نوجوانوں کا قتل قومی سطح کا ناقابل تلافی نقصان
ہوتا ہے۔ بسااوقات اسے ایک خاندان کی نسل ہی مٹ جاتی ہے یا سمٹ کر چند
بوڑھے نفوس پر مشتمل ایک مفلوج خاندان کی شکل اختیار کرلیتا ہے اور چند برس
بعد اس کا سلسلہ ہی رُک جاتا ہے ۔گذشتہ سات دہایؤں کی نسل کشی کے نتیجے میں
ریاست کا اکثریتی تناسب بھی ’’خوفناک ‘‘حد تک گھٹ چکا ہے ۔سن سنتالیس میں
صوبہ جموں کے اکثریتی فرقے کے چار لاکھ افراد کوقتل کرنے کے بعد صوبہ کی
صورتحال ہمارے سامنے ہے کہ آبادی گھٹنے کے نتیجے میں نہ صرف یہ کہ وہاں کے
مسلمان کمزور ہوگئے بلکہ ان کا مورال بھی کا فی حد تک گھٹ گیا اور ساتھ ہی
ساتھ وہ ’’ڈوگراہ نظام ‘‘کے خاتمے کے باوجود نفسیاتی طور پر ایک بے بس قوم
کی طرح ڈوگروں کے پنجے میں پھنس گئے نتیجہ آج سب کے سامنے ہے کہ پورے صوبہ
کی سیاست پر ڈوگرانہ مزاج مسلط ہو چکا ہے یا کیا جا چکا ہے ۔اس صورتحال کے
نتیجے میں جہاں ایک طرف ہم پریشان ہیں وہیں دوسری طرف اس حوالے سے ہماری بے
بسی بھی عیاں ہے ۔جہاں بھارت قوم کی بے بسی سے فائدہ اُٹھاکر ہر بات کو ان
سنی کردیتاہے وہی اقوام عالم بالعموم اور اُمت مسلمہ بالخصوص اس مسئلہ کے
حوالے سے مجرمانہ خاموشی اور غفلت کی شکار رہی ہے ۔اقوام عالم بھارت کی
تجارتی منڈی کے عشق میں کشمیر جیسی چھوٹی سی’’بستی‘‘کو نظرانداز کرکے آگے
بڑھنے کی رودار نظر آتی ہے ۔ان کے ہاں انسانی پیمانہ کب کا ٹوٹ چکا ہے ۔ان
کے ہاں نام نہاد انسانی ادارے ہر مسئلے کو ایک خاص زاویۂ نگاہ سے ہی دیکھتے
ہیں ۔زبانی جمع خرچ سے آگے ان کے پاس کچھ بھی نہیں ہے ۔ان کی ایٹمی قوت اور
’’ناقابل شکست‘‘افواج وہاں حرکت میں آتی ہیں جہاں ’’ورلڈآرڈر‘‘اور ’’دجالی
گلوبلائزیشن‘‘کے ظاہری دلفریب حسن پر آنچ آنے کی کوئی بھنک انھیں لگ جائے
۔ان کے نزدیک فلسطین ،کشمیر،افغانستان ،عراق،صومالیہ ، چیچنیا اور’’مشرقی
تیمور‘‘کے خون میں بڑا فرق ہے لہذا ان سے کسی ہمدردی اور مدد کی امید رکھنا
ہی کار عبث ہے ۔
ایک اور اہم قوت جس سے اُمت مسلمہ کے بجائے اُمت مرحومہ کہنا زیادہ مناسب
ہوگا کی طرف بھی بسااوقات کشمیر کے ستم رسیدہ لوگوں کی نگاہیں اُٹھتی ہیں
اس کی عالمی حیثیت ،قوت اور وسائل سے انکار کی گنجائش نہیں مگر اس کی
اجتماعی اور عالمی رول ادا کرنے کی خواہش 1923ء میں ہی مر چکی ہے جب سلطان
عبدالحمید کو معزول اور معذور کر کے ’’ترک نادان نے خلافت کی قبا ہی چاک کر
ڈالی‘‘۔اُمت عالمی کردار کی کرسی سے خود ہی نیچے اُتر آئی ہے اور اپنی
نااہلی کا سارا ملبہ اس نے غیر اقوام کی ناقابل انکار سازشوں پر گرا کر
