شعر دعا، رضا اور عطا کا معاملہ ہے

 میرے ہم عصر شاعروں میں کوئی بھی ایسا نہیں جو مجھ سے زیادہ مشاعروں میں بلایا گیا ہو یا مجھ سے زیادہ پیسے لیتا ہو
کچھ لوگ چاہتے ہیں کہ رحمان فارس مشاعروں میں آئے تو گردن گھر رکھ کر آئے ، اس کا چہرہ کسی کو نظر آئے نہ اس کے کندھے پر لگے بیجز
منفرد لب و لہجے کے شاعر رحمان فارس سے خصوصی انٹرویو
انٹرویو:عشرت جاوید
تصاویر: شہزاد اقبال
رحمان فارس اردو شاعری کا وہ نیا نام ہے جس نے کم عمری میں بے پناہ مقبولیت حاصل کی ہے۔وہ نوجوان نسل کے نمائندہ شعرأ میں سے ایک ہیں۔ ان کی شاعری گو محبت کی ہے لیکن انہوں نے محبت کو بھی نئے زاویوں سے پیش کیا ہے۔ سادہ اورعام فہم لفظوں میں گہری بات کہنا ان کا خاصہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے اشعار زبان زدعام ہو جاتے ہیں۔ رحمان فارس خود اپنے بارے میں کچھ یوں لکھتے ہیں۔ ’’غلام مولائے سخن ہیں فارس‘‘۔ ان کی شاعری میں عشق نئے مفاہیم کے ساتھ سامنے آتا ہے اور وہ اس موضوع کو نئے ڈھنگ سے باندھنے کا ہنر خوب جانتے ہیں۔ منفرد لب و لہجے کے شاعررحمان فارس27 فروری1977 کو پیدا ہوئے۔ وہ پیشے کے لحاظ سے سول سرونٹ ہیں۔ اس کے علاوہ وہ کالم نگار، ڈرامہ نویس اور اینکر پرسن بھی ہیں۔ حال ہی میں رحمان فارس سے ہم نے خصوصی نشست کی۔ اس موقع پر ان سے ہونے والی گفتگو قارئین کی نذر ہے۔
سوال: ادب سے وابستگی کب ہوئی ؟۔
رحمان فارس:(ہنستے ہوئے)اکثر شعرأ حضرات کا اس سوال پریہ جواب ہوتا ہے کہ جناب ہم نے جب سے ہوش سنبھالا ہے تب سے ہی شعر کہنے لگے ہیں۔میں یہ بالکل نہیں کہوں گا ۔ لیکن ایک بات ہے وہ یہ کہ تناسب، توازن، ردھم، یہ تینوں مجھے بچپن ہی سے اپنی جانب متوجہ کرتے تھے۔ شاعری کیا ہے اور میں نے اس کو کیسے سمجھا اس کا جواب کچھ یوں ہے اور جو میں کہنے والا ہوں۔ میری اس بات سے آپ بھی متفق ہوں گے کہ کائنات کی کوئی بھی چیز غیرمتوازن ہے نہ غیرمربوط۔ جب توازن اور تناسب کو ہم لفظوں میں بیان کردیں تو شعر اور نظم بن جاتا ہے اور اگر آپ وہی تناسب اور توازن رنگوں میں لے آئیں تو پیٹنگ بن جاتی ہے۔ مجھے یاد ہے کہ جب میں سات سال کا تھا تو مجھے نصرت فتح علی خان اور غلام فرید صابری کی قوالیوں کا ردھم اپنی جانب متوجہ کرتا تھا۔ اس وقت میں مصرعوں کی ترتیب کو سمجھنے کے قابل تو نہیں تھا مگرمیں یہ سوچنے پر مجبور ہو جاتا تھا کہ اس میں ایسی کیا چیز ہے جو مجھے اپنی جانب کھینچتی ہے۔ بعد میں پتہ چلا کہ کسی بھی مصرعے میں اپنائیت اور موسیقیت کو سمجھنے کی اہلیت کسی بھی شاعر کے اندر بچپن سے ہوتی ہے اگروہ شاعر ان احساسات کو پروان نہیں چڑھاتا تویہ احساسات اس کے اندر ہی کہیں مر جاتے ہیں۔ ہمارے پاس بہت سے ایسے لوگ موجود ہیں جنہوں نے اپنی ان صلاحیتوں کو پروان نہیں چڑھایا۔ اس حوالے سے باقاعدہ قول ہے کہ’’اس کے اندر شاعر توپیدا ہوا مگر پروان نہیں چڑھ سکا‘‘۔ لہٰذا ہر شخص کے اندر قدرت نے کچھ چیزیں ودیعت کی ہوتی ہیں۔ اس لئے انسان کو سب سے پہلے ان چیزوں کو پہچانا ہوتا ہے پھر ان کو پالش کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ میرا تعلق بورے والا جیسے چھوٹے سے شہر سے ہے۔ ہمارے گھر کا ماحول تعلیمی تھا کیونکہ میرے ابو لائبریرین تھے۔ انہوں نے گھر میں ایک کتابوں کا سلسلہ رکھا ہوا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ میں نے کلاس ششم میں ہی رومی، سعدی اور دیگر انگریزی رائٹرز کی کتابوں کا ترجمہ پڑھ لیا تھا۔ گزشتہ سال نومبر میں جب میں انگلینڈ گیا تو مجھے وہ یادگار ناول یاد آگیا جو میں نے اس زمانے میں پڑھا تھا۔ تب مجھے اندازہ ہوا کہ بچپن میں جو آپ کی ٹریننگ ہوئی ہوتی ہے چاہے آپ شاعر، نثر نگار، موسیقار یا آرٹسٹ ہوں وہی ’’رگڑا‘‘ آپ کے کام آتا ہے۔ بورے والا میں ہی میرے بچپن کے اہم دور کا آغاز ہوا۔ گھر کے کتابی ماحول نے مجھے آج شاعر بنادیا ہے۔ اس زمانے ہی سے احمد ندیم قاسمی، احمد فراز اور فیض احمد فیض اور دیگر نامور شعرأ کو پڑھنا شروع کردیا تھا۔
سوال:باقاعدہ شاعری کا آغاز کب کیا اور آپ کس سے متاثر ہوئے کیونکہ آپ نے بتایا کہ آپ نے بچپن ہی میں نامور شعرأ حضرات کو پڑھنا شروع کر دیا تھا؟۔
رحمان فارس:جی بالکل، میں نے بچپن ہی سے مختلف ادب پڑھے اور جہاں تک بات ہے شعر کہنے کی تو مجھے یاد ہے کہ میں نے کلاس ششم میں پہلا شعر کہا۔ اب وہ شعر تو مجھے یاد نہیں،مگر انہی وقتوں میں ،میں نے چھوٹی چھوٹی نظمیں کہنی شروع کردی تھیں۔سب سے دلچسپ بات یہ ہے کہ میں نے پہلا شعر اپنی انگریزی کی ٹیچر سے متاثر ہو کر کہا تھا کیونکہ کلاس ششم میں ہی میں نے انگریزی پڑھنا شروع کی۔ اس زمانے میں گورنمنٹ سکولوں میں پنجم کلاس تک انگریزی نہیں پڑھائی جاتی تھی۔ اس لئے یہ کلاس میرے لئے بہت اہم تھی کیونکہ اس کلاس میں میں نے ایک دوسری زبان جاننا شروع کی تھی۔الحمدﷲ!میں نے 2004 میں سی ایس ایس کے امتحان میں انگریزی میں ٹاپ کیا جس میں ایچی سن کالج، گورنمنٹ کالج یونیورسٹی اور آکسفورڈ کے تعلیم یافتہ افراد شامل تھے۔جب میں نے ٹاپ کیا تو جنرل صاحب (جو چیئرمین پبلک سروس کمیشن تھے،اﷲ انہیں جنت نصیب کرے) نے مجھے پوچھا کہ آپ کی ایجوکیشن کہاں کی ہے کیونکہ آپ کا انگریزی میں لب و لہجہ بہت زبردست ہے تو میں نے ا ن کو بتایا کہ میں نے تو کلاس ششم تک انگریزی پڑھی ہی نہیں ۔ وہ یہ سن کر بہت حیران ہوئے۔باقاعدہ کہنے لگے کہ مجھے یقین نہیں آرہا۔انہوں نے میری میٹرک کی سند دیکھی ،تو میں نے ان سے کہا کہ اگر بچے میں پڑھنے کی صلاحیت اور استاد میں پڑھانے کی لگن ہو توگورنمنٹ سکول سسٹم میں کوئی برائی نہیں ہے۔
سوال: نوآموز ہونے کے باعث شاعری میں اصلاح کس سے لیتے تھے؟۔
