گاٶں میں غریب نوکر پر چودھری کی چھترول اور شہر کے پوش
بنگلہ میں کمسن نوکر کی چھترول۔ یہ ہمارے سیاسی سسٹم کی بنیاد ہے۔ معاشرہ
کو یرغمال رکھنے والے ایسی لترول روکنے کیلٸے کبھی نہیں سوچتے۔
جب جب غریب نوکر کی غلیظ جوتے سے پٹاٸ ہوٸی مارنے والے کا جرم ناقابل دست
اندازی پولیس قرار پایا۔ اگر کہیں کوٸی واقعہ نشر ہو گیا تو این جی او کے
کام آیا مگر مظوم کو قصاص نہ ملا۔ معصوم طیبہ کا کیس سپریم کورٹ تک پہنچ
گیا مگر قانون ساز منتخب عوامی نماٸندوں کو قانون بنانے کی توفیق نہ ہوٸی
اب جبکہ غریب کے مجرم کو غریب کی نفرت کا جوتا لگنا شروع ہوا تو جرم کو
سولہ ایم پی او کے اضافہ کے ساتھ قابل دست اندازی پولیس بنا ڈالا۔ خطرہ ہے
کہ سرکار کا یہ امتیازی سلوک ایسے مزید واقعات کو نہ روک سکے گا۔
انسدادی قوت کو یہ سمجھنا ہو گا کہ طاقتور پر جوتا پھینکنے والا یہ جانتے
ہوۓ حملہ آور ہوتا ہے کہ پکڑے جانے پر اس کی پٹاٸی ہو گی۔ لہذا حملہ آور کی
معاشرتی و نفسیاتی کیفیت جانے بغیر اصلاحی قدم اٹھانے کی کوشش کرنا حماقت
ہو گی ۔ اس مسٸلہ میں پنجاب کے وزیر داخلہ کی حکمت عملی سے حالات خراب ہو
سکتے ہیں۔ حل کیلیے فہم کی ضرورت ہے امتیازی قانون کی نہیں
یہ علم سیاست کا اہم ترین باب ہے جسے نہ پڑھنے والے قانون ساز اداروں میں
بیٹھے ہیں اور پڑھنے والے گوشہ نشین۔ معاشرہ کا ہر ”بڑا“ خبردار رہے کہ
نفرت بھرے جوتے کا وار معاشرتی انصاف قاٸم کیے بغیر روکنا ممکن نہیں
|