اپنی بے گناہی اور مظلومیت کا رونا روتے ایک صدی گذار لی ہے۔مسجد اقصیٰ کا
خنجر اس کے سینے میں رستا ہوا ناسور ہے ،سات دہائیاں گذر جانے کے باوجود یہ
اس مسئلے کے حوالے سے کوئی قابل تعریف رول ادا نہ کر سکی اور نہ ہی کوئی
بڑے سے بڑا حادثہ اسے اپنی ذمہ داریاں نبھانے یا انجام دینے کے لئے آمادہ
کرتی ہیں ۔اہلیانِ غوط ، غزہ اور یمن کی لاشیں بھوک سے تڑپنا اسے نہیں تڑپا
دیتا ہے لہذا وہ ہم جیسے عجمیوں کے لئے کیوں تڑپ اُٹھے گی ؟ایک پاکستان ہی
کو لیجئے اسے بھی بین الاقوامی اور داخلی امور نے اسقدر پریشان کردیا ہے کہ
اسکا اپنا وجود داؤ پر لگا ہوا ہے ۔کشمیریوں کے اس تھکے ماندہ وکیل کی
پوزیشن اتنی بگڑی ہوئی ہے یا بگاڑی گئی ہے کہ وہ دوسرے مسائل پر سوچنے سے
ہی قاصر ہے سوائے سفارتی فارملٹیز کے!!!ایسے میں لے دے کے بات اسی کشمیر کی
وادی میں واپس لوٹ آتی ہے ۔ ہمیں مل بیٹھ کر یہیں پر اس سچویشن کو حل کرنے
کی جانب توجہ دینی چاہئے ۔جو مسئلہ یہاں حل کرنا ممکن نہ ہو گا اسے باہر کی
دنیا سے حل کرانے کی امید رکھنا احمقوں کی جنت میں رہنے کے مترادف ہوگا
لہذا قیادت،صحافت ،دانشوریت اور زندگی کے تمام مکاتب فکر کو مل بیٹھ کر
کثیر مدتی مقاصد کے تحت ایک مؤثر پروگرام کے ذریعے یہاں پر ہورہے قتل عام
کو روکنے کی کوشش کرنی چاہئے ۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق چند روز قبل ضلع ہیڈکوارٹر شوپیان سے چھ کلومیٹر
دورپہنو گاؤں میں 4مارچ 2018ء بروزاتوارشام کے ساڑھے سات بجے فوج کی چیکنگ
کے دوران ایک سانحہ پیش آیاجس میں چھ کشمیری نوجوان جاں بحق ہو گئے ۔ عین
شاہدین نے میڈیا کوبتایا کہ فوج کو غالباً اس بات کی اطلاع ملی تھی کہ گاڑی
میں عسکریت پسند نوجوان سوار ہوکر ترینج کی طرف جارہے ہیں ۔ فوج نے پہلے ہی
پہنو میں گورنمنٹ ہائی سکول کے بالمقابل واٹر ٹینکی کے نزدیک گھات لگارکھا
تھااور وہ گاڑیوں کی چیکنگ کررہے تھے کہ اسی دوران ایک گاڑی وہاں پہنچی ۔
فوجی اہلکار وں نے آواز دیکر دور سے ہی گاڑی روکنے کیلئے کہا اور گاڑی میں
سوار افراد، جن کی تعداد تین تھی، کو نیچے آنے کیلئے کہا۔گاڑی کی اگلی سیٹ
پر بیٹھا ایک نوجوان نیچے آیا اور فوجی اہلکاروں نے اسے پھرن اوپر اٹھانے
کیلئے کہا۔لیکن مذکورہ نوجوان نے ایسا نہیں کیا۔تین بار فوج نے اسے پھرن
اٹھانے کیلئے دور سے ہی آواز دی لیکن اس نے ایسا نہیں کیا بلکہ تیسری بار
نعرہ تکبیر کہہ کر پھرن کے نیچے بندوق کا منہ فوجیوں کی طرف کیا اور اس طرح
فائرنگ شروع ہوئی۔مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ فائرنگ کے دوران ہی دوسرے