رحمان فارس:جب میں نے پہلی بار کلاس ششم میں شعر کہنا شروع کیا ۔اصلاح کا دور ابھی بہت دور ہے اس سے پہلے میں آپ کو بتاتا چلوں کہ میرے والد کی سعودیہ عرب پوسٹنگ ہو گئی تو تمام فیملی وہاں شفٹ ہو گئی۔ میرے والد وہاں یونیورسٹی میں پڑھاتے تھے میں بھی وہاں یونیورسٹی میں پڑھنے لگا۔اس وقت تک میں نظمیں ،غزلیں کہتا تھا۔ الحمد ﷲ،میں نے کبھی بے وزن نہیں لکھا۔ بچپن ہی سے ہی مجھے تناسب کا ایک خاص ادراک تھا۔سعودی عرب میں تعلیم ختم ہونے کے بعد میں پاکستان واپس آیااورپاکستان ائیر فورس اکیڈمی سے ٹریننگ لی۔ کچھ عرصہ ائیر فورس سے وابستہ رہامگر پھر واپس سعودی عرب چلا گیا۔وہاں بھی جاب کی لیکن اس دوران بھی مجھے لگتا تھا کہ اگر ایک شاعر اپنی زمین کے ساتھ جڑا ہو ا نہیں ہے تو وہ اپنے اندر بھی کہیں سے کٹا رہتا ہے۔ تو اس وجہ سے میں نے اپنے والدین سے کہا کہ مجھے واپس پاکستان جانا ہے پھر انہوں نے سی ایس ایس جوائن کرنے کا مشورہ دیا۔پاکستان واپسی پر میری ائیرپورٹ پرممتاز شاعر عباس تابش سے ملاقات ہوئی ۔وہاں ان کے ساتھ شاعر شکیل جاذب بھی تھے۔ ہم لوگ ائیرپورٹ پر بیٹھے باتیں کررہے تھے تو میں نے ان کو کہا کہ سر میں شعر کہتا ہوں تو انہوں نے کچھ سنانے کی فرمائش کر ڈالی۔ میں نے اپنی ابتدائی غزل سنائی۔ان میں سے ایک شعر سن کر وہ چونکے ،اور کہنے لگے کیا خوب شعر کہا۔ اس کے بعد تابش صاحب نے میری اصلاح کیلئے چند ٹپس دیں اور کہا کہ اصلاح کیلئے بہترین طریقہ یہ ہے کہ فی الحال میں تمہیں ایک کتاب دیتا ہوں۔ 3 ماہ تک تم نے یہ کتاب پڑھنی ہے اورخود کو اس کتاب میں ڈھا لنا ہے اور سب سے ضروری بات کہ اس دوران یعنی ان تین ماہ کے عرصہ میں کتاب کو ختم کرنے سے پہلے تم نے کوئی شعر نہیں کہنا۔ میں بھی نئے آنے والے شعرأ کو اسی کتاب کے مطالعے کا مشورہ دیتا ہوں۔ اس کتاب کا نام تھا ’’شعر شعورانگیز‘‘جس کے مصنف شمس الرحمن فاروقی ہیں۔یہ کتاب تین جلدوں پر مشتمل ہے۔میں نے اس کتاب کو پڑھا اور عباس تابش کی ٹپس پر عمل کیااورمیں نے ان کی ہی شاگردی میں شعر کو لکھا اورسیکھا۔
سوال: ادب میں کسی کو استاد بنانا اور کسی کا فیض نظر ہوناظاہر ہے بہت ضروری ہوتا ہے مگراس کو سکینڈلائیز کیوں کیا جاتا ہے؟ مطلب یہ کیوں کہا جاتا ہے کہ رحمان فارس کی شاعری میں بہت ساری عطا عباس تابش کی ہے۔
رحمان فارس:(ہنستے ہوئے) اس سوال کا جواب صرف ایک لفظی ہے وہ ہے ’’حسد‘‘۔ الحمدﷲ، میں اﷲ کا شکر ادا کرتے ہوئے کہتا ہوں کہ میرے ہم عصر شاعروں میں کوئی شاعر بھی ایسا نہیں ہے جو مجھ سے زیادہ مشاعروں میں بلایا گیا ہو یا دنیا بھر کے مشاعروں میں گیا ہو اور مجھ سے زیادہ پیسے لیتا ہو۔ مجھے امریکہ، یورپ کے مشاعروں میں اکثر سننے کو ملا کہ فلاں شاعر تو کہہ رہا کہ مجھے آپ بغیر پیسوں کے مدعو کرلیں مجھے کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ اس کے جواب میں میرا کہنا ہوتا ہے کہ میں اپنا وقت ، اپنی جاب، اپنے بچے اور سب چھوڑ کریہاں آتا ہوں۔