نئے تعلیمی سال میں نئے داخلے شروع ہو چکے ہیں۔ تعلیمی
ادارینئی نسل کی تعلیم و تربیت اور ذہن وکردار سازی میں اہم کردار ادا کرتے
ہیں۔ مستقبل کو روشن بناتے ہیں۔ان کا مقصدصرف کاروبار یا کمائی نہیں ہوتا۔
یہ دکانیں یا سٹور نہیں ہوتے۔ اس لئے سکول کے انتخاب میں احتیاط لازمی
سمجھی جاتی ہے۔ نیا تعلیمی سال شروع ہو تے ہی والدین بچوں کے لئے کتابیں،
سٹیشنری، یونیفارم، سکول بیگز، جوتے وغیرہ خریدنے میں مصروف ہیں۔ کتب خانوں
اور سٹیشنری کی دکانوں پر رش نظرآتاہے۔ بازاروں میں ان دنوں یہی اشیاء ’’
ہاٹ کیک‘‘ ہوتی ہیں۔اس شعبہ میں کاروبار میں اضافہ ہو رہا ہے۔ تجارت میں
اضافہ اچھی بات ہے۔ ہر شعبہ کا ایک سیزن ہوتا ہے۔ اسی طرح شعبہ تعلیم کا
بھی ایک سیزن ہے جو آج اپنے جوبن پر ہے۔ تعلیم کسی بھی قوم کی تعمیر و ترقی
میں انتہائی بنیادی اور اہم کردار ادا کرتی ہے۔ بچے ہی قوموں کا مستقبل ہیں۔
ان کی تعلیم و تربیت اسی مقصد کے تحت کی جاتی ہے۔ اس پر قومیں بہت توجہ بھی
دیتی ہیں۔ لیکن آج کی تعلیم اور تعلیمی نظا م تسلی بخش قرار نہیں دیا جا
سکتا۔ ہم پڑھے لکھے ان پڑھ پیدا کر رہے ہیں۔ ہم انسان کو ایک اچھا و ذمہ
دارشہری بنانے کے بجائے اسے کمائی کی مشین بنا رہے ہیں۔ ہم تعلیم کو تجارتی
مقصد کے تحت ہی دیکھتے ہیں۔ زیادہ تر یہی دیکھا جاتا ہے کہ کمائی کس شعبہ
میں زیادہ ہے۔ لاتعداد لوگ ایسے ہیں کہ جو پڑھے لکھے بے روزگاروں کو دیکھ
کر بچوں کو سکول جانے سے روک دیتے ہیں۔ یہ جواز بیان کیا جاتا ہے کہ فلاں
فلاں گریجویٹ، ماسٹرز ہے ۔ ڈگریاں ہاتھ میں اٹھائے سڑکیں ماپ رہا ہے۔ نوکری
نہیں ملی۔ اس لئے پڑھائی کا کوئی فائدہ نہیں۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ وقت
ضائع کرنے سے بہتر ہے کہ بچے کوحوش سنبھالنے پر کسی کام پر لگا دیا جائے۔
یا خاندانی کام میں ہی مصروف کر دیا جائے۔یہ اس طبقہ کا تعلیم سے اظہار
ناراضی ہے۔ غم و غصہ کا اظہار ہے۔ یہ لوگ برہم ہیں۔ اس کی بھی کئی وجوہات
ہیں۔ہمارا تعلیمی نصاب یکساں نہیں۔ ہر ایک کاا پنا نصاب ہے۔ من مانی ہے۔
چیک اینڈ بیلنس رکھنے والا ادارہ موجود ہی نہیں یا خاموش ہے۔ ہر گلی محلہ
میں سکول کھلے ہیں۔ کوئی بھی ایک کمرا لے کر سکول شروع کر دیتا ہے۔ ان
سکولوں کی رجسٹریشن کیسے ہوتی ہے، اور کیوں ہوتی ہے، کوئی نہیں
جانتا۔رجسٹرڈ ادارے بھی بغیر چیک اینڈ بیلنس کے چل رہے ہوتے ہیں۔نگرانی اور
قواعد و ضوابط کے بغیر قوم کا مستقبل تباہ کرنے والوں کو من مانی کی اجازت
ملی ہوتی ہے۔ یا اس میں متعلقہ حکام بھی شریک ہوتے ہیں۔ بار بار کی یقین
دہانیوں ، وعدوں اور اعلانات کے باوجود ایک نصاب تعلیم نہ بن سکا۔ ایسا
محسوس ہوتا ہے حکومتیں تعلیم کو سنجیدہ ہی نہیں لیتیں۔صرف این ٹی ایس یا
کسی ٹیسٹنگ سروس کی خدمات سے نظام بہتر نہیں ہو سکتا۔ این سروسز کی معتبریت
یا کریڈیبلٹی پر بھی سوال اٹھے ہیں۔ یہی وجہ ہی کہ نئی نسل کے مستقبل کے
ساتھ کھلواڑ کرنے والے آزاد چھوڑ دیئے جاتے ہیں۔ سرکاری سکولوں کی بہتات ہے۔
لیکن پھر بھی نجی تعلیمی ادارے پھل پھول رہے ہیں۔ نجی سیکٹر قابل قدر ہے،
اگر یہ کاروبار سے اوپر اٹھ کر دیکھے۔
آزاد کشمیر ملک بھر میں شرح خواندگی میں سب سے آگے ہے۔ یہاں تقریباً7ہزار
