سینیٹ الیکشن ہوگیااور سینیٹ کا چیئرمین بھی منتخب ہوگیا۔
مسلم لیگ ن اسے جمہوریت کے لئے ایک سیاہ دھبہ قرار دے رہی ہے جبکہ
پیپلزپارٹی اور تحریک انصاف خوش ہیں کہ انہوں نے رل مل کے سینیٹ میں میاں
صاحب کی اکثریتی مسلم لیگ ن کو لمے پالیاہے ۔ مسلم لیگ ن اپنی صفوں میں
غداروں کو تلاش کررہی ہے جبکہ الیکشن کمیشن کہہ رہا ہے کہ چیئرمین سینٹ کے
انتخاب میں خریدو فروخت کی تحقیقات کے لئے خفیہ اداروں سے مدد لی جائے گی ۔
الیکشن کمیشن کے اس بیان پر فیس بک پر جو سب سے اچھا تجزیہ میری نظر سے
گزرا وہ ایک بھرپور قہقہہ ہے ۔
عام طور پر چیئرمین سینٹ کے انتخاب والے اجلاس میں روایت یہ ہے کہ مبارک
سلامت کا شور اٹھتا ہے ،جمہوریت کا بول بالا کیا جاتا ہے اور ایک دوسرے کے
ساتھ تعاون اور جمہوریت کو مستحکم کرنے کے وعدوں کے شور میں اجلاس ملتوی
کردیا جاتا ہے ۔ لیکن بلوچستان کے قوم پرست رہنما میر حاصل بزنجو نے نو
منتخب چیئرمین سینٹ کوان کی شدید خواہش کے باوجود مبارکباد دینے کی بجائے
ان کی جو عزت افزائی کی ہے اس کے بعد سچی بات ہے میرا دل بہت کھٹا ہو ا ہے
۔ یارِ من رمیض ظفر جب سیاستدانوں کو بے نقط سناتے ہیں تو میں ہمیشہ یہی
گزارش کرتا ہوں کہ صرف سیاستدان ہی نہیں اس معاشرے کا ہر طبقہ الا ماشااﷲ
دامے درمے قدمے سخنے ایک ایساکنواں کھود رہا ہے منطقی طور پر جو خود ان کی
منزل ہوگا۔ اس سے پہلے کہ مزید کوئی بات کی جائے خاکساراپنے قارئین کے ساتھ
میر حاصل بزنجو کی تقریرانہی کے الفاظ میں ہوبہو شیئر کرنا چاہتا ہے۔
فرماتے ہیں’’کوئی پیپلزپارٹی نہیں جیتا ہے ، آج شہید بینظیر نہیں جیتا
ہے،آج ذوالفقار علی بھٹو نہیں جیتا ہے ۔آج بالادست طبقے جیتے ہیں اور اس
بالادست طبقے نے آج اس ہاؤس کو پاکستان میں منڈی بنا کر ثابت کر دیا کہ یہ
میں اس کو منڈی بھی بنا سکتا ہوں جسے تم پارلیمنٹ بولتے ہو۔ اور آج مجھے
شرم آتی ہے یہاں بیٹھتے ہوئے‘‘
ایک آواز اٹھتی ہے ـ’’سر ایسے الزامات نہیں لگائیں ‘‘۔
حاصل بزنجو کہتے ہیں ’’آپ پلیزبیٹھ جائیں ۔پلیز۔ آپ بیٹھیں نہیں تو میں آپ
کے متعلق بولوں گا۔بیٹھیں یہ پارلیمنٹ آپ کا نہیں ہے،یہ پارلیمنٹ میرا بھی
ہے ‘‘
چیئر مین کی آوازیں جن کی کوئی پرواتک نہیں کرتا ۔۔تشریف رکھیں، تشریف
رکھیں ۔
بزنجو صاحب کہتے ہیں’’آج مجھے شرم آتا ہے یہاں بیٹھتے ہوئے ‘‘
مولا بخش چانڈیو آوازہ کستے ہیں’’آپ ریزائن کر دیں ‘‘۔
بزنجوصاحب:کر دیں گے جی ،کر دیں گے ۔آج پارلیمنٹ جیت جاتا،چانڈیو صاحب
پارلیمنٹ جیت جاتا،ذوالفقار علی بھٹو بھی جیتتا ، بینظیر بھی جیت جاتاجب
رضا ربانی کو آپ چیئرمین بناتے تب پارلیمنٹ جیتتا ۔
چیئرمین سنجرانی صاحب ٹوکتے ہیں، بزنجو صاحب آج صرف مبارکباد دیں ،تقریر کے
لئے بہت وقت ہے ۔ (واہ ، آپے ای میں رجی کجی آپے میرے بال جین)
بزنجو صاحب کہتے ہیں نہیں ’’ میں نے آج اپنی تقریر نہیں کی تو زندگی بھر
تقریر نہیں کروں گا‘‘۔
آپ لوگوں نے رضا ربانی کو کہا کہ وہ مسلم لیگ ن کا نمائندہ ہے ۔ وہ نیشنل
پارٹی کا نمائندہ بھی تھا ، وہ پختونخوا کا نمائندہ بھی تھا،وہ جماعت
اسلامی کا بھی نمائندہ تھا۔
سنجرانی صاحب کو پھر یاد آیا کہ انہی کے صوبے کے ایک سیاسی رہنما نے ان کو
چیئرمین سینیٹ بننے پر مبارکباد نہیں دی،فرماتے ہیں’’میر حاصل خان صاحب آج