اس لیے پیسے لینا میرا حق ہے،کیونکہ اکثر لوگ سمجھتے ہیں کہ وہ شاعر ہے تو پذیرائی کے شوق میں آ ہی جائے گا مگر میں ایسا نہیں سمجھتا۔ الحمدﷲ جب ان لوگوں کی مجھ تک رسائی نہیں ہوتی تو ان لوگوں نے مجھ پر الزام لگایا کہ یہ تو خود لکھتا ہی نہیں ہے۔۔۔ رحمان فارس توخود شعر کہتا ہی نہیں ہے۔دیکھیں نوازنا تواﷲ نے ہی ہوتا ہے اس لئے میں آج آپ کے اخبار کے توسط سے کہنا چاہوں گا اور واضح کرتا چلوں کہ میں یہ اس سے پہلے بھی کئی فورمز پر کہہ چکا ہوں کہ جس کوبھی اس بات پر اعتراض ہے وہ کسی بھی فارم پر اپنی مرضی سے تین جج چنیں اور جو مرضی مصرع لے کر آئیں۔میں اﷲ کی اطاعت سے اس سے بہتر نظم کہہ کر دکھاؤں گا چاہے وہ سینئر ہے یا جونیئر۔ الحمدﷲ۔اس کے باوجود کہ میں ان لوگوں کو جوابدہ نہیں ہوں۔
سوال:اکثر سننے میں آیا ہے کہ آپ کی شاعری بہت خوبصورت ہے مگر اس میں گہرائی نہیں ہے،ایسا کیوں کہا جاتا ہے؟۔
رحمان فارس:الحمد ﷲ 90فیصد میری شاعری حقیقت پسندانہ ہے ،لگتاہے ایسا کہنے والوں نے شاید میرا ’’شامی بچوں کا نوحہ‘‘نظم نہیں پڑھی اور نہ ہی خواتین کے عالمی دن کے حوالے سے میری کہی گئی شاعری پڑھی ۔چلیں!میرے ہم عصروں میں سے ایک بھی ایسا شاعر بتادیں جس نے مرثیہ لکھا ہو؟میں نے اﷲ کی اطاعت سے 99بند کا مرثیہ لکھا ہے۔
سوال:آپ ماشاء اﷲ ، اتنے اچھے عہدے پر ہیں ،آپ پر یہ بھی الزام ہے کہ رحمان فارس کو اس لئے مشاعروں میں بلایاجاتا ہے کیونکہ وہ ایک افسر ہے اس بارے میں آپ کیا کہنا چاہیں گے۔
رحمان فارس:میں ان باتوں سے بہت انجوائے کرتا ہوں کیونکہ ایسی باتیں ابھی تک میری پذیرائی میں کمی نہیں لاسکیں ۔
سوال:آپ کی شہرت کے پیچھے عہدہ کس قدر اہم ہے؟۔
رحمان فارس:رحمان فارس کو اﷲ نے مکمل پیکیج بنایا ہے ،مجھ پر یہ بھی الزام ہے کہ رحمان فارس کو اس نے عہدے کے بل بوتے شہرت حاصل ہے۔لوگ یہ چاہتے ہیں کہ رحمان فارس مشاعروں میں آئے تو گردن گھر رکھ کر آئے ، اس کا چہرہ کسی کو نظر آئے نہ اس کے کندھے پر لگے بیجز۔اگر کسی کو اس پر اعتراض ہے تو یہ اس کا معاملہ ہے میرا نہیں۔
سوال:فارس یہ بتائیے کہ کسی کی شاگردی حاصل کرنے کیلئے صرف باصلاحیت ہونا ضروری ہے یا کسی عہدے پرفائز ہونا؟ ۔
رحمان فارس:بلاشبہ شاگردی حاصل کرنے کیلئے باصلاحیت ہونا ضروری ہے ،اب میں اس حوالے سے جرنلائز تو نہیں کروں گا کیونکہ سب ایک جیسے نہیں ہوتے لیکن ہماری بدقسمتی یہ ہے کسی کی اچھی شکل اور اچھا عہدہ ہی اس کیلئے طعنہ بنا دیا جاتا ہے۔ خاص طورپر شاعرات کیلئے ۔ اس کو اس لئے معاشرے میں بلایا جاتا ہے کیونکہ یہ ایک افسر ہے ،اس کو اس لئے پذیرائی دی جاتی ہے کیونکہ یہ اچھانظرآتا ہے ،اس قسم کی باتیں نا صرف عام ہیں بلکہ کسی کے ساتھ بھی بآسانی منسوب کردی جاتی ہے۔خواتین کیلئے تین، چار گنا زیادہ اذیت ناک ہے۔ ان کو سب سے پہلے یہ ثابت کرنا پڑتا ہے کہ یہ میں نے خود لکھا ہے یا یہ میری اپنی تخلیق ہے دوسرا یہ ثابت کرنا پڑتا ہے کہ استاد سے میرا محض شاگردی کا تعلق ہے۔ایک بات بتاتا چلوں میری بیٹی صرف دس سال کی ہے اس نے انگریزی میں نظم لکھی ہے۔ میں یہ سوچ رہا تھا کہ انگریزی کے رائٹرز میں ابھی یہ والی وبا نہیں پھیلی۔ وہاں پر خواتین لکھتی ہیں تو مانی بھی جاتی ہیں۔
