ماہِ فروری کی 5تاریخ کو ایک حیران کن بلکہ افسوس ناک خبر
نے سب کو ہلا کر رکھ دیا،ہر کوئی یہ سوچنے پر مجبور ہو گیا کہ کیسے ایک
سمجھ دار اور پڑھا لکھا شخص عطائی ڈاکٹر کی غفلت کا شکار ہو گیا ،خبر کچھ
یوں تھی کہ ٹی وی کے معروف اداکار ساجد حسن نے شوقیہ کہیں یا شوبز کی وجہ
سے اپنے گنجے پن کو چھپانے کے لیے ہیئر ٹرانسپلانٹ کا سہارا لیا۔اس میں
کوئی مضائقہ بھی نہیں مگر ہوا یہ کہ وہ ہیئر ٹرانسپلانٹ کے دوران ڈاکٹر کی
غفلت کا شکار ہوگئے اورآپریشن کے دوسرے ہی دن ان کی طبیعت خراب ہوگئی جبکہ
ان کے سر پر انفیکشن کی وجہ سے زخم ہوگیا اور وہ 10 سے 15 روز تک شدید
بیمار اور غنودگی کی حالت میں رہے۔اداکار نے ویڈیو بیان کے ذریعے اپنے ساتھ
پیش آنے والے واقعات سے پردہ اٹھایا ۔ان کا کہنا تھا کہ 9 سال سے ان کا ایک
ڈاکٹر دوست بالوں کے ٹرانسپلانٹ کے لیے پیچھے پڑا ہوا تھا اور 2 ماہ قبل
انہوں نے اپنے دوست سے ہیر ٹرانسپلانٹ کیلئے سرجری کرائی۔ بالوں کی پیوند
کاری کرنے والے ڈاکٹر اس دوران بھی مسلسل یہی کہتے رہے کہ زخم ٹھیک ہو رہا
ہے اور ڈاکٹر کی جانب سے روز صفائی کے باوجود زخم ٹھیک نہیں ہوا۔اداکارساجد
حسن نے کہا کہ ’’ڈاکٹر کی جانب سے غلط آلات کے استعمال کی وجہ سے انفیکشن
ہوا اور ان کا دوست ڈاکٹر ان کے زخم کو نمکین پانی سے دھوتا رہا، وہ اور ان
کا خاندان 2 مہینوں سے مشکلات و کرب میں مبتلا ہے۔ اس ویڈیو کا مقصد لوگوں
میں اس حوالے سے آگاہی پیدا کرنا ہے تاکہ وہ اس طرح کی پیوند کاری سے قبل
10 بار معلومات لیں اور سوچ سمجھ کر ہی فیصلہ کریں ۔کیونکہ عطائی ڈاکٹر نے
ٹرانسپلانٹ سے قبل میرے کوئی ٹیسٹ نہیں کیے، غلط ٹرانسپلانٹ کے باعث میرے
سر پرانفکیشن ہوا،اس لیے ہیئر ٹرانسپلانٹ کرانے سے پہلے متعلقہ ڈاکٹر،
کلینک کے بارے میں اچھی طرح تحقیق کرلیں۔سوشل میڈیا پر اداکار ساجد حسن کی
اس ویڈیو کو بار بار شئیر کیا جارہا ہے جس میں انہوں نے بات کرتے ہوئے اپنے
زخم بھی دکھا ئے ہیں جو خوفناک نظر آرہے ہیں۔ایسا پہلی بار نہیں ہوا ،ایسے
ہی کئی واقعات روز ہماری قوت ِ سماعت سے گزرتے رہتے ہیں ،جس کے ردعمل میں
ہم افسوس کے علاوہ کچھ نہیں کر پاتے۔ہونا تو یہ چاہیے کہ ہم ان واقعات کے
رونما ہونے کی وجوہات تلاش کریں اور پھر ان غلطیوں سے سیکھنے کی کوشش کریں
مگر ایسا کچھ نہیں ہوتا۔ ملک میں ہئیر ٹرانسپلانٹ کے حوالے سے کسی قسم کے
میڈیکل قوانین موجود نہیں ہیں جس کی وجہ سے گلی محلوں میں بھی ایسے کلینک
کھل چکے ہیں جو چند ہزار سے لے کر لاکھوں روپے میں ہئیر ٹرانسپلانٹ کا کام
کررہے ہیں۔ ان کلینکس کا عملہ اکثر غیر تربیت یافتہ ہوتا ہے جبکہ ڈاکٹرز
