انجمن ترقی اردو پاکستان کی لائبریری جوبابائے اردو مولوی
عبدلحق کے کتب خانہ عام و کتب خانہ خاص پر مشتمل ہے اب اس میں بے شمار کتب
کا اضافہ ہوچکا ہے۔ اردو ادب کے حوالہ سے یہ لائبریری شہر کراچی کی ایک
معتبر و معروف لائبریری شمار ہوتی ہے۔ گلشن اقبال سے اب یہ لائبریری کراچی
کے علاقے گلستان جوہر میں نو تعمیر شدہ انجمن ترقی اردو کی عمارت’’اردو
باغ‘‘ منتقل کی جارہی ہے۔ مَیں اس لائبریری سے استفادہ کرنے والوں میں سے
ہوں، دوسرے تیسرے روز لائبریری میں حاضری میرا معمول ہے۔ اس کی ایک وجہ اس
کا میرے گھر سے نذدیک ہونا بھی ہے۔ لائبریری جس جگہ منتقل ہورہی ہے وہ میرے
گھر سے اور زیادہ قریب ہے ۔ میں مطمئن ہوں کہ میرا تعلق اس لائبریری سے جڑا
رہے گا۔ اس میں خدمات انجام دینے والے تمام احباب اچھے اخلاق کے حامل ہیں۔
سب ہی میرا بہت احترام کرتے ہیں، زبان سے کچھ نکلنے کی دیر ہوتی ہے کتاب
سامنے آجاتی ہے۔ چند میرے شاگرد بھی ہیں وہ زیادہ ہی خیال کرتے ہیں۔ محمد
معروف، زبیر جمیل، جاوید اختر، عذیر جمیل ، کامران اور جاوید خان لائبریری
کے عملے میں شامل ہیں یہ تعاون کرنے والے اور قارئین کی رہنمائی کرنے والے
ہیں۔
انجمن ترقی اردو کا قیام 1930ء میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں عمل میں آیا
تھا ۔ انجمن علی گڑھ سے 1938 ء میں اونگ آباد (دکن) منتقل ہوئی ، اس کے بعد
ایک اور ہجرت اس ادارے اور اس کے کتب خانے نے قیام پاکستان کے بعد کی ۔
1949ء میں انجمن اور کتب خانہ عام و کتب خانہ خاص بابائے اردو مولوی عبدا
لحق کے ساتھ پاکستان منتقل ہوگیا ۔قدیم کراچی شاردا مندر ایک پرانی عمارت
تھی وہ بابائے اردو حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے۔یہ بابائے اردو روڈ ، نذد
سول اسپتال کے پاس ہے ، اب یہ فیڈرل اردو یونیورسٹی کا بابائے اردو کیمپس
کہلاتا ہے۔ یہی انجمن ترقی اردو پاکستان کا دفتر بھی تھا، بابائے اردو
مولوی عبد الحق بھی اسی دفتر میں بیٹھا کرتے تھے۔ کتب خانہ عام و خاص بھی
اسی جگہ قائم تھے ۔ انجمن ترقی اردو کے قائم کردہ اردو کالج نے وفاقی اردو
یونیورسٹی کا روپ اختیار کر لیا، انجمن کا دفتر اور کتب خانہ 1990ء میں
گلشن اقبال بلاک 7میں ایک بنگلہ میں منتقل ہوگیا۔ انجمن کے لیے اپنی بلڈنگ
کی جدجہد جاری رہی ، مکمل ہونے پر صدر پاکستان جناب ممنون حسین نے انجمن کی
نئی عمارت ’اردو باغ‘ کا باقاعدہ افتتاح کیا۔ اب انجمن کے دفاتر اور کتب
خانہ اردو باغ منتقل ہورہے ہیں۔
کتب خانے کے مہتمم محمد معروف کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ یہ کتاب خانہ1990ء
میں انہیں کی نگرانی میں گلشن اقبال منتقل ہوا اور اب گلشن اقبال سے یہ کتب
خانہ اردو باغ منتقل کیا جارہا ہے ۔ محمد معروف کے والد سید عبدا لرب مرحوم
بھی اسی کتب خانے سے وابستہ تھے۔ میں معمول کے مطابق19مارچ کی سہ پہر انجمن
کے کتب خانے پہنچا ، لائبریری کا عملہ ذوق و شوق کے ساتھ مزدووروں کی مانند
لائبریری کی کتابوں کو الماریوں سے نکالنے اور انہیں گتے کے کارٹن میں رکنے
میں مصروف تھے۔ معروف سیڑھی پر چڑھے ہوئے اوپر کے شیلف سے کتابین اتارتے،
دیگر لوگ انہیں کارٹن میں رکھتے ، ساتھ ہی ساتھ اس کارٹن کا نمبر بھی مقرر
کیا جارہا تھا، کمپیوٹر پر کتب کا اندراج بھی ہورہا تھا کہ کس کارٹن میں
کون کون سے کتابیں ہیں۔ معروف علمی گھرانے سے تعلق رکھنے والی شخصیت وقار
شیرانی صاحب کو اکثر ادبی تقریبات میں دیکھا ، یہاں بھی وہ ہدایات دیتے نظر
آئے۔ ان سے ملاقات ہوئی، کتب خانے کی منتقلی پر گفتگو ہوئی، معلوم ہوا کہ
اس کتب خانے کو اردو باغ منتقل کرنے کی ذمہ داری وقار شیرانی صاحب کی ہے۔
انہوں نے لائبریری کے عملے کے ساتھ مل کر خاص نظام وضع کیا ہے تاکہ کتابیں
جیسے جیسے شیف سے اتر یں ، ان کی تفصیل کارٹن کے ساتھ کمپیوٹر میں درج ہو
تاکہ نئی عمارت میں کتابوں کو اسی ترتیب سے رکھنے میں آسانی ہو۔ وقار
شیرانی صاحب سے مختلف علمی و ادبی موضوعات پر بھی گفتگو ہوتی رہی اور
لائبریری میں کام بھی ہوتا ہم دیکھتے رہے۔فوٹو سیشن بھی ہوتا رہا، شیرانی
صاحب موبائل سے تصاویر اتارنے کے شوقین ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اگر کتابوں کی
منتقلی کے لیے دس مزدور بھی رکھ لیے جاتے تووہ اس انداز سے کام نہ کرتے جس
خلوص ومحبت سے لائبریری کا عملہ کتابوں کو شلف اور الماریوں سے احتیاط کے
ساتھ اتاررہے تھے اور پھر ایک ایک کتاب کو پیار کے ساتھ صاف کرکر کے کارٹن
میں رکھ رہے تھے ، کارٹن کو سیل کیا جارہا تھا ، تاکہ کارٹن میں کتاب رکھنے
کے بعد اردو باغ پہنچنے تک محفوظ رہے ،چوری کا ڈر نہ رہے،کتاب کے ادھر ادھر
ہونے کا خطرہ بھی نہ ہو۔ وقار شیرانی صاحب کا کہنا تھا کہ ہمیں امید ہے کہ
لائبریری کی منتقلی کے لیے جو قت طے ہوا ہے اس میں وہ اپنا مقصد حاصل کر
لیں گے اور لائبریری انشاء اللہ جلد اردو باغ منتقل ہوجائے گی۔
|