سوال: پاکستان میں مردوں کی اجارہ داری کی وجہ سے یہ سمجھا جاتا ہے کہ خواتین میں شعر کہنے کی صلاحیت نہیں ہے۔ایسا کس حد تک درست ہے؟۔
رحمان فارس:ایسا نہیں ہے پاکستانی خواتین بہت باصلاحیت ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہر میدان میں اپنی صلاحیت اور محنت سے اعلیٰ مقام پر ہیں ۔ ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہمارا معاشرہ اتنی آسانی سے خواتین کی ترقی کو ہضم نہیں کرتا۔ بہت کم تعداد ہے ایسے بھائی، شوہریا باپ کی جو کھلے دل سے تسلیم کریں کہ ان کی بیوی، بہن یا بیٹی شعر کہے۔
سوال: یہ جو ادبی تنظیمیں بنی ہوئی ہیں یہ کیا کردار ادا کررہی ہیں؟۔
رحمان فارس:ادبی تنظیمیں اور حلقوں کو آپ نے بہت مہذب انداز میں پکارا ہے۔ میرے نزدیک یہ دھڑے بندیاں اور گروہ بندیاں ہیں ،جہاں4سے 5 لوگ اپنے مفادات کے حصول کیلئے اکٹھے ہوتے ہیں نیز دوسرے شعرأ حضرات کو بالکل بے وزن قرار دیا جاتا ہے۔اس حوالے سے میں نے مغرب کو پڑھا کہ وہاں یہ گروہ بندیاں اور تنظیمیں کس حد تک کام کرتی ہیں ،میرا یہ پڑھنے کا مقصد یہ تھا کہ میں یہ جان سکوں کہ انگریزی ادب میں کوئی ایسا گروہ پایا جاتا تھا یاہے تو عیاں ہوا کہ وہاں5سے6افراد مل کر اپنے ہی لوگوں کو آگے آنے کا موقع دیتے ہیں ۔وہاں دھڑے بندیاں اس شدت سے موجود نہیں جتنی پاکستان میں ہیں۔ وہاں ایسا سسٹم ضرور موجود تھا کہ کچھ لوگ ایک جگہ مل کر بیٹھتے تاکہ ایک دوسرے سے کچھ سیکھ سکیں اور اہم بات یہ ہے کہ اس نشست میں کوئی بھی فرد شرکت کرسکتا ہے کسی قسم کی روک ٹوک نہیں۔ہمارے ہاں شروع میں پاک ٹی ہاؤس میں یا ناصرکاظمی کے ہاں نشستیں ہوا کرتی ہیں۔ اس میں کوئی بھی جاسکتا تھا جس کو ادب سے دلچسپی ہوتی ہے خواہ کوئی کوچوان ، فقیر، راہگیر ۔جب ان محفلوں میں بیٹھتے تھے تو کچھ نہ کچھ سیکھ کر ہی اٹھتے تھے۔تب ایسانہیں ہوتاتھا کہ فلاں تقریب میں،میں آپ کے نام کی پرچی دے دوں گا اور فلاں میں آپ میرے نام کی پرچی دے دینا مگر اب ایسی ہی صورتحال پائی جاتی ہے۔
سوال: آپ کا کسی تنظیم سے تعلق ہے؟ اگر نہیں تو کیا آپ مستقبل میں کسی تنظیم کا حصہ بنیں گے یا کوئی تنظیم بنانے کا ارادہ ہے؟۔
رحمان فارس:الحمدﷲ، میرا ابھی تک کسی تنظیم سے کوئی تعلق نہیں ہے اور نہ ہی مجھے کسی تنظیم کا حصہ بننے کی ضرورت ہے۔ اس لئے تنظیم بنانے کا بھی کوئی ارادہ نہیں ہے کیونکہ وقت بھی نہیں ہے۔
سوال:جن لوگوں نے تنظیمیں بنائی ہوئی ہیں وہ استاد کم باقاعدہ’ پیر‘ بنے بیٹھے ہیں اور کسی کی گستاخی برداشت کرنا ان کے بس کی بات نہیں۔کیا ہمارے موجودہ دور کے شاعر حضرات اور ادیب خودپسند اور متکبر ہوتے جارہے ہیں؟۔