بھی اس شعبہ کے ماہر نہیں ہوتے اور صرف لوگوں کی سر پر بالوں کی خواہش کی
تعبیر دینے کے نام پر لاکھوں روپے ماہانہ کما رہے ہیں۔ ان ڈاکٹر ز کے پاس
ہئیر ٹرانسپلانٹ کے بعد کسی انفیکشن کی صورت میں ٹریٹمنٹ کی سہولیات بھی
موجود نہیں ہیں ۔کئی اورافراد ایسے ہی مسائل سے دوچار ہیں جن سے اس وقت
اداکار ساجد حسن دوچار ہیں۔بات صرف ہئیر ٹرانسپلانٹ پر ختم نہیں ہوتی۔اس
وقت وطن عزیز میں عطائی ڈاکٹروں کی بہت سی اقسام موجود ہیں۔جن میں جعلی
ایلوپیتھیک ڈاکٹر ، جعلی دندان ساز، جراح ،کمپاؤڈر، جعلی حکیم اور ہومیو
پیتھک ڈاکٹرز شامل ہیں۔جن کے کارناموں کی خبریں اخبارات اور نیوز چینلز کی
زینت بنتی رہتی ہیں ۔جیسے کچھ عرصہ قبل ایک خبر عا م ہوئی کہ بھوآنہ کے
قریب ایک شخص کی طبیعت خراب ہوئی تو وہ ایک ڈاکٹر کے پاس چلے گئے جس نے
کلینک کے باہر بورڈ کسی اور ڈاکٹر کا لگا رکھا تھا۔’ڈاکٹر نے اس شخص کو
ٹیکہ لگا دیا جس سے وہ سو گئے لیکن جب ان کی آنکھ کھلی تو ان کے بازو پر
سوزش تھی اور وہ کام بھی نہیں کر رہا تھا۔پھر وہ شخص ہسپتال گیا ،جہاں
مسلسل تین دن تیرہ تیرہ سو روپے کے انجکشن استعمال کرنے کے بعد ان کا بازو
ٹھیک ہوا۔اسی طرح کچھ عرصہ قبل گھوٹکی میں عطائی ڈاکٹر کے غلط انجکشن سے
مریض جلد کی بیماری میں مبتلا ہو گیا،جیسے ہی متاثرہ شخص نے تھانے میں
اطلاع دی تو وہ عطائی ڈاکٹر کلینک سے فرار ہو گیا ۔ ایسا ہی ایک واقعہ ایک
جاننے والے نے بتایا کہ ان کے بیٹے کی طبیعت خراب ہوئی تو وہ اسے محلہ میں
موجود عطائی ڈاکٹر کے پاس لے گئے جس نے معمولی بخار کا بتا کے دوائی دے دی
اور ان کے بیٹے کی طبیعت کچھ بہتر ہوگئی۔دوسرے دن ان کے بیٹے کی طبیعت مزید
خراب ہوگئی اور مجبوراًوہ اسے ہسپتال میں ڈاکٹر کے پاس لے گئے جس نے اسے
نمونیا بتایا اور اس کا ٹھیک طریقے سے علاج کیا۔
اسی طرح کا ایک اور واقعہ لاہور کی رہائشی ایک خاتون کے ساتھ پیش آیا ،
بخار کو ختم کرنے کے لیے ڈاکٹر نے ان کو ڈرپ لگائی جو ان کے گوشت میں لگ
گئی جس سے اس خاتون کا پورا جسم سوجن کا شکار ہو گیا اور وہ بستر پہ پڑی اس
بیماری سے لڑ رہی ہیں ۔یہ تو تھے چند واقعات مگر پاکستان میں طبی سہولیات
کی فراہمی کے سلسلے میں زیادہ چھان بین نہ ہونے کی وجہ سے اکثر ڈاکٹرز کے
خلاف ایسی شکایات سامنے آتی رہتی ہیں لیکن کسی بھی ڈاکٹر کے خلاف کوئی
ایکشن نہیں لیا جاتا۔اگر ایکشن لے بھی لیا جائے تو کچھ عرصہ بعد وہ نام
تبدیل کر کے ایک بار پھر عوام کی جانوں سے کھیلنے لگ جاتا ہے۔کبھی تونام
تبدیل کرنے کی نوبت بھی نہیں آتی ۔لاہور کی رہائشی مسز ماجد نے روزنامہ