عسکریت پسند نوجوان نے بھی ، جو گاڑی میں ہی بیٹھا ہوا تھا فائرنگ شروع کی
لیکن جس گاڑی میں وہ بیٹھا تھا اسکے ڈرائیور نے گاڑی وہاں سے دوڑائی اوروہ
بھاگ نکلنے میں کامیاب ہو گیا۔ لیکن اس میں سوار عسکری نوجوان زخمی ہوا،
جسکی لاش بعد میں سعد پورہ شوپیان میں پائی گئی۔مقامی لوگوں کا مزید کہنا
ہے کہ زخمی نوجوان کا علاج و معالجہ بھی کرایا جاچکا تھا کیونکہ اسکے زخم
والے جسم کے حصے میں ٹانکے لگے تھے۔بعد میں اسکی شناخت عاشق حْسین بٹ ولد
محمد اسحاق بٹ ساکن رکہ پورہ کاپرن کے بطور کی گئی۔جبکہ ایک عسکریت پسندجو
گاڑی سے باہر آیا تھا وہ موقعہ پر ہی جاں بحق ہوا۔ جسکی شناخت عامر احمد
ملک ولد بشیر احمد ملک ساکن حرمین شوپیان کے بطور ہوئی۔مقامی لوگوں کا کہنا
ہے کہ جس وقت فائرنگ کا تبادلہ ہوا عین اسی وقت وہاں سے ایک سوئفٹ گاڑی
گذررہی تھی جس پر فوجی اہلکاروں نے اندھا دھند فائرنگ کی جس میں سوار تین
نوجوان مارے گئے جن کی شناخت سہیل خلیل وگے ولد محمد خلیل وگے ساکن
پنجورہ،نواز احمد وگے ولد علی محمد وگے ساکن لگن ڈورہ ترینج اورشاہد احمد
خان ولد بشیر احمد خان ساکن ملک گْنڈ شوپیان کے بطور کی گئی تھی۔لوگوں نے
مزید بتایا کہ دوسری طرف سے ایک اورویگنار گاڑی آرہی تھی، جو جائے وقوع سے
قریب ڈھائی سوفٹ دور تھی، اور ڈرائیور نے گاڑی کو واپس موڑنے کی کوشش کی
اور اس پر بھی فائرنگ کی گئی اور وہ گاڑی کے اندر ہی مارا گیا، جس کی لاش
صبح کے وقت چند گوجر مزدوروں نے دیکھی اور گاؤں والوں کو اس کی اطلاع دی جس
کے بعد لاش کو گاڑی سے باہر لایا گیا۔ بعد میں اسکی شناخت گوہر احمد لون
ولد عبدالرشید لون ساکن مولو چتراگام کے بطور ہوئی۔
اس سانحہ میں دو ’’مجاہدین‘‘جبکہ چار سوئلین شہید ہو گئے ۔اس طرح اور چھ
نوجوان اس چھوٹی سی قوم کے قتل کئے جا چکے ہیں ۔قوم کے رگ و پے میں قوموں
کی بے بسی کے اسباب بہت سارے ہوتے ہیں مگر ہمارا سب سے بڑا سبب یہ ہے کہ ہم
ابھی تک نا ہی ایک قوم ہے نا ہی اُمت !ہم بکھرے ہوئے وہ پروانے ہیں جنہیں
اس چراغ کا بھی پتہ نہیں ہے جس کے گرد ایک پروانہ زندگی کی بہاریں نچھاور
کرتا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ ہم ان جانوروں کی طرح مارے جا رہے ہیں جنہیں دوسروں
کے کھونے کا غم چند لمحات تک تو ضرور ہوتا ہے مگراس کے بعد وہ کھانے پینے
میں مصروف ہو کراپنوں کے کھونے کا غم تک بھول جاتے ہیں ۔گذشتہ تقریباََ
ڈھائی سو سال سے کشمیریوں پر ہر پچاس یا سو سال کے بعد کوئی نہ کوئی آکر
حکومت کرتا ہے ۔ مزے لوٹنے کے بعد وہ چلا جاتا ہے مگر دوسرا آکر پھر ’’باپ
داداؤں کی جاگیر ‘‘پرآکر اگلوں سے زیادہ وحشت ناک مظالم ڈھا تا ہے اور ہم
