ڈاکوؤں کے دیس سے بہترین فلاحی مملکت تک

 اسکینڈے نیویا شمالی یورپ کا حسین ترین خطہ ہے جو سویڈن، ڈنمارک اور ناروے پر مشتمل ہے۔ ان تینوں ممالک میں انسانی فلاح و بہبود کے حوالے سے دنیا کا بہترین نظام رائج ہے۔ یہاں کے شہریوں کو سماجی بہبود، تعلیم، صحت اور دوسری ضروریات زندگی کے حوالے سے جو سہولتیں میسر ہیں اس پر دنیا کے دیگر ممالک میں رہنے والے لوگ رشک کرتے ہیں۔لیکن اس خطہ کی تاریخ کا ایک دور وہ بھی تھا جب یہاں بحری قزاقوں کی حکمرانی تھی جنہیں دنیا وائی کنگز کے نام سے جانتی ہے۔ وہ لوگ بہت جنگجو، لوٹ مار کے ماہر اور مہم جو تھے۔ ان کا دور 800 سن عیسوی سے 1100 سن عیسوی تک تھا۔ سمندوروں کے پانیوں پر ان کی بڑی اور لمبی کشتیاں راج کرتی تھیں۔ وہ ستاروں اور پرندوں کی پروازوں سے راہ نمائی لیتے ہوئے محو سفر رہتے تھے۔ انہوں نے اس دور میں مشرقی، وسطی اور مغربی یورپ میں اودھم مچائے رکھا۔ مشرقی افریقہ اور مشرق وسطی میں بھی وہ اپنی کاروائیاں کرتے تھے۔ ان کے سفر ہوتے تو تجارت کی غرض سے تھے لیکن اصل کام لوٹ مار کرنا ہوتا تھا۔ برطانیہ جس نے دنیا پر حکومت کی لیکن وائی کنگز کے سامنے وہ بھی بے بس تھا اور ان کی لوٹ مار اور قتل و غارت کا نشانہ بنتا رہا ۔ اس دور میں وائی کنگز نے انگلینڈ، اسکاٹ لینڈ، آئرلینڈ،جرمنی، فرانس، اسپین، اٹلی اور خطہ کے دیگر ممالک میں یورش جاری رکھی۔ گیارھویں صدی عیسوی کے قریب انہوں نے مسیحیت قبول کی۔بعد ازاں اس خطہ میں بہت سی دیگر تبدیلیاں آنے سے ان کا اثر اسکینڈے نیویا تک باقی رہ گیا اور پھر انہوں نے اپنی سرگرمیاں تجارت تک محدود کردیں۔

پندرھویں صدی کے بعد یورپی اقوام کی نظریں ہندوستان کی طرف اٹھیں جسے اس وقت وہ سونے کی چڑیا کہتے تھے۔انہوں نے ہندوستان کے ساتھ تجارتی تعلقات استوار کرنے کی کوششیں شروع کردیں حالانکہ پس پردہ مقصد ہندوستان کے وسائل پر قبضہ کرنا تھا۔ سویڈن نے بھی دیگر یورپی اقوام کی پیروی میں ہندوستان کے ساتھ تجارتی مراسم بڑھانے کی کوشش کی۔ برٹش ایسٹ انڈیا کمپنی اور ڈچ ایسٹ انڈیا کمپنی کی دیکھا دیکھی سویڈن نے بھی 1731 ء میں اپنے دوسرے بڑے شہر گوتھن برگ میں سویڈش ایسٹ انڈیا کمپنی کی بنیاد رکھی۔ اس دور میں چین اور ہندوستان کی تجارتی اشیاء سویڈن کی منڈیوں میں آنے لگیں۔ ہندوستان میں انگریزوں کے سامنے فرانسیسی، ولندیزی، پرتگالی اور دیگر اقوام نہ ٹھہر سکیں، وہاں سویڈش کیسے کامیاب ہوتے اور بالآخر 1814 میں سویڈش ایسٹ انڈیا کمپنی اپنے اختتام کو پہنچی۔