رحمان فارس:دیکھیں جی!میرا اپنا نظریہ یہ ہے کہ ایسے رویے اپنانے سے آپ کبھی بھی پیر نہیں بن سکتے ہاں البتہ اچھے مصرع کے بل بوتے پرآپ پیر بن سکتے ہیں مگر ایسے لوگ یہ سمجھنے سے قاصر ہیں۔ میرا ایسے لوگوں کومشورہ ہے کہ مصرع کے بل بوتے پر پیر بنیں کیونکہ ہم آپ کومصرع پر ’پیر‘مانیں گے ۔
سوال:ایک شاعر کی شخصی بے اعتدالیاں ادب اور شاعری پر کس طرح اثراندازہوتی ہیں؟۔
رحمان فارس:جہاں تک شخصی بے اعتدالی کی بات ہے تو واضح رہے کہ اﷲ نے بہت بدخصائل انسانوں کو بھی اچھی شاعری عطا کی ہوئی ہے حالانکہ عموماً یہ کہا جاتا ہے کہ’ اچھا انسان ہی اچھاشاعر ہوتا ہے‘۔ہمارے معاشرے میں بہت سے ایسے لوگ بھی ہیں جو شایدکبھی اچھے انسان تو نہ بن سکیں مگر وہ اچھے شاعر ضرور ہیں۔میرا اس حوالے سے نظریہ ہے کہ برائے کرم ،آپ فن اور شخصیت کو الگ الگ دیکھیں کیونکہ یہ کسی بھی ایک فرد کی دوالگ جہتیں ہیں ۔ آپ اس کے فن اور شخصیت کوالگ الگ نگاہ سے ہی دیکھیں، دونوں کو مکس مت کریں۔جب آپ کسی شخص کی پرسنلیٹی کے بارے میں بات کریں تو اس کو بطور شاعر مت دیکھیں اوراگر اس شخص کی شاعری کے بارے میں بات کر رہے ہیں تو اس کی پرسنلیٹی کو مت دیکھیں۔
سوال: زیادہ تر ادیب اور شعرأ خود پسند ہوتے ہیں کیا آپ اس سے اتفاق کرتے ہیں؟۔
رحمان فارس:دیکھئے جی!خود پسندی ایک حد تک بہت ضروری ہے لیکن اس سے آگے نرگسیت کا مرض لاحق ہوجاتا ہے۔ موجودہ دور میں ہر دوسرے شاعر، چاہے اس نے ڈیڑھ مصرع ہی کیوں نہ کہا ہو،اس میں ایک مرض پیدا ہوتا ہے۔ جسے میں خبطِ عظمت کا نام دیتا ہوں۔ یعنی اس ڈیڑھ مصرع کہنے والے کو پہلے ہی مصرع سے خبط ہوجاتا ہے کہ وہ عظمت کے اس بلند ترین مقام پر ہے جہاں میر و غالب بھی نہیں تھے اور حال یہ ہے کہ (نہایت افسوس کے ساتھ یہ بتا رہا ہوں) کہ یہ لوگ اپنے حواریوں کو اپنے دوستوں کو یہ کہتے ہیں کہ ہم میر و غالب کو کیوں پڑھیں، ناصر و فیض کو کیوں پڑھیں ۔ بھئی ان کو پڑھنے سے ہماری انفرادیت متاثر ہوتی ہے۔ یعنی ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ ہم اپنے آباؤاجداد کو رد کررہے ہیں۔ایسے شعرأ حضرات یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ ہر شعر کا شجرہ ہوتا ہے اور کوئی مضمون دنیا میں نیا مضمون نہیں ہوتا۔
سوال: آپ روایتی اور کلاسیکی شاعری سے متاثر ہیں اور آپ کی شاعری میں یہ عنصر دکھائی دیتا ہے۔ اس کی کیا وجہ ہے۔آج کل جو شاعری جدت کے نام پر ہورہی ہے کیا یہ کبھی تاریخی ادب کا حصہ بن پائے گی؟۔