انصاف کو خصوصی طور پر بتایا کہ ان کے بیٹے کی پیدائش کے دوران ڈاکٹر نے ان
کو انجکشن لگائے جو وقتی طور پر باظاہر ٹھیک رہے مگر اس کے بعد سے ہی میرے
جسم، ہاتھوں اور بازؤں پر گہرے کالے رنگ کے نشان بن گئے جو آج دو سال کا
عرصہ گزرنے کے بعد بھی ٹھیک نہیں ہوئے ،میں نے جب اس ڈاکٹر سے اس حوالے سے
بات کی تو ان کا کہنا تھا کہ یہ وقت گزرنے کے ساتھ خود با خود ٹھیک ہو
جائیں گے آپ پریشان نا ہوں ،ان دو سالوں کے دوران میں بہت سے جلدی امراض کے
ماہر ڈاکٹروں سے بھی اس حوالے سے علاج کروا یا مگر کوئی افاقہ نہ ہوا۔یہ
نشان میرے لیے بہت پریشانی کا باعث بنتے ہیں اور لوگ مجھ سے ان کے بارے میں
سوال بھی کرتے ہیں ۔
اداکار ساجد حسن ایک پڑھے لکھے اور باشعور انسان ہیں ،مگر افسوس انہوں نے
بھی اس قدرانتہائی قدم اٹھانے سے قبل ڈاکٹر کے بارے میں تحقیق نہیں کی تھی
،پھر عام آدمی سے کیا گلہ۔ایک ناخواندہ شخص کیا جانے کہ ڈگری شدہ اور جعلی
ڈاکٹر میں کیا فرق ہے،وہ تو جعلی ڈاکٹر کو بھی مسیحا سمجھ کر اپنا علاج
نہایت اعتقاد سے کرواتا ہے ،مگر نتائج سے بے خبر ہوتا ہے۔پاکستان کی اکثریت
کو دو وقت کی روٹی بمشکل سے میسر ہوتی ہے ایسے میں علاج و معالجہ کروانا
آسان نہیں ہے۔کیونکہ ادویات اورعلاج اس قدر مہنگا ہے کہ غربت کے مارے افراد
بیماریوں سے لڑتے لڑتے بلاآخر موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں،کیونکہ مزدور
افراد مہنگے ڈاکٹروں کی فیس نہیں بھر سکتے اس لیے محلے میں موجود عطائی
ڈاکٹر سے ہی علاج کروانے پر مجبور ہوتے ہیں ۔کچھ دن کسی ڈاکٹر کے پاس کام
کرنے کے بعد یہ لوگ اپنا کلینک بنا لیتے ہیں اور غریب عوام ڈاکٹروں کی
بھاری فیس سے بچنے کے لیے مجبوراً ان عطائی ڈاکٹروں کے پاس پھنس جاتی
ہے۔عطائی ڈاکٹر کسی بھی بیماری کی ٹھیک تشخیص نہیں کر سکتے اس لیے لوگ ان
کے ہاتھوں صحت یاب ہونے کی بجائے مزید بیمار ہو جاتے ہیں۔اس سے ثابت ہوا کہ
عطائیوں کا جال اس قدر مضبوطی سے پورے ملک میں اپنے پنجے گاڑ چکا ہے کہ
کوئی بھی شخص باآسانی ان کو پہچاننے سے قاصر ہے تبھی تو شہریوں کی ایک بڑی
تعداد ان کا شکار بن چکی ہے۔اس حقیقت سے انکار بھی نا ممکن ہے کہ شہری
علاقوں میں پھر بھی ان افراد کا قبضہ اتنا مضبوط نہیں جتنا دیہاتوں اور
گاؤں میں ہے۔وہاں ایک طرف صحت کی سہولیات نا پید ہیں ،بلکہ ڈاکٹر نا ہونے
کے برابر ہیں۔حال ہی میں ایک یہ بھی واقعہ سامنے آیا تھا کہ ایک گاؤں میں
ڈاکٹر کی غیر موجودگی کے باعث ہسپتال کا چوکیدار ہی مسیحا کا روپ دھارے
معصوم اور سادہ لوح انسانوں کو طبی سہولیات فراہم کر رہا تھا۔پھر ان
