"تعلیم اتنی مہنگی ہو جائے گی کبھی سوچا نہ تھا۔ مارچ اور
اپریل کا مہینہ ایسے شادی شدہ افراد کے لئے انتہائی بھاری ثابت ہوتا ہے جن
کے بچے بھی ہوں اور جن جن کے بچے دو سے زائد ہوتے ہیں اُن کے لئے بجٹ بنانا
جوئے شیر لانے کے مترادف ہوتا ہے۔ ہمارے بچپن میں تعلیم حاصل کرنا بہت آسان
تھا۔ کپڑے کا ایک بستہ ہوتا تھا، اُس میں چند کتابیں اور ایک تختی ہوا کرتی
تھی۔ نہ آج کل کی طرح ’’لنچ‘‘ کا کوئی تصور تھا اور نہ ہی ’’پاؤچ‘‘ کے نام
سے واقف تھے۔ آج کل کے دُور میں واجبی تعلیم حاصل کرنا بھی مشکل ہو چکا ہے
اور جو لوگ اپنے بچوں کو معیاری تعلیم دینا چاہتے ہیں اُن کے لئے تو اور
بھی دشوار ہو گیا ہے۔ آج کل کاپیوں اور کتابوں والوں کی پانچوں انگلیاں گھی
میں اور سر کڑاہی میں۔ اُن کی بڑی بڑی دکانوں پر اس قدر رش نظر آتا ہے جیسے
سب کچھ مفت میں تقسیم کیا جا رہا ہے۔ کسی دُکاندار کے پاس بات سننے کی بھی
فرصت نہیں ہے۔ عجب تماشہ ہے کہ سبزی، فروٹ، کریانہ سٹور، ہوٹل اور گوشت
بیچنے والوں کو تو مجسٹریٹ اکثر پوچھتے بھی رہتے ہیں اور اُن پر جرمانے بھی
کرتے رہتے ہیں مگر ان کاپیوں، کتابوں، کپڑے، جوتے اور موبائل شاپس والوں کو
کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔ ایک کاپی کی قیمت 80 روپے لکھی ہوتی ہے اور وہ
کسی کو 50 روپے میں دے رہے ہوتے ہیں اور کسی کو 60 روپے میں جبکہ ان کے
منافع کی شرح اتنی زیادہ ہے کہ یہ لوگ سال بھر کی روٹیاں ان چند دنوں میں
اکٹھی کر لیتے ہیں۔ ایک ایک کتاب کی قیمت 250 روپے ہے اور کچھ کتابوں کی
قیمت 350 روپے تک ہے۔ جس خاندان کے 3 یا 4 بچے سکول میں پڑھتے ہیں وہ کیا
کرے گا؟ وہ یہ کاپیاں، کتابیں، جوتے، سکول یونیفارم اور سکول بیگ کس طرح لے
گا۔ اُس کا بجٹ کیسے بنے گا۔ اگر ایک گھر کے سربراہ کی ماہانہ آمدن ہی 15
ہزار سے 20 ہزار روپے ہے وہ کس طرح اپنے تین، چار بچوں کے لئے یہ تمام سکول
کی ضروریات پوری کرے گا۔ اُس کے پاس کدھر سے اتنے پیسے آئیں گے کہ وہ اپنے
بچوں کو نئی کاپیوں اور کتابوں کے ساتھ سکول بھیجے گا؟ اُس کا بجٹ تو پہلے
ہی خسارے کا شکار ہوتا ہے بھلا وہ کس طرح اپنے بچوں کو تعلیم دلائے گا؟
کاپیوں اور کتابوں والوں کی ناجائز منافع خوری کا بھی سدباب ہونا چاہئے۔
اگر یہ ناجائز منافع خوری حاصل کر رہے ہیں تو ان کی بھی پوچھ ہونی چاہئے۔
ہمارے ملک کا ایک بہت بڑا مسئلہ ہے کہ کچھ لوگ اس قدر قانون کی نظروں سے
اوجھل ہیں کہ وہ بڑی مستی کے ساتھ اپنے اپنے دونوں ہاتھوں سے عوام کو لوٹ
رہے ہیں مگر ان کو کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔ یہ بڑے مکار لوگ ہوتے ہیں۔ ان
کے پاس کوئی قانون کو سمجھنے والا چلا جائے تو اس کا بل ایسا بناتے ہیں کہ
عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ مثلاً اگر ایک کاپی کی قیمت 80 روپے درج ہے تو وہ اس
کو 40 روپے میں بھی دینے کو تیار ہو جاتے ہیں اور یقینا ان 40 روپوں میں
بھی اُن کا منافع موجود ہو گا مگر یہ اپنی لوٹ مار سے باز نہیں آتے اور
سادہ لوح لوگوں کو دونوں ہاتھوں سے لوٹتے رہتے ہیں۔ اس کی مثال اس طرح آپ
سمجھ سکتے ہیں کہ ایک سکول بیگ جس کی قیمت 1050 روپے درج ہوتی ہے اُس بیگ
کو ایک دکاندار 900 روپے میں دے رہا ہوتا ہے جبکہ اسی کمپنی کا وہی بیگ ایک
اور دکاندار اس کو 500 روپے میں بیچ رہا ہوتا ہے۔ اس سے اندازہ لگایا جا
سکتا ہے کہ یہ لوگ کس طرح ناجائز منافع حاصل کرتے ہیں۔ جہاں تک بات عوام
الناس کی ہے تو عوام کو تو قانون اور ضابطوں کا علم ہی نہیں ہوتا۔ عوام کو
تو اپنے بچوں کی خاطر یہ سب کچھ برداشت کر رہے ہوتے ہیں۔ وہ تو ٹوٹل بل میں
سے اگر 50 روپے نفی کر دیں تو اس کو بہت بڑی بات تصور کرتے ہیں مگر یہ تو
بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ وہ ناجائز منافع کمانے والا دکاندار ایک کتاب پر
100 روپے سے 150 روپے کما رہا ہوتا ہے۔ کتابوں اور کاپیوں پر بہت زیادہ
منافع رکھا جاتا ہے۔ ان دکانداروں کو ہول سیل ریٹ پر بہت سستی کاپیاں،
کتابیں اور سٹیشنری آئٹمز ملتے ہیں۔ مگر ان کو ذرا بھی احساس نہیں ہوتا کہ
یہ لوگوں سے حرام منافع خوری حاصل کرتے ہیں۔ اب جیسے جیسے وقت گزرتا جا رہا
ہے تعلیم بہت مہنگی ہوتی جا رہی ہے۔ اب معیاری تعلیم حاصل کرنا اب عام آدمی
کے بس کی بات نہیں رہا۔ مارچ اور اپریل کا مہینہ والدین کے لئے کسی معرکے
سے کم ثابت نہیں ہوتا۔ اب تو تعلیم بھی ایک بہت بڑا کاروبار بن چکا ہے۔
پرائیویٹ سکول تعلیم کے نام پر لوٹ مار کا بازار بن چکے ہیں۔ اسی طرح تعلیم
کے نام پر اکیڈمیز کا قیام بھی اسی لوٹ مار کا ایک اور نام ہے۔ ایک ایک
مضمون کے ہزار ہزار روپے غریب والدین سے لئے جا رہے ہیں۔ پھر جو بچے اور
بچیاں ہاسٹل میں رہتے ہیں وہ الگ ایک امتحان ہے جو ختم ہونے کا نام نہیں
لیتا۔ کاش! ہمارے اسلامی جمہوریہ پاکستان کے تمام ادارے اپنا اپنا مثبت
کردار ادا کرتے تو عوام الناس کو اتنی مشکلات درپیش نہ آتیں۔ کاش! محکمہ
تعلیم کا وزیر اپنی ذمہ داریاں ادا کر سکتا۔ کاش! ڈی سی تمام اضلاع کے
سکولوں، کاپیوں، کتابوں اور یونیفارم والوں کو ایک مخصوص ریٹ کا پابند بنا
سکتا۔ اگر ادارے اپنی اپنی رٹ کو قائم کر لیتے تو سارے کا سارا نظام درست
ہو جاتا لیکن کیا کریں پاکستان میں ایک مالی سے لے کر پی۔ ایم تک سب
بدعنوان ہیں۔ پاکستان میں کھایا اُسی نے نہیں جس کو ملا نہیں۔ سب اپنے اپنے
حصے کی لوٹ مار کر رہے ہیں۔ ان کو کوئی پوچھنے والا نہیں۔ اﷲ تعالیٰ
پاکستان کا حامی و ناصر ہو۔ |