اس امید میں جینے کا پھر حوصلہ کرتے ہیں کہ آج نہیں تو کل ہمیں ان مظالم سے
نجات تو مل ہی جائے گی ۔مگر ہر بار یہ تاریک رات مزید سیاہ ہوگئی اور ہم
پھر ایک نئی مصیبت میں پھنس گئے ۔ہماری اجتماعی سوچ ’’قتلِ عام‘‘روکنے پر
متفق ہونی چاہیے تھی مگر المیہ یہ ہے کہ دلی میں براجمان چند ٹی وی اینکرس
کی طرح ہم خود بھی اس ’’ماراماری‘‘کی تاویل کر کے آپ اپنے ضمیر کو مطمئن کر
کے بدترین دھوکے میں رہنا چاہتے ہیں اور جب ایک قوم کو یہ بیماری لگ جائے
تو اس کی مال و جان کے تحفظ کی ذمہ داری کوئی دوسرا کیوں اٹھائے ؟
جموں و کشمیر میں عسکریت کے بہانے 1990ء سے جاری قتل عام میں ہم اب تک ایک
لاکھ سے بھی زیادہ تعداد میں مارے جانے کے باوجود اس کے روکنے پر متفق نظر
نہیں آتے ہیں ! اس میں اہم رول تو بھارت نواز مین اسٹریم کا تو بنتا تھا
مگر وہ زبانی جمع خرچ کے سوا اگر کچھ کر بھی پاتے ہیں تو بس اتنا کہ کسی
طرح زیادہ سے زیادہ مراعات اور جائدادیں حاصل کر کے سات نسلوں تک عیاشیوں
کا سامان مہیا رکھے جائیں اور بس۔نہیں تو قوم پرستی کے لباس میں ملبوس یہ
حضرات کیوں اس نازک مسئلے پر اتنے غیر سنجیدہ ہیں ؟ یہاں روز جنازے اٹھتے
ہیں اور روز ماؤں کی گود اُجڑتی ہے یہ جنازے انہی علاقوں سے اٹھتے ہیں،
جہاں سے مین اسٹریم کے لوگ اسمبلیوں میں نمائندگی کا دعوی لیکر پہنچتے ہیں
،مگر المیہ یہ کہ سب کچھ سننے اور دیکھنے کے باوجود یہ لوگ اطمینان کی نیند
کیسے سوتے ہیں ایک ناقابل یقین تصور ہے ۔یہ جس طرح سارا ملبہ دلی پر گرا کر
اپنا دامن بچا لینے کی ناکام کوشش کرتے آئے ہیں اُ س میں ایک وقت تک انہیں
فائدہ تو مل رہا تھا مگر اب صورتحال بالکل بدلتی جا رہی ہے ۔اس نئی صورت
حال میں قوم کے ساتھ یہ صرف تب کھڑے نظر آتے ہیں جب اقتدار کی دیوی انہیں
اپوزیشن کی کرسیوں پر بٹھاتی ہے نہیں تو انہیں اس بات کا ذرا برابر غم نہیں
ہوتاہے کہ قوم مرے یا جئے اور بھارتی غلبے کے ستر برس میں آپ کو اسے کچھ
بھی مختلف نظر نہیں آئے گا ۔عسکریت پسند نوجوانوں کا مارا جانا یہاں سرے سے
اب کوئی اشو ہی نہیں رہا ہے گویا کہ یہ سب بالکل جائز اور مناسب ہے اور وہ
اسی کے سزاوار ہیں ۔چندروزہ زبانی کلامی ہنگامہ اگر ہوتا بھی ہے تو بس اس
بات پر کہ کوئی غیر عسکر ی مرد یا عورت جاں بحق ہو جائے ۔وہ بھی اس حد تک
کہ ہلاکت کے بعدمذمت،انکوائری ،خاموشی،فراموشی اورامن کی واپسی کی جھوٹی
امید اور بات ختم ۔
جہاں عوام الناس کے لئے’’ثابت شدہ کمزور ترین ریاست ‘‘کا حال یہ ہو کہ وہ
اُن خفیہ ہاتھوں کو بے نقاب کرنے سے ہچکچاہٹ میں مبتلا ہوتی ہو جن کو بے