معصوموں کا جو حشرہوا ہو گا اس کے نتائج یقینا آپ سمجھ گئے ہونگے۔کسی زمانے
میں ڈاکٹر کو مسیحا اور ڈاکٹری کو بہت مقدس پیشہ سمجھا جاتا تھا مگر اب یہ
باتیں صرف کتابوں تک محدود ہو کر رہ گئی ہیں۔
راتوں رات امیر ہونے کی خواہش میں جھکڑے افراد اس قدر خود غرض ہو جاتے ہیں
کہ اپنی خواہش کی تکمیل کی خاطر کسی کی بھی زندگی داؤ پر لگا دیتے ہیں
،دوسری طرف غربت کے شکنجہ میں آئے افراد مستند ڈاکٹروں کے پاس علاج کے لئے
جانے کی بجائے قرب و جوار میں غیر مستند اور بے رحم عطائیوں کے ہتھے چڑ ھ
جاتے ہیں یہی وجہ ہے کہ صحتیاب ہونے کی بجائے آہستہ آہستہ ہیپاٹائٹس
،تشنج،ایڈز ،گردوں ،جگر اور دیگر مہلک بیماریوں کا شکار ہو کر موت کے منہ
میں چلے جاتے ہیں۔صرف یہی نہیں بلکہ غیر معیاری ادویات اور غلط تشخیض کی
بدولت بے شمار قیمتی جانیں ضا ئع ہو چکی ہیں ۔حال ہی میں پنجاب ہیلتھ کیئر
کمیشن نے عطائیوں کے خلاف شہر کے مختلف علاقوں میں کریک ڈاون کیا جس کے
نتیجے میں پنجاب ہیلتھ کیئر کمیشن کی ٹیموں نے9 ایلوپیتھیک ، 3 دندان ساز،4
جراح اور2 جعلی حکیموں کے اڈے سربمہر کئے گئے ۔اس حوالے سے پنجاب ہیلتھ
کیئر کمیشن کے ترجمان نے بتایاکہ کمیشن پنجاب بھر میں صحت کی معیار ی
سہولیات کی فراہمی کے لیے کوشاں ہے ۔یہ عطائی غیر قانونی طور پر مختلف
اقسام کی طبی سہولیات مہیا کر رہے تھے،جیسے ڈسپنسر کاکلینک چلانا،مستند
ڈاکٹرز کے بغیر ڈینٹل کلینک چلانا، ہومیوپیتھی علاج گاہ پر ایلو پیتھی کے
ذریعے علاج، میڈیکل سٹورپر علاج ،پتھالوجسٹ کے بغیر لیب پر ٹیسٹ
،ریڈیالوجسٹ کے بغیر ایکسرے سنٹر چلانا اور بغیر ڈگری کے مطب چلانا شامل ہے
اور اب تک 6,000سے زائدعطائیت کے اڈے سیل کیے جاچکے ہیں اور 5کروڑ54لاکھ سے
زائد کے جرمانے کئے گئے ہیں۔ صرف لاہور ہی نہیں بلکہ جہلم میں بھی پنجاب
ہیلتھ کئیر کمیشن نے صوبہ بھر میں عطائیوں کے خلا ف کارر وائی میں ضلع کے
مختلف علاقوں اور تحصیلوں میں 45عطائیوں کے اڈے سیل کر کے ان کے خلاف مزید
کارروائی کا آغاز کر دیا ہے۔ کمیشن کی ٹیموں نے 9فروری کو جن 45اڈوں کو بند
کیا ان میں 22 ایلوپیتھی عطائی ،12 جعلی دندان ساز،5ہڈی جوڑ،4 جعلی حکیم
اور 2ہومیو پیتھک کلینک شامل ہیں۔اسی طرح جنوری 2018 میں بھی پنجاب ہیلتھ
کیئر کمیشن نے لاہور کے مختلف علاقوں میں غیر قانونی طور پر علاج معالجہ
کرنے والے 34 عطائیوں کے اڈے سیل کر دیئے۔ کمیشن کی ٹیموں نے جن 34 اڈوں کو
بند کیا ان میں 16 ایلوپیتھی عطائی، 9 جعلی دندان ساز اور 9 جراح شامل
تھے۔عطائیت کے خلاف باقاعدہ کاروائیوں کا آغاز اگست 2015 سے کیا گیا تھا جو
کہ ہیلتھ کیئر کمیشن کے وجود میں آنے کے بعد ممکن ہوا تھا۔مگر اس کے باوجود
