مستقبل کی جھلک!

 ہم لوگوں نے ابھی گاڑی میں بیٹھ کر دروازے بند بھی نہ کئے تھے کہ ہمارے دوست کے موبائل کی گھنٹی بجی، انہوں نے بیٹھتے ہی فون آن کر لیا۔ چند ساعتیں بھی نہ گزری تھیں کہ ان کے ہونٹ خشک ہونے لگے ، ہاتھوں میں ہونے والی کپکپاہٹ سے ان کا غصہ عیاں تھا، ان کی زبان سے نکلنے والے الفاظ ایک دوسرے کا ساتھ نہ دے رہے تھے، گویا آپس میں الجھے پڑ رہے تھے۔ ان کی آواز بلند سے بلند تر ہوتی گئی، دلائل تھے کہ دونوں طرف سے دیئے جارہے تھے، دلائل کی زور آزمائی کے ساتھ ساتھ بلند آہنگی سے بھی مدد حاصل کی جارہی تھی۔ اگرچہ ہمارے دوست نے بہت ٹالنے کی کوشش کی اور معاملہ کو اگلی صبح پر ڈالتے رہے، مگر فریق ثانی کا اصرار یہی تھی کہ’’ آپ ہیں کہاں؟ ‘‘ بات کسی انجام کو پہنچ ہی رہی تھی کہ فریق ثانی نے موبائل فریق ثالث،( ثالث سے یہاں مراد تیسرا فرد نہیں، تیسرا فریق ہے) کو پکڑا دیا۔ وہ موصوف بھی پہلے والے کی طرح ہی گرم تھے، اِدھر گرمی کو برداشت کرنے کی کہانی تھی اور اُدھر گرمی کو ہوا دینے کی۔ خدا خدا کرکے معاملہ اگلی صبح تک ملتوی ہوا۔ ہمارے دوست کا ایک درمیانے درجے کا سکول ہے، اور یہ مواصلاتی گفتگو چھٹی کے فوراً بعد پیش آئی تھی۔

اصل ماجرا یہ ہوا کہ فریق ثانی کا کہنا تھا کہ میرے بچے کو سکول میں دوسرے بچے نے نہ صرف مارا ہے، بلکہ یہ دھمکی بھی دی ہے کہ میں کل چھری تمہارے پیٹ میں ماروں گا،ہمارے دوست کا کہنا تھا کہ بچوں کی لڑائی ہے، کل سکول کھلے گا تو میں جائزہ لے لوں گا، ایسا نہیں ہونا چاہیے، مگر والد صاحب یہ ماننے کے لئے تیار نہ تھے، ’’ــــ․․․․یہ بچوں کی لڑائی ہے؟ آپ اتنی بڑی دھمکی کو بچوں کی لڑائی قرار دے رہے ہیں، میرے بیٹے کی زندگی کا مسئلہ ہے․․‘‘۔ بھئی اگلے روز ہم اور بچے سکول آئیں گے تو کچھ ہو سکے گا؟ مگر یہ دلیل لاحاصل تھی۔ فریق ثالث بھی کوئی شکایت لے کر ہی سکول کے دروازے پر آئے تھے، ’’․․․میری بچی کو کسی ٹیچر نے تھپڑ مارا ہے، ٹیچر کی جرات کیسے ہوئی تھپڑ مارنے کی؟ (یہ جرات والا جملہ موصوف نے کوئی سات مرتبہ دہرایا)، مِس کے اپنے بچے نہیں ہوں گے؟ آپ ہیں کہاں؟‘‘۔ فون پر ہونے والی بات چیت مجھے سناتے ہوئے ہمارا دوست ذہنی صدمے سے دوچار تھا، وجہ یہ نہیں تھی کہ اس کے پاس جواب نہیں تھا، وجہ یہ تھی کہ وہ اس بات پر پریشان تھا کہ بحیثیت استاد ہماری کیا قدر ہے؟ اگر سکول میں کوئی چھوٹا موٹا واقعہ ہوا بھی ہے تو اگلے روز سکول انتظامیہ کوا طلاع دی جاسکتی ہے، مگر چھٹی سے چند منٹ بعد ہی پوری عدالت لگانے کا حکم اور سکول حاضر ہو جانے کے آرڈر سے ہمارے دوست کو تکلیف ہوئی۔ مگر بات تو اگلے روز ہی ہو سکتی تھی۔

اگلے روز میں نے فون کر کے اپنے دوست سے جذباتی والدین کے بارے میں معلوم کیا، کیونکہ ہمارے دوست بھی کل ہونے والی بات چیت کا کچھ غصہ اتار کر اپنا بلڈ پریشر نارمل حالت میں لانا چاہتے تھے۔ انہوں نے پہلے تو چھری مارنے کی دھمکی دینے والے بچے کے والد کو بلوایا، اور بعد ازاں دوسرے صاحب کو سکول آنے کی زحمت کرنے کی درخواست کی۔ تاہم ’’مِس کو جرات کیسے ہوئی ؟‘‘ والے صاحب سے رابطہ ممکن نہ ہو سکا۔ اگرچہ ہمارے دوست نے بھی کافی کچھ غبار نکال لیا، مگر یہ بات ہم سب کے لئے لمحہ فکریہ تھی، کہ مڈل سکول کی درمیانی کلاسوں کے بچے بھی ٹیچرز کے سامنے کھڑے ہوجاتے ہیں ’’کیا کر لوگی؟‘‘ جیسا طرزِ تکلم منظر عام پر آچکا ہے۔ اور ظاہر ہے کوئی سکول ٹیچر ساتویں یا آٹھویں کلاس کے کسی بچے کی بدتمیزی پر اس کا کچھ بھی نہیں کر سکتی، ڈنڈا مارنا تو قصہ پارینہ ہو چکا ہے، تھپڑ مارنے کے دن بھی بیت چکے ہیں، ڈانٹنے پر بھی پابندی ہے، بلکہ اب تو گھور کر دیکھنا بھی ایک جرم کے زمرے میں آتا ہے۔ان تمام سرکاری احکامات کے نتیجے میں بچے اگر کسی ٹیچر کے سامنے کھڑے ہو کر بدتمیزی کریں، کلاس میں ہنگامہ آرائی سے باز نہ آئیں اور دھمکی چھری تک مار دینے کی دیں، تو مستقبل میں کیا ہوگا۔ بات اوپر نیچے برابر ہو چکی ہے، کوئی بعید نہیں کہ کلاس میں خاص طور پر خواتین ٹیچرز پر چھوٹی موٹی چیزیں اچھالنے کا رواج عام ہو جائے۔ اور جب والدین بھی اپنے بچوں کے ساتھ مل کر ٹیچرز کی ذلت کا بندوبست کرنے لگیں تو بات ہی ختم ہوگئی، آنے والے وقت کی جھلک اس چھوٹے سے واقعہ میں بخوبی دیکھی جاسکتی ہے۔

muhammad anwar graywal
About the Author: muhammad anwar graywal Read More Articles by muhammad anwar graywal: 623 Articles with 472355 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.