شہدائے کشمیر کی کرامات۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور مظفرآباد قبروں کے المیے؟؟؟

شہدائے کشمیر کی کرامات۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور مظفرآباد قبروں کے المیے؟؟؟

طاہر احمد فاروقی

مقبوضہ جموں وکشمیر کے عوام کی تحریک حریت کو کم وپیش 86سال یعنی پونی صدی کا عرصہ ہونے کو ہے 1932پتھر مسجد اور آواز حق بلند کرنے والے عبدالقدیر پٹھان کو جیل کے اندر پھانس دئیے جانے کے خلاف اذان کے کلمات مکمل کرتے ہوئے 22جان بازوں کی شہادتوں سے اب تک کا سفر گواہ ہے یہ تقسیم بر صغیر سے قبل شروع ہونے والی آزادی کی وہی تحریک ہے جسکا ثمر ہندوستان اور پاکستان کے معرض وجود میں آجانے سے ان خطوں کے عوام کو تو مل گیا مگر کشمیریوں کو اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کا حق نہیں مل سکا جسکے حصول کیلئے کشمیری آغاز سے ہر سال ماہ ہفتہ دن عزم استقامت قربانیوں کا ایک نیا باب رقم کرتے ہیں ، مقبول بٹ ، افضل گورو ، اشفاق وانی سے لیکر برہان وانی تک جانثاری کے باب رقم کرنے والوں کا سفر پوری آب وتاب سے جاری ہے جسکے ساتھ تائید خدا وندی اور کشمیریوں کے ایمان یقین استقامت قوت کے عظیم ترلمحات نظارے شہداء کے عظیم تر مقاصد کی آبیاری کی گواہی دیتے ہیں ایسا ہی ایک منظر چار سالہ بچے کا ہے جو اپنے سامنے اردگرد کھڑے بھارتی قابض فوج کے اسلحہ برداروں پر حملہ کرنا چاہتا ہے اس کا ایک ساتھی بچہ اسے روکے ہوئے ہے، مگر غم وغصہ کا اظہار کرتا یہ بچہ ببر شیر کی طرح غراتے ہوئے بتا رہا ہے جب تک حق خودارادیت نہیں مل جاتا کشمیر کا بچہ بچہ ہر آنے والی نسل قربان ہوتی رہے گی ، مگر شہیدان وطن کے مشن سے ایک قدم پیچے نہیں ہٹے گی جسکا اظہار ضلع اننت ناگ کے علاقے باکورہ کے تین نوجوانوں کی بھارتی فوج کے ہاتھوں شہادتوں کے بعد انکے جنازوں میں شریک لاکھوں لوگوں کے جذبات عقیدت مبتوں کے پھول نچھاور کرتے ہوئے ان سے لپٹ کر بوسے دینے اور جدوجہد کی کامیابی کے نعروں جوش ولولے ہیں تو اس نظارے کو معجزہ کہا جائے یا روحانیت کی معراج سے طلوع کرن پکارہ جائے شہید نے بالکل زندہ انسان کیطرح اپنے ساتھی کے ہاتھ کو مضبوطی سے پکڑا ہوا ہے جیسے کہ وہ سب کچھ دیکھ رہا ہے بہت خوش ہے اپنے ہاتھ کی گرم جوشی سے سب کو خراج تحسین پیش کررہا ہے جسکے چہرے کا نور اطمینان رحمت الہیٰ کا ایسا جلوہ ہے جو لفظوں میں بیان نہیں ہو سکتا مگر سبز ہلالی پرچموں میں لپٹے شہداء کے جسد خاکی اور معصوم بچہ کاببر شیر کی طرح جذبہ ثابت کرتا ہے ، انکی جدوجہد کو رضا الہیٰ سے کامیابی ضرور ملے گی ان ماؤں بہنوں ، بیٹیوں بزرگوں ، جوانوں ، بچوں کو عظیم تر حوصلہ شہداء کے لہو