ملک بھر میں عطائی بڑی ڈھٹائی سے اپنا کام جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ایک غیر
سرکاری تنظیم ’’پاکستان نیشنل فورم فور وومینز ہیلتھ‘‘ کے جائزے کے مطابق
اِس وقت ملک میں 8 لاکھ کے قریب عطائی ڈاکٹر موجود ہیں جبکہ 18کروڑ آبادی
کی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے دستیاب مستند ڈاکٹروں کی تعداد نہایت کم
ہے۔یہی وجہ ہے کہ ڈاکٹروں کی کمی کے باعث نیم حکیم عوام کی صحت کے لیے خطرہ
بن گئے ہیں۔غیر مستند طبی عملے کی کمی کے سبب سب سے زیادہ نقصان خواتین کو
ہو رہا ہے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ پنجاب ہیلتھ کئیر کمیشن جب ان عطائیوں کے
اڈوں کو سیل کرتی ہے اور ان کوجرمانہ کرتی ہے اس کے ساتھ ان کو کڑی سے کڑی
سزا دلوائیں،کیونکہ ایسے افراد جو اپنے ذاتی غرض اور راتوں رات امیر ہونے
کے چکر میں معصوم افراد کی جان سے کھیلتے ہیں۔ان لوگوں کو اس بات کا احساس
بھی نہیں ہوتا کہ ان کے پاس آنے والے ایک طرف غربت کے ستائے افراد تو دوسری
طرف بیماری سے دوچا ر ہوتے ہیں،ایسے میں کسی کی مجبوری سے فائدہ اٹھانے
والے کسی قسم کی رعایت کے حقدار نہیں ہوتے۔پنجاب ہیلتھ کئیر کمیشن ان
عطائیوں کے خلاف جنگ میں سر گرم ہے جو قابل ستائش عمل ہے ،ہماری ان سے
درخواست ہے کہ وہ اپنے اس عمل کو مزید تیز کر ے تاکہ عطائیوں کا خاتمہ ممکن
ہو سکے کیونکہ یہ وہ دشمن ہیں جو دوست بن کر وار کرتے ہیں اور ان کی پہچان
بھی معصوم شہریوں کے بس کی بات نہیں ہے۔
باکس:
ایک شہری علی شان نے کہا کہ غیر مستند افراد نام نہاد ڈاکٹرز کا روپ دھارے
سادہ لوح مریضوں کا علاج کرنے میں مصروف ہیں۔ بھاری فیسوں اور ادویات کی مد
میں مریضوں سے ہزاروں روپے بٹورے جارہے ہیں جو کہ اپنی صحت کی فکر میں
مبتلا غریب عوام پر کسی ظلم سے کم نہیں۔گلیوں، محلوں اور میڈیکل سٹوروں پر
چھوٹے چھوٹے کلینک کھولے غیر مستند ڈاکٹروں کی غلطیوں کی وجہ سے متعدد مریض
یا تو اپنی جانیں گنوا چکے ہیں یا پھر دائمی معذوری کا شکار ہوچکے ہیں۔
اکثر کلینکس پر مستند ڈاکٹروں کے نام درج کردئیے جاتے ہیں مگر ان میں سے
اکثر ڈاکٹرز کبھی ان کلینکس پر چند لمحات کے لئے بھی نہیں آتے۔ تاہم انکا
نام استعمال کئے جانے کا ’’حصہ‘‘ انکو ہرماہ باقاعدگی سے بھیج دیا جاتاہے۔
ایسے غیر مستند ڈاکٹرز مریضوں کو اپنے مستقل گاہک بنائے رکھنے کے لئے
سٹیرائیڈز کا استعمال کراتے ہیں جن سے وقتی طور پر مریض کو افاقہ ہوجاتا ہے
جس کی وجہ سے سادہ لوح مریض سمجھتے ہیں کہ یہ بہت قابل ڈاکٹر ہے جس نے جلد