آپ مبارک باد دیں، تقریر کل کر لیں ــ‘‘
حاصل بزنجو :کس چیز کی مبارکباد؟بتاؤ میں کس کو مبارکباد دوں اور کس چیز کی
مبارکباد دوں؟آج اس ہاؤس کا منہ کا لا ہوگیااس کی میں مبارکبادی کس کو دوں
۔
چیئرمین سینیٹ :یہ الفاظ حذف کر لیتے ہیں۔ میر حاصل صاحب آپ تشریف رکھیں ۔
بزنجو : نہیں جناب ، ایسا نہیں ہوتا۔ بدقسمتی یہ دیکھیں کہ پوری اس بلڈنگ
کو گرانے کے بعد نام کس کا لیا جارہا ہے ؟بلوچستان کا !کہ یہ ہم بلوچستان
کے لئے کر رہے ہیں۔ یہی بلوچستان اسمبلی کے لئے کیا کہ ساری بلوچستان
اسمبلی کو منڈی بنا دیا آپ نے ، اور آپ کہہ رہے ہوکہ بلوچستان کے لئے کر
رہے ہو۔ آپ نے خیبر پختونخوا کی اسمبلی کو منڈی بنا دیا اور آپ کہہ رہے
ہوکہ خیبر پختونخوا کے لئے کر رہا ہوں ۔ آج جب صوبائی اسمبلیوں کو منڈی
بنایا گیا اس کے نتیجے میں جو حال آپ نے اس اپر ہاؤس کی کی ہے ،جسے ہاؤس آف
فیڈریشن کہتے ہیں۔
ہر آدمی کو کہتے ہوبھئی ووٹ دو ،وہ کہتا ہے نہیں یہ (ہاتھ سے کندھے کی طرف
اشارہ کرتے ہوئے ۔وَٹ از دس؟آپ قسم کھا کرکہیں کہ آپ کو کتنے لوگوں نے کہا
کہ یہ ؟(ہاتھ سے کندھے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے)کیوں ؟وَٹ از دس؟جس کو کہو
ووٹ دو وہ کہتا ہے ’’ میر حاصل خدا کی قسم تم میرے بھائی ہو،تم سے اچھا
آدمی اس ہاؤ س میں کوئی نہیں ہے ،مگر مجبوری ہے ۔
ہم ان اداروں کو بھی بولتے ہیں ، خداراہاتھ باندھ کے،پولیٹیکل پارٹیز کو
بھی خدارا ہاتھ باندھ کے اس ملک کو اس کے ڈگر پے، جمہوریت پے چلنے
دیں۔فیڈریشن کو جو حال بنایا جارہا ہے جو بننے جا رہا ہے، میں سمجھتا ہوں
کہ وہ ہماری تاریخ کے بدترین دن ہوں گے ۔
الفاظ سے واضح ہے کہ بزنجو صاحب کا دل جلا ہے اور انہیں اچھی خاصی مایوسی
ہوئی ہے ۔ بات بھی مایوسی کی ہے کہ اکثریت تو ن لیگ کی اور اس کی حمایتی
جماعتوں کی تھی لیکن چیئرمین سینیٹ کی خلعت فاخرہ ایک ’’آزاد پنچھی ‘‘ کو
پہنا دی گئی اور ڈپٹی چیئرمین کی نشست پر پیپلزپارٹی لے اڑی۔ تحریک انصاف
’’ شریکاں دی قند‘‘ اپنے اوپر گرا کر خوشی سے نہال ہے تو اس کی مرضی ۔
رحیم یارخان سے سینئر صحافی عاصم صدیق نے یاد دلایا ہے کہ محترمہ مریم نواز
کے سمدھی کے آبائی اور پنجاب کے آخری ضلعے میں مقامی حکومتوں کے انتخاب میں
پیپلزپارٹی نے واضح اکثریت حاصل کی تھی لیکن سترہ پنچھی آزاد ہوئے اور رحیم
یار خان کی حکومت ن لیگ کو پیاری ہوئی ۔ عاصم صدیق اسے مکافات عمل کہتے ہیں
لیکن مجھے پنجابی کا محاورہ ’’انگریزی دا THE تے پنجابی دا ’’دا‘‘ ، جتھے
لگے اوتھے ای لا‘‘ یاد آرہا ہے ۔ بہرحال بات انتخابی مقابلوں اور جلسے
جلوسوں سے بڑھ کر ’’ سیاہ کاری ‘‘ اور جوتا کاری تک پہنچ گئی ہے لیکن تادم
تحریر کسی بھی سیاسی رہنما نے اپنے کارکنوں کو بھرپور الفاظ میں ایسے کسی
بھی عمل سے دور رہنے کی تنبیہ نہیں کی اور اگر کی ہے تو خاکسار کی نظر سے
نہیں گزری ۔
کہتے ہیں شریف آدمی کی تو اس کے گھر والی نہیں مانتی تو ہماری کون مانے گا
؟ لیکن بتائے دیتے ہیں تاکہ سند رہے اور بوقت ضرورت کام آئے کہ سماجیات اور
سیاسیاست کے جتنے بھی باوا آدم گزرے ہیں ان سب کا ایک بات پر اتفاق ہے کہ
سیاست ’’مکالمے اور برداشت‘‘ کے سوا کچھ نہیں ۔ پھر ہم کہتے ہیں پارلیمنٹ
بالادست ہے ۔ ڈنگیاں لتاں تے پُلس مقابلے ۔ |