کی طاقت ہے جسے دنیا کی کوئی قوت شکست نہیں دے سکتی ، رب العزت انکے صدقے ہمیں بھی قول و فعل کے تضاد سے نجات فرماتے ہوئے انسانیت کا درد عطاء فرمائے کیسی بدنصیبی ہے 8اکتوبر2005 ؁ء کے زلزلہ سے پہلے ایک سینٹری ورکر (خاکروب ) کی معصوم بچی کو مظفرآباد قبر کی جگہ نہ ملنے پر پاکستان لے جا کر دفنا یا گیا معصوم بچے رب کی رحمت برکت پاکیزگی کی تجلی اور فرشتوں کی طرح معصوم ہوتے ہیں چاہے کسی مذہب ملک ، شہر معاشرے رنگ نسل زبان سے تعلق رکھتے ہوں مگر سب بچے ایک ہی فطرت اور پیغمبرانہ صفت معصومیت کا وجود ہوتے ہیں مگر اس معصوم پھول کو جس گاڑی میں لیجایا گیا اسکے والدین اور دیگر واپس آتے ہوئے مظفرآباد کوہالہ دریائے جہلم حادثہ کا شکار ہو کر رب کو پیارے ہو گئے یہ گاڑی کوڑے کی گاڑی تھی مگر پھر کیا ہوا زلزلہ کے بعد خود مسلمانوں کے جنازے کس طرح اُٹھے لوگ تھے ، نہ کاندھا دینے والے دو چار سے زیادہ تھے ، تدفین میں رکاوٹ ڈالنے والا نہ کوئی اعتراض کرنے والے تھے مگر اب پھر سینٹری ورکر کے خاندان کے ایک اور فرد کو شاہناڑہ تدفین کرنے سے روکے جانے اور جھگڑے کا المیہ پیش آیا ہے ، گو کہ انتظامیہ کی مداخلت سے دفنا دیا گیا مگر اس سے بڑا کوئی ظلم ہو سکتا ہے ، یہ طرز عمل سلوک تعصب انسان کہلوانے کا حق دیتا ہے اللہ رب العالمین ہے سب جہانوں کی مخلوقات ، انسانوں کو جو مانتا ہے نہیں مانتا ہے کوپالتاہے اسکے محبوب حضرت محمد مصطفی رحمت العامین ﷺ ہیں سارے جہانوں کی مخلوقات کیلئے رحمت ہیں اور ہمارے پاس سب سے بڑی سعادت انکے امتی ہونے کی ہے مگر ہم شاید قابض فوج سے بھی بدتر ذلت رسوائی کا شکار ہیں جو کم از کم تدفین سے تو نہیں روکتی ہے اب بھی دو فالٹ لائنیں زندہ ہیں جن کو مذہب فرقہ اونچ نیچ رنگ ونسل علاقہ کے نام پر تفرقات نفرتوں تعصبات ، ناانصافیوں سے نہیں انسانیت اور سبز ہلالی رنگ کی نسبتوں کے عملی اظہار سے مردہ کیا جا سکتا ہے یہ کام صرف حکومت، اداروں کا نہیں بلکہ خود بطور انسان اس دھرتی کے رہنے والوں کا فرض اولین ہے کم از کم قبروں پر تو اللہ کا خوف کرو پھر سرکاری مشینری سے جڑے ارباب اختیار کو خواب غفلت سے جگا دینا چاہیے ان کو بھی غور کرنا چاہیے یہ بھی بلآ خر قبروں میں جائینگے ۔ہر محلہ ہر جگہ قبرستانوں کیلئے سرکاری اراضی اور ایک دو مرکزی قبرستانوں کو فی الفور انتظامیہ کی تحویل میں یقینی بنایا جائے تو اس شہر کو ماحولیاتی طوفان اور گندگی بدبو ، غلاظت ، سے محفوظ کرنے کیلئے کچھ تو کرو ۔؟؟؟؟؟؟؟
 

Tahir Farooqi
About the Author: Tahir Farooqi Read More Articles by Tahir Farooqi: 206 Articles with 149011 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.