ہماری بیماری ٹھیک کردی اور یو ں پھر ان عطائیوں کی مستقل آمدنی کا سلسلہ
چل پڑتا ہے۔سٹیرائیڈز کا استعمال پوری دنیا میں ممنوع قرار دیا گیا ہے مگر
یہاں یہ کام دھڑلے سے جاری ہے۔ ان سٹیرائیڈز کے استعمال سے متعدد افراد
پیچیدہ امراض کا شکار ہوچکے ہیں۔
ایک اور شہری جہانزیب نے کہا کہ پاکستان میں صحت کا شعبہ حکمرانوں اور
انتظامیہ کی شدید غفلت کا شکارہے۔ ہمارا ہیلتھ سٹرکچر بیمار کو زندگی کی
طرف لے جانے کی بجائے ذلت و رسوائی دے کر موت کی دہلیزتک پہنچا دیتا ہے۔
شدید بیماری لاحق ہوجائے تولاچار لواحقین اپنی جمع پونجی لٹانے کے ساتھ
ساتھ گھرباربیچنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ بڑے شہروں میں گنتی کے چند سرکاری
ہسپتال ہیں جو آبادی کے تناسب سے ناکافی ہیں۔ دیہی علاقوں میں صورتِ حال
انتہائی ابتر ہے۔ مریضوں کو سینکڑوں میل سفر کرکے بڑے شہروں کا رخ کرنا
پڑتا ہے جہاں یا تو انہیں ٹال دیا جاتا ہے یا مہینوں کا ٹائم دے دیاجاتاہے۔
بیمار بیچارے اسی شش و پنج میں رہتے ہیں کہ اگر سرکاری ہسپتال جائیں تو
علاج معالجہ کی گارنٹی نہیں اور پرائیویٹ جائیں تو جیب اور جان دونوں کی
کوئی گارنٹی نہیں۔اس ساری صورت حال کا فائدہ پرائیویٹ مافیا اٹھا رہا ہے۔
پرائیویٹ ہسپتال، کلینکس اور عطائی ڈاکٹردن دگنی رات چوگنی ترقی کر رہے
ہیں۔چھوٹے شہروں اور دیہی علاقوں میں بیشتر پرائیویٹ کلینکس، ہسپتالوں اور
میٹرنیٹی ہومز جعلی ڈاکٹرز چلا رہے ہوتے ہیں۔ اس مقدس شعبہ میں ایسی کالی
بھیڑیں شامل ہیں جو عوام الناس کی جمع پونجی بٹورکرانہیں موت کے منہ میں
دھکیل رہی ہیں۔ اسی طرح آئے روز اخبارات اور ٹی وی چینلز پر رپورٹس دیکھنے
کو ملتی ہیں جس میں مسیحا قاتل بن کر درندگی کی مثالیں قائم کرتے ہیں۔
شہری انتظار حسین نے کہا کہ ہرعلاقے میں آپ کو عطائی ڈاکٹر سے جعلی پیروں
اور نیم حکیموں کے ڈیرے، بڑے بڑے دلکش اوردعوؤں پر مبنی بورڈ آویزاں کر کے
شریف النفس اور سادہ لوح عوام کو جہاں بیوقوف بنا رہے ہیں وہاں ان سے پر
دونوں ہاتھوں سے پیسے بھی لوٹ رہے ہیں اور اپنی تجوریاں بھی بھر رہے ہیں ان
کو کوئی پوچھنے والا نہیں ہومیو پیتھک کی آڑ میں انگلش کی ادویات کا بھی بے
دریغ استعمال کیا جارہا ہے ۔ غلط تشخیص اور غیر معیاری ادویات کی وجہ سے
بیشمار قیمتی جانیں ضائع ہو چکی ہیں لیکن موت کے سوداگر ناتجربہ کار ڈاکٹر
دھڑلے سے اپنا مضموم دھندہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔جہاں سادہ لوح شہری دھوکا
کھا کر دیگر موذی امراض میں مبتلا ہو رہے ہیں اور کئی قیمتی جانیں ضائع ہو
چکی ہیں۔ متعدد مرتبہ اخبارات میں خبروں کی اشاعت ہونے کے باوجود محکمہ صحت