تعلیمی اداروں میں 35ہزار اساتذہ چھ لاکھ طلباء و طالبات کو پڑھا رہے ہیں۔
معیار تعلیم کا مطلب ہم صرف زیادہ یا کم نمبرات یا نتائج کے حساب سے لیتے
ہیں۔ ہر گلی محلے میں آئے روز ایک کمرہ سکول کھل رہے ہیں۔سکولوں نے من پسند
نصاب مقرر کر رکھے ہیں۔ان کا مقصد صرف کمائی بن گیا ہے۔ معصوم بچوں پر
کتابیں لادھ دی جاتی ہیں۔ انہیں کتابوں کے بوجھ تلے دبا دیا گیا ہے۔والدین
کے پاس بچوں کے لئے وقت کی کمی ہے۔کتابی اورذہنی بوجھ سے بچے کی نشو و نما
رک جاتی ہے۔ اس کے پٹھیمتاثر ہوتے ہیں۔ اس کی ہڈیاں دب جاتی ہیں۔ اس کا قد
نہیں بڑھتا۔ اس کی رگوں پر دباؤ سے خون کی گردش کم ہو جاتی ہے۔ زیادہ بوجھ
خون کی گردش روکنے کا باعث بھی بنتا ہے۔ یہ تو جسمانی نقسان ہے۔ لیکن سب سے
بڑا اور تباہ کن نقصان زہنی ہے۔ کلاس ورک اور ہوم ورک کی پریشانی۔ یہ بچے
کی نفسیات پر منفی اثر ڈالتی ہے۔ وہ ہر وقت دباؤ اور ٹینشن کا شکار رہتا
ہے۔ اب تو کئی بچے اپنے ساتھ گھریلو ملازم لاتے ہیں۔ یا ان کے والدین ان کا
کتابوں بھرا بستہ لے کر چلتے ہیں۔ جو بچہ بچپن سیدوسروں پر انحصار کا عادی
ہویا اپنا بوجھ والدین پر لادھ کر چلنے پر مجبور ہو تو بڑا ہو کر اس کی
کیفیت کا اندازہ آسانی سے لگایا جاسکتا ہے۔اپنا کام خود کرنی کی یہ حوصلہ
شکنی ہے۔ یہ ایسا موضوع ہے جس پر ریسرچ کی ضرورت ہے۔بعض سکولوں کا کتب
خانوں ،یونیفارم ڈیلرزاور سٹیشنرز کے ساتھ ساز باز ہوتاہے۔ یہ کمیشن لیتے
ہیں۔ ایک کتاب کی بازار میں قیمت پچاس روپے ہے تو اس پر 20تا 60فی صد
ڈسکاؤنٹ ملتا ہے۔ زیادہ خریداری پر اس سے بھی زیادہ دیا جاتا ہے۔ پبلشرز کا
یہی طریقہ واردات ہے۔ وہ بھی من پسند قیمت لکھ دیتے ہیں۔ پھر جو وصول ہو ،
غنیمت ہے۔ یہ ساز باز اور بڑا گٹھ جوڑ ہے۔ کرپشن ہے۔ جو والدین نرسری کلاس
کے بچوں کی کتابیں پانچ پانچ ہزار میں خریدیں گے ۔ ان کی یونیفارم، لنچ،
ٹرانسپورٹ کا بندوبست کیسے کریں گے۔ فیسیں بھی بھاری ہیں۔ کتابیں، سٹیشنری
کی آسمان کو چھوتی قیمتیں۔ یونیفارم کے منہ مانگے دام۔ یہ سب کاروبار ایک
مافیا کی شکل اختیار کر رہا ہے۔ لیکن کوئی احتساب، پوچھنے ولا نہیں۔ اس پر
مضحکہ خیز بات یہ کہ سکول کسی مخصوص کتب خانے یا یونیفارم دکان کے ساتھ
سمجھوتہ کر کے والدین کو وہاں من مانی قیمتادا کرنے پر مجبور کرتے ہیں۔ جس
استاد کا رزلٹ سرکاری سکول میں صفر ہے وہی استاد اپنی اکیڈمی کھول کراچھا
رزلٹ دیتا ہے۔ سرکاری سکول کا استاد اپنا بچہ پرائیویٹ سکول میں داخل کرتا
ہے۔ تمام سرکاری ملازمین پر ان کے بچے سرکاری سکولوں میں داخل کرنے اور
علاج سرکاری ہسپتالوں سے کرانے کی پابندی ہوتو سرکاری سکولوں ، ہسپتالوں کا
معیار بلند ہو سکتا ہے۔ بہتری کی گنجائش نکل سکتی ہے۔تعلیمی پالیسیپر توجہ
نہیں۔ تعلیم وفاق کے پاس رہے تا کہ ملک بھر میں قومی تعلیمی پالیسی تشکیل
پائے۔ سکولوں کی رینکنگ کا نظام ہو۔انکریمنٹ ترقیاں مشروط ہوں، سرکاری
تعلیمی اداروں میں تعینات اساتذہ اپنے بچے پرائیویٹ اداروں کے بجائے اپنے
ادارے میں داخل کریں۔ بیوروکریٹس ، اعلیٰ عہدیدار اپنے بچے اپنے علاقے کے
سرکاری ادارے میں داخل نہیں کریں۔ تببہتری متوقع ہے۔ تعلیمی نصاب ایک
ہو،تعلیم کاروبار نہ بنے۔کسیمافیا کو قوم کا مستقبل تباہ کرنے سے بازرکھا
جائے۔ |