سویڈش عوام نے یہ جان لیا کہ اگر اپنے ہاں ترقی اور خوشحالی لانا ہے تو انہیں اپنی روش کو ترک کرنا ہوگا ۔ انہوں نے اپنے حالات کا جائزہ لیتے ہوئے غربت اور جہالت کو اپنا سب سے بڑا دشمن قرار دیا اور ان کے خلاف جنگ شروع کردی۔ وہ قوم جس کی تاریخ مہم جوئی سے بھری پڑی تھی، پھر یہ حالت ہوئی کی اس نے تین سو سال تک کسی جنگ میں حصہ نہ لیا۔ جنگ عظیم اول اور دوم جس نے یورپی ممالک کو تباہ کرکے رکھ دیا لیکن سویڈن نے غیر جانبدار انہ پالیسی اختیار کرتے ہوئے اپنے لوگوں کو جنگ کے ہولناک نتائج سے بچائے رکھا۔ اس قوم نے جمہوریت، انسانی حقوق، غیر جانبداری اور آزادی رائے کے اصول اپنائے۔انہوں نے مطلق العنا ن باشاہت کو ٓئینی کردار تک محدود کردیا اور کلیسا کی حکومت میں مداخلت کو ختم کردیا۔ آج وہی خطہ دنیا کی بہترین فلاحی مملکت ہے۔ ایک کروڑ سے کم آبادی کا ملک انسانی ترقی میں صف اول میں کھڑا ہے۔ آج کا سویڈن دنیا کا ترقی یافتہ اور جدید ترین ملک ہے جس کے عوام کو بلند ترین معیار زندگی میسر ہے۔ یہاں تک پہنچنے میں انہوں نے ایک طویل سفر اور جدوجہد کی ہے جس کے ثمرات ان کی موجودہ نسلیں اٹھا رہی ہیں۔ تعلیم، صحت وصفائی، مقامی ٹرانسپورٹ، معذوروں اوربچوں کے لیے سہولتیں،ر عمر رسید افراد کی دیکھ بھال اور دیگر بنیادی ضروریات زندگی کی تمام سہولتیں یہاں کے عوام کو حاصل ہیں۔یہ سب حاصل کرنے کے لیے یہاں نے عوام نے بہت محنت کی ہے اور اب بھی یہ دنیا میں سب سے زیادہ ٹیکس دیتے ہیں۔ ان کے ٹیکس کو حکومت امانت سمجھ کر استعمال کرتی ہے اور اس میں خرد برد کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اگر کبھی عوام کے پیسے کا غلط استعال سامنے آجائے تو پھر کڑا احتساب ہوتا ہے چاہے وہ کسی بڑے سے بڑے عہدے پر ہی کیوں نہ فائیز ہو۔ ٹیکس چوری کرنا سب سے بڑا جرم تصور ہوتا ہے جس کی کوئی معافی نہیں۔کوئی اپنی آمدن اور اثاثے چھپا نہیں سکتا اور ذرائع آمدن ظاہر کرنا بھی اسی کی ذمہ داری ہے۔ جھوٹ بولنے اوربد دیانتی کرنے والے کے لئے میدان سیاست میں کوئی جگہ نہیں یعنی صرف’’ صادق و امین ‘‘ ہی عوامی نمائدے بننے کے اہل ہیں۔عوام جمہوریت کی روح کو سمجھ کر اپنے اہل نمائدوں کا انتخاب کرتے ہیں۔وہ اپنا ووٹ سوچ سمجھ کر ان جماعتوں اور امیدواروں کو دیتے ہیں جو اس کے مستحق ہوتے ہیں۔ یہاں سیاسی جماعتوں میں بھی جمہوریت ہے اور خاندانی اور مورثی سیاست کا کوئی تصور نہیں۔مساوات، احترام آدمیت اور انسانی اقدار عملی صورت میں نظر آتی ہیں اور سرکاری دفاتر میں افسر اپنے ماتحت ملازموں کو اپنے جیسا انسان سمجھتا ہے اور کوئی بھی کسی دوسرے کی عزت نفس کو مجروح نہیں کرسکتا۔ اگر اسکینڈے نیویا کے ممالک ترقی اور خوشحالی کی معراج پر پہنچ سکتے ہیں تو دنیا کے دیگر ممالک بھی اسے حاصل کرسکتے ہیں بشرطیکہ وہ اس کے لیے عزم مصمم کے ساتھ جدوجہد کریں۔ انسانیت کی راہنمائی کے لئے آنی والی آخری وحی میں یہی اصول بتایا گیا ہے کہ جب تک کوئی قوم اپنی نفسیات اور قلب و ذہن میں تبدیلی نہیں لاتی، اس وقت تک اس کی حالت نہیں بدلتی۔
 

Arif Kisana
About the Author: Arif Kisana Read More Articles by Arif Kisana: 276 Articles with 264387 views Blogger Express Group and Dawn Group of newspapers Pakistan
Columnist and writer
Organiser of Stockholm Study Circle www.ssc.n.nu
Member Foreign Pr
.. View More