کے ذمہ داران کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگی۔اکثر سننے میں آتاہے کہ محکمہ
صحت کے بعض افسران اور ڈرگ انسپکٹر نے عطائی ڈاکٹروں سے باقاعدہ منتھلیاں
مقرر کر رکھی ہیں جس کی وجہ سے عوام کی آواز اور صحافیوں کا لکھنا بھی بے
اثر ہو جاتا ہے اور عطائیوں کے علاج کی وجہ سے بے شمار سادہ لوح شہری موت
کی وادی میں چلے جاتے ہیں ، اسکے باوجود موت کے سوداگر دھڑلے سے عوامی
جانوں سے کھلواڑ جاری رکھے ہوئے ہیں اور اکثر و بیشتر تو ہسپتالوں اور
کلینکوں میں ہومیو پیتھک ڈاکٹروں نے ایلوپیتھک کی ادویات رکھی ہوئی ہیں اور
سادہ لوح شہریوں کو دونوں ہاتھوں سے لوٹنے میں مشغول ہیں۔
باکس:
عطائیوں اور ان کی وجہ سے معاشرہ جن مسائل سے دوچار ہے اس حوالے سے ڈینٹسٹ
نعمان طارق نے ’روزنامہ انصاف‘ سے خصوصی بات کی،جو قارئین کی نذر ہے۔ جنرل
پریکٹس کے علاوہ شہر میں عطائی دانتوں کے ماہرین لا تعداد موجود ہیں۔ جن
میں سے اکثریت 2سے 3سال کسی ڈینٹسٹ کے پاس کام کرتے ہیں اور پھر اپنا
دانتوں کا کلینک کھول لیتے ہیں۔ اس وقت شہر میں گنتی کے صرف چند کوالیفائیڈ
ڈینٹسٹ کام کر رہے ہیں، جبکہ درجنوں کی تعداد میں نان کوالیفائیڈ ڈینٹسٹ
اپنے کلینک چلا رہے ہیں۔ محکمہ صحت کی اس مجرمانہ غفلت کی وجہ سے معصوم
شہریوں میں دانتوں کے خطرناک مسائل پیدا ہو رہے ہیں۔ یہ نان کوالیفائیڈ
ڈینٹسٹ دانتوں کی صفائی سمیت دانتوں کے دیگر مسائل کو جدید ترین آلات سے
ٹھیک کرنے کا دعویٰ کرتے ہیں مگر حقیقت میں وہ ان جدید ترین آلات کو ٹھیک
سے استعمال کرنا بھی نہیں جانتے اور معصوم شہریوں کے مسائل حل کرنے کی
بجائے کسی اور بیماری میں مبتلا کر رہے ہیں۔اصل میں ہمارے ملک میں قوانین
بنتے ہیں مگر ان پر ٹھیک سے عمل درآمد نہیں کیا جاتا،جب سے پنجاب ہیلتھ
کئیر کمیشن کا قیام عمل میں آیا ہے ، تب سے ہی یہ ادارہ عطائیوں کے اڈوں کو
سیل اور ان کو جرمانے کر رہا ہے مگر ہوتا یہ ہے کہ جرمانہ ادا کرنے کے بعد
وہی عطائی دوبارہ سے اپنا کلینک چلانے لگتا ہے ۔اگر ہم امریکہ اور کینیڈا
اور دیگر بیرون ممالک کی بات کریں تو وہاں بھی اس حوالے سے سخت قانون بنایا
گیا ہے جس میں کوالیفائیڈ ڈاکٹر اور ڈینٹسٹ کو پابند کیا جاتا ہے کہ وہ سب
سے پہلے اپنے کلینک کو رجسٹرڈ کروائیں اوربعد میں اس معاہدے پر سختی سے عمل
کریں کہ ان کی اولاد میں سے کوئی اس کلینک کو ان کے بعد نہیں چلائے گا،مگر
پاکستان میں تو ایسا عام ہے،ضرورت اس امر کی ہے کہ محکمہ صحت عطائیوں کے
خلاف سخت قوانین مرتب دے تاکہ پاکستان کے معصوم شہری ان عطائیوں کے چنگل سے
نکل سکیں۔ |