نقاب کرنے سے ریاست کے برعکس غلط کار افراد بے نقاب ہوجائیں وہاں کُنن پوشہ
پورہ جیسے ناقابل فراموش جرم کو بے نقاب کرنے کی ہمت حکومت کیسے کر سکتی ہے
؟سینکڑوں ایف،آئی،آرز پر تشکیل شدہ کمیشنز کی فائلیں اب کہاں ہیں اور کن
الماریوں میں دھول چاٹ رہی ہیں کسی کو کوئی خبر نہیں ہے ! اس بے اعتباریت
کی پورے طور پر ذمہ دار یہاں کی مفلوج انتظامیہ ہے جو خوف میں مبتلا رہ کر
کچھ کرنے سے اپنے آپ کو معذور محسوس کرتی ہے ۔اور وہ بڑے سے بڑے حادثے پر
بھی ایک عدد بیان دینے کے بعد اپنے آ پ کو بری الذمہ سمجھتی ہے ۔سوال پیدا
ہوتا ہے کہ حکومت اور مین اسٹریم اپوزیشن کو حریت کانفرنس کی صف میں کھڑا
ہو کر ان سانحات کی مذمت کرنے کے بعد نئے حادثے کے انتظار کرنے کاکیا حق ہے
جبکہ وہ اسی ریاست کے کل پرزے ہیں جو ’’افسپا کی بے رحم تلوار‘‘کو آپ ہی کی
سفارشات پر اس قوم پر سونت چکی ہے ۔عملی طور پر کچھ کرنے کے بجائے یہ حضرات
دن رات صرف بیانات ہی کو اتنے بڑے انسانی المیوں کے لئے کافی سمجھتے ہیں
۔ریاست جموں و کشمیر میں مسلم آبادی 1947ء سے برابر نشانے پر ہے پہلے اس کے
لاکھوں فرزندوں کو سن سنتالیس میں قتل کیا گیا اورپھر پاکستان اور بھارت کے
بیچ جنگوں اور ہزاروں سرحدی جھڑپوں میں بے دریغ اور بے حساب مارا گیا
اور1990ء سے گویا اس کو مارنے کا لائسنس فراہم کیا گیا ہو ۔بین الاقوامی
برادری اپنے تجارتی مفادات کو لیکر خاموش ہے اور مسلم دنیا اپنے مسائل میں
اس حد تک پھنس چکی ہے یا پھنسائی گئی ہے کہ اس کو باہر کا ہوش بھی نہیں ہے
۔خود بھارت کے اندر اس کے خلاف آواز اس لئے بلند نہیں ہوتی ہے کہ بھارتی
میڈیا نے پورے ملک کی آبادی کا ذہن کشمیری مسلمانوں کے خلاف زہر آلودہ بنا
دیا ہے جس کا نتیجہ یہ ہے کہ اب عرصہ سے کشمیریوں کے خاموش قتل عام کے
برعکس کھلے عام قتل عام کی آوازیں بلند ہورہی ہیں اور فوج کو کھلی چھوٹ کے
بجائے اب مکمل چھوٹ دینے کا مطالبہ بھی سامنے آتا ہے لہذا اندرون ملک بھی
صورتحال کشمیری کے خلاف پہلے سے بھی زیادہ خراب ہوتی ہوئی نظر آتی ہے ،ایسے
میں لے دے کے خود کشمیری ہی رہ جاتے ہیں جن کی لیڈر شپ کو اس انسانی المیہ
کو روکنے پر فوری توجہ دینی چاہیے اس لئے کہ کشمیری قوم ایک چھوٹی سی قوم
ہے جن کے ایک لاکھ انسانوں کا صرف تیس برس کے عرصے میں قتل ہو جانا کمر
توڑنے دینے والی صورتحال ہے ۔ اس المیہ کے خطرناک اثرات ہمیں مستقبل قریب
میں متاثر کر سکتے ہیں پھر جب مطالبہ حق خود ارادیت کو ہو تو معاملات کو
سرسری طور پر لینے کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہ جاتی ہے ۔ |