابعدار اور نقال ہیں۔

حکومت یعنی جمہور کی آواز ، ایک اسلامی ملک میں جمہور کی آواز یہی ہوتی ہے کہ اللہ کی زمین پر الٰہی انسانوں کے ذریعے الٰہی نظام قائم کیا جائے لیکن ہمارے ہاں نام تو اسلام کا لیا جاتا ہے اور نظام غیر مسلموں کا لانچ کیا جاتا ہے۔

مثلا اگر ایک دیگ میں کوئی حرام چیز پکائی جائے اور پکانے والا مسلمان ہو تو وہ حرام چیز، حلال نہیں ہو جائے گی اور اگر پکانے والا وضو بھی کر لے اور قبلہ رخ بھی کھڑا ہو جائے اور منہ سے اونچی آواز میں اللہ اکبر اللہ اکبر کہہ کر دیگ میں چمچے بھی مارنا شروع کردے تو اس سے لوگوں کو تو دھوکہ دیا جاسکتا ہے لیکن پھر بھی حرام چیز بالکل بھی حلال نہیں ہو گی۔

یہی حال نظامِ حیات کا بھی ہے، اگر کافروں کا بنایا ہوا نظام حیات مسلمان بھی نافذ کریں گے تو وہ حلال نہیں ہو جائے گا بے شک مسلمان باوضو ہوکر اللہ اکبر کے نعرے لگاتے رہیں۔

مسلمانوں کی زبوں حالی کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ مسلمانوں کا جمہور تو اسلامی تھا لیکن مسلمانوں کی قیادت اور اقتدار جمہوری کے بجائے آمرانہ تھی ۔جب اسلامی قیادتیں اور حکومتیں آمرانہ ہوجاتی ہیں تو پھر وہ نظامِ حیات کے لئے اسلامی جمہور کے بجائے اغیار کی طرف جھکنے لگتی ہیں۔

آج آپ سعودی عرب کو دیکھ لیجئے، سعودی عرب کا جمہور کہنے کو اسلامی ہے لیکن عملاً وہاں آمریت ہے ، وہاں کی قیادت اور حکومت اپنے جمہور کی آواز پر لبیک کہنے کے بجائے اغیار کی آواز پر لبیک کہتی ہے، اغیار سے نظامِ حیات لیتی لیکن نعرے اللہ اکبر کے لگاتی ہے۔

ماضی میں جب سعودی عرب ہمارے سامنے داعش، القاعدہ اور طالبان کی بنیادیں ڈال رہا تھا تو تب بھی سعودی عرب کے جمہور کا اس میں کوئی دخل نہیں تھا اور آج جب سعودی عرب لبرل بننے جا رہا ہے تو اس میں بھی سعودی جمہور کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔

یعنی سعودی عرب میں مسلمان عوام ہونے کے باوجود، پریس آزاد نہیں، اپوزیشن کا وجود نہیں، احتجاج کی اجازت نہیں حتیٰ کہ سعودی شاہی خاندان کو بھی حکومت کی مخالفت کی اجازت نہیں تو ایسی گھٹن میں اسے ہی لبرل اسلام کا نام دیا جا رہا ہے جو امریکہ و اسرائیل کا پسندیدہ اور قابلِ قبول ہے۔ یعنی واضح طور پر سعودی عرب میں اسلامی جمہور اپنی قیادت و حکومت کھو چکا ہے اور صرف اس نظام کو چلانے والوں کا نام مسلمان ہے۔

اب دوسری طرف ایران کو لیجئے، ایران جسے دنیا میں اسلامی جمہوریہ ہونے کا دعویٰ ہے، ایران کے سب سے مضبوط علمی مرکز یعنی شہرِ قم میں ایم آئی سکس کے ایجنٹ مجتہد اور فقیہ موجود ہیں، نہ صرف یہ کہ موجود ہیں بلکہ وہ برطانیہ کے ایجنڈے پر پوری طرح کام کر رہے ہیں۔ ان کا مشن مسلمانوں میں فرقہ واریت کو ابھارنا، اتحاد امت کے بجاے شیعہ اور سنی کے درمیان فرقہ واریت کی آگ بڑھکانا، پرانے فرعی اختلافات کو روز مرہ کی بنیادوں پر اچھالنا اور شیعوں میں داعش اور القاعدہ کے تفکر کو پروان چڑھانا ہے۔
ایم آئی سکس کے یہ ایجنٹ شیرازی گروپ کے نام سے ایران میں فعال ہیں اور پوری دنیا میں ان کے پیروکار موجود ہیں۔دنیا میں ان کے ٹی وی چینلز اور ویب سائٹس چل رہی ہیں ،ایران اپنی تمام تر طاقت کے باوجود اس گروپ کو پوری طرح دبانے میں ناکام ہے۔ ایم آئی سکس کا یہ گروپ پاکستان میں بھی گُل کھلانے میں مصروف ہے حتی کہ اس کے ایجنٹ پاکستان کے بعض دینی مدارس کے دورے کرتے ہیں اور دینی مدارس کی طالبات ان کے ساتھ تصاویر بھی بنواتی ہیں۔

یہ سب کچھ اس لئے ہو رہا ہے چونکہ مسلمانوں نے اپنا رہبر و رہنما مغرب کو بنا لیا ہے لہذا ہمارے ہاں، اچھائی و برائی اور عالم و غیر عالم کا معیار بھی وہی بن گیا ہے جومغرب کہتا ہے۔

آج سے ستر سال پہلے کا پاکستانی مسلمان یہ نہیں سوچ سکتا تھا کہ پاکستان میں مسلمان ایک دوسرے کے گلے کاٹیں گے اور پاکستان کے میوزیکل چینلز پر پاکستان کی مسلمان خواتین گانے گائیں گی لیکن مغرب کی اطاعت اور تقلید کے باعث آج ستر سال کے بعد یہ سب کچھ پاکستان میں ہو رہا ہے۔

دنیا بھر کے اسلامی جمہور کو اس وقت اپنی حیثیت اور طاقت کو جمہوری اقدار کے مطابق منوانے کی ضرورت ہے، ہمیں یہ سوچنا چاہیے کہ ہمارے ہاں اچھائی و برائی، سکالر و غیر سکالر، اور عالم و غیر عالم کا معیار مغرب طے کرے گا اور ہم مغرب کے ہی مقلد رہیں گے یا کہ نہیں ہمیں واپس اپنی خود ی کی طرف پلٹنا ہوگا۔

nazar
About the Author: nazar Read More Articles by nazar: 115 Articles with 74651 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.