رحمان فارس:جی بالکل،آج کل لوگ جدت کے نام پر محض صرف ’ٹر ٹر‘ سننا چاہتے ہیں صرف لفظوں کی ادائیگی سے جدت پیدا نہیں ہوتی بلکہ رچاؤ کے ساتھ لفظوں کو ادا کرنے کا نام شاعری ہے۔میں جدت کا اس قدر حد قائل ہوں کہ لفظ رچاؤ کے ساتھ نظر آئے۔ چاہے آپ فرنچ لفظ لے آؤ لیکن وہ رچاؤ کے ساتھ آئے نیز اس کی وہاں ضرورت ہو۔ آپ دیکھئے جرنلزم میں کالم کی عمر ایک دن کی گردانی جاتی ہے لیکن اس میں بھی چراغ حسن حسرت سے لے کر ابن انشا تک ایسی لامحدودیت پیدا کی کہ ان کے کام کو آج تک یاد رکھا گیا ہے۔اس لئے اگر ’میر‘ کے بعد شعر کہنے کا کوئی جواز نہیں ہے تو پھر’ میر‘ کے بعد پیدا ہونے کا بھی کوئی جواز نہیں ہے۔ ہر چیز کا اپنا جواز موجود رہتا ہے اور یاد رہے جب میں نے کہا کہ دنیامیں کوئی مضمون نیا مضمون نہیں ہوتا تواس کا یہ مطلب نہیں کہ آپ ترقی نہیں کرسکتے۔ اس حوالے سے فیض کا کیا اچھا شعر ہے:
انداز ِبیاں رنگ بدل دیتا ہے
ورنہ دنیا میں کوئی بات نئی بات نہیں
اس لئے شاعری میں بڑے سے بڑا شاعر کو بھی اپنے مصرعے کی نوک پلک سنوارنے، اس کی بنت، اس کی کیفیت اور اس کو بہتر سے بہتر بنانے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس کیلئے مطالعہ اشد ضروری ہے۔آپ کو شعر بے ساختہ لگنا چاہیئے، محسوس نہیں ہونا چاہیئے کہ اس پر بہت محنت ہوئی ہے اس لئے چاہے الہام ہوا ہے یا نہیں ،مگر اس پر محنت ضرور کرنی چاہیئے۔ نیز اس حوالے سے ایک مشہور رائٹر کا مقولہ ہے کہ’’میں ایک لکھنے والے سے ڈرتا ہوں کہ نا جانے کب کیا لکھ جائے‘‘۔اس لئے میں آمد کے حوالے سے لکھتا ہوں کہ’’ شعر دعا، رضا اور عطا کا معاملہ ہے اس کے بعد آپ کی محنت ہے‘‘۔ اس لئے کوشش بھی کرتے رہیں اور دعا بھی اور اگر اس کے بعد آپ کو اﷲ کی عطا ملتی ہے تو اس عطا کو سنوارنا ہی آپ کے ہاتھ میں ہے۔یوسفی کا اس بارے میں کہنا ہے کہ’’ جب میں کچھ لکھتا ہوں تو قدرتی عمل ہے کہ اس وقت آپ اس پر تنقیدی نظر نہیں رکھ پاتے لہذا میں جو لکھتا ہوں اس کو ایک طرف رکھ کر بھول جاتا ہوں کیونکہ کسی تحریر کو تنقیدی نظر سے دیکھنے کیلئے اس سے علیحدہ ہونا ضروری ہے اس لئے چھ ماہ یا سال بعد میں اس کو نکال کر دیکھتا ہوں یا آیا اس میں دم ہے یا یہ آگ لگادینے کے لائق ہے‘‘۔اسی طرح جب آپ ایک طویل عرصے بعد اسے نکال کر دیکھتے ہیں تویہ جانچنے کے قابل ہو جاتے ہیں کہ یہ کسی ہے۔
سوال: آپ کیا سمجھتے ہیں کہ سوشل میڈیا نے ادب کے حوالے سے مثبت کردار ادا کیا ہے یا منفی؟۔
رحمان فارس:میں ذاتی رائے ہے کہ سوشل میڈیا نے ادب کے حوالے سے مثبت کردار ادا کیا ہے۔ ہر شخص چاہتا ہے کہ اس کی لکھی ہوئی تخلیق لوگوں تک پہنچے ایسا صرف میڈیا(اخبار،ٹی وی یا ریڈیو) اور سوشل میڈیا کے توسط سے ممکن ہو پاتا ہے۔ سوشل میڈیا پر آپ کی وائرل ہوئی غزل پر اگر راتوں رات ڈھائی ہزار لائیکس اور 5سے 6بار شیئر ہو جائے تو آپ کو اندازہ ہو جاتا ہے کہ آپ نے کیسا لکھا ہے ۔ اس کا فائدہ مجھے بھی ہوا ،جیسے بین الاقوامی سطح پر مجھے سوشل میڈیا کے ذریعے ہی پذیرائی ملی۔ میری اپنی کتاب مؤخر کرنے کے پیچھے بھی جو تلوار ہے وہ سوشل میڈیا ہی ہے ،میں اب اسے توڑنے کے چکر میں ہوں کیونکہ سوشل میڈیا کی اہمیت اپنی جگہ،اس سے انکار کفرانِ نعمت کے مترادف ہے۔ الحمد ﷲ پچھلے دو ڈھائی سالوں میں اگر کسی شاعر کی سب سے زیادہ چیزیں وائرل ہوئی ہیں تو وہ میری ہیں۔
سوال:آپ کی کتاب کب تک آنے والی ہے؟۔
رحمان فارس:انشاء اﷲ بہت جلد میری کتاب آپ لوگو ں کے درمیان ہو گی ۔اب مزید کتاب سے تاخیر نہیں کی جائے گی۔ ابھی اس وقت میرے پاس ساڑھے 4کتابوں کا مواد موجود ہے جس کی میں نے ظالمانہ کانٹ چھانٹ کرنی اور کتابی شکل دینی ہے۔
سوال:کہا جاتا ہے آپ جو بھی’ مسدس ‘میں لکھتے ہیں وہ بے حد پسند کیا جاتا ہے ،اس کی کیا وجوہات ہیں؟۔
رحمان فارس:جی بالکل ،میرے بارے میں یہ مشہور ہے کہ میں جو بھی مسدس میں لکھتا ہوں وہ بہت پسند کیا جاتا ہے اور سوشل میڈیا پر بھی وائرل ہو جاتا ہے۔ میں نے مشال خان پر نوحہ لکھا،اے پی ایس شہدأپر نوحہ لکھا جو چیف آف آرمی سٹاف نے ان کی پہلی برسی پر پڑھا۔ اس کے علاوہ ایدھی پر لکھا،یہ سب مسدس میں ہے۔ میں امریکہ مشاعرہ میں گیا تو ایک دوست کہنے لگا کہ’’ تمہاری مسدس سے خوب دوستی ہے،جو بھی مسدس میں لکھتے ہو وائرل ہو جاتی ہے ،کیوں نہ تم مرثیہ لکھو‘‘۔ پھر میں نے مرثیہ لکھا ،مرثیہ میں 72بند کو ٹارگٹ اور اﷲ سے دعا کر کے لکھنا شروع کیا۔9محرم آنے میں ابھی ڈیڑھ ماہ باقی تھا ،تقریباً 10دنوں میں ،میں نے52بند تحریر کر لئے اور بہت خوش ہوا کہ ابھی 9محرم آنے میں کافی دن ہیں ،مگر3ہفتے کی سر توڑ کوشش کے باوجود میں مزید کچھ نا لکھ پایا۔میں بڑا پریشان ہوا میں نے عباس تابش اور افتخار عارف سے بھی بات کی کہ مجھے باقاعدہ بندش محسوس ہو رہی ہے تو انہوں نے کہا کہ یہ مدحتِ اہل بیت کا معاملہ ہے اس حوالے سے آپ کو یقین کر لینا چاہیئے کہ یہ آپ کے پاس اپنا کچھ نہیں ہے یہ آپ کو عطا کی جاتی ہے،یعنی عقیدت کی شاعری آپ کوملتی ہی ہے،پھر میں نے اﷲ سے دعا اور توبہ کے بعد دوبارہ لکھنا شروع کیا تو یقین نہیں کر پائیں گے کہ میں نے 72بند کی بجائے99بند لکھے۔اس کے علاوہ شامی بچوں کا نوحہ میں نے اپنی دو سالہ بیٹی کو ذہن میں رکھ کر لکھا۔
سوال:آج کل شاعر حضرات ایک دوسرے کو شاعر تسلیم نہیں کررہے ہوتے، کئی نامور شعرأ کو دوسرے شعرأکہتے ہیں یہ بھی کوئی شاعر ہے تو اس کی وجوہات کیا ہیں؟
رحمان فارس:جی بالکل،یہ عام بات ہے کہ ایک شاعر دوسرے کو شاعر تسلیم کرنے سے انکاری ہوتا ہے۔کہا جاتا ہے کہ ایک شاعر جب دوسرے شاعر کے پاس بیٹھتا ہے تو کہتا ہے کہ ایک تو شاعر اور ایک میں۔مجھے یہ لگتا ہے کہ شعر،کتاب سے دماغ تک،دماغ ست دل تک اور دل سے حافظے تک سفر کرنے کی صلاحیت ہوتی ہے اور جس کا شعر لوگوں کی زبان پر عام ہو جائے وہی اصل شاعر ہے،لوگ ایک ایک مصرع پر زندہ ہیں ۔

٭٭٭٭٭

Ishrat Javed
About the Author: Ishrat Javed Read More Articles by Ishrat Javed: 70 Articles with 92485 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.