ایک شخص فلم پروڈیوسر تھا اور اس کا نصیب ایسا تھا کہ
وہ جو کوئی بھی فلم بناتا فلاپ ہو جاتی ۔ ہر طرح کی اشتہار بازی کے بعد بھی
کوئی فائدہ نہیں ہوا تو اسے کسی نے مشورہ دیا کہ اس بار نئی فلم کی اشتہار
بازی پر کچھ خرچ نہیں کرنا بلکہ کسی مولوی سے اشتہار بازی کروائے بالکل کم
پیسوں میں کام ہو جائے گا ۔ وہ سوچنے لگا کہ ایک مولوی بھلا کیسے فلم کی
تعریف کرے گا؟ لیکن مرتا کیا نا کرتا ! اگر اس کی یہ فلم بھی فلاپ ہو جاتی
تو وہ تو سڑک پہ آ جاتا اور آئندہ زندگی بھیگ مانگتے گزرتی ۔ اسے یاد آیا
کہ فلاں مسجد کا مولوی اس کا دوست ہے اس کے پاس چلتا ہوں ، نماز کے وقت
مسجد میں پہنچ گیا اور نماز کے بعد مولوی کو ملا ، مولوی بھی اسے دیکھ کے
بڑا خوش ہوا کہ چلو یہ بھی مسجد میں آ تو گیا ۔اب فلم پروڈیوسر شرما بھی
رہا تھا کہ اگر مولوی فلم کا نام سن کر طیش میں آگیا تو کوئی صورت نہیں رہ
جائے گی ، اس نے کچھ اس طرح سے بات شروع کی کہ مولوی صاحب میں نے ایک
کاروبار شروع کیا ہے اس میں پیسہ بہت ہے ، آپ کو کچھ بھی نہیں کرنا بس اس
کے بارے میں لوگوں کو بتا نا ہے اور آپ کو میں اس کاروبار کے نفع کا دس
فیصد دوں گا ۔ مولوی صاحب پوچھنے لگے کہ وہ دس فیصد کتنے پیسے بنیں گے تو
پروڈیوسر کہنے لگا کہ لاکھوں میں ہو ں گے ۔مولوی کو بات پسند آئی اور
پوچھنے لگا کہ کاروبار کیا ہے ؟ تو پروڈیوسر نے بتایا کہ فلم کی اشتہار
بازی کرنی ہے ، اور بڑی لجت کھاتے ہوئے منہ جھکا کے بیٹھ گیا ، مولوی کی
خاموشی اسے کھائے جا رہی تھی اور دل ہی دل میں ڈر رہا تھا ، لیکن مولوی کچھ
اور ہی سوچ میں مگن تھا ۔ کچھ دیر میں مولوی نے خاموشی کا سحر توڑا اور
بولا ٹھیک ہے تو فلم کا شو چلانے کی تیاری کر باقی سب مجھ پہ چھوڑ دے ۔
اگلے ہی جمعے مولوی صاحب خطبے میں بے حیائی پر تقریر کر رہے تھے اور اس میں
اسی فلم کا ذکر کر تے ہوئے لوگوں کو انتباہ کر رہے تھے اس فلم مت دیکھنا آج
رات فلاں سینما میں اس کا شو شروع ہونے والا ہے ، اس فلم میں بڑی بے حیائی
ہے اور اخلاقی اقدار سے عاری ہے ۔ لوگوں نے مولوی کا پیغام اچھے سے سنا اور
اس سے اتفاق کا اظہار کرتے ہوئے مسجد میں کہتے رہے کہ ایسی چیزیں معاشرے کے
خلاف ہیں ، لیکن اسی رات قریب سارا ہی مجمع سینما میں فلم دیکھنے کیلئے
موجود تھا یہاں تک کہ ٹکٹیں بلیک کر کے بیچیں گئیں ۔ جب کوئی چارہ نا بچے
تو لوگ جذبات کے ساتھ کھیلتے ہیں ، چونکہ پاکستان اسلامی ملک ہے اور اس کی
بنیاد کلمہ طیبہ ہے اس لئے سبھی سیاستدان اور پاکستان مخالف طبقہ اچھے سے
جانتے ہیں کہ جب تک آپ اسلام کا نام استعمال کرتے ہوئے کچھ آغاز نہیں کریں
گے تب تک آپ کو پذیرائی نہیں ملے گی اور خاص طور پر پیپلز پارٹی اور ن لیگ
کا شیوہ رہا ہے کہ وہ عوام کے جذبات کے ساتھ اسلام کے نام پر کھیلتے آئے
ہیں ۔ جیسا کہ پیپلز پارٹی نے ایک طرف تو جمہوری طرزِ حکومت کا نعرہ لگایا
تو دوسری طرف اسلامی قوانین کے نفاذ کو بھی اپنے منشور کا حصہ بنایا ، ان
دونوں نعروں میں تضاد ہے کیونکہ جمہوری نظام لبرل ہے جس میں اسلامی قوانین
سے آزاد ہر شخص اپنی مرضی سے زندگی گزار سکتا ہے ، اسی طرح ن لیگ جو یوں تو
سعودی عرب کے ساتھ دوستی اور زیادہ اسلامی ہونے کا دعویٰ کرتی ہے لیکن اس
کا کردار کسی سے ڈھکا چھپا نہیں اور خود کو جمہوری اور لبرل ثابت کرنے میں
اس نے کوئی کثر اٹھا نہیں رکھی ۔ عمران خان نے جب دھرنا دیا تو بے حد تنقید
کی گئی کہ عورتوں کو سڑکوں پہ نچاتا ہے ، اور خود مریم نواز کیا کرتی پھر
رہی ہے اس پر کسی کو بات کرنا گوارا نہیں ۔ اب سیاسیوں کے پاس بھی آخری
حربہ رہ گیا ہے اور وہ ہے لوگوں کی عقیدت مندی کو چھیڑنا اور ان کی نظر میں
اسلامی نقطہ سے سچا ثابت ہو کر انہیں طیش میں لانا ہے ۔وہ جانتے ہیں کہ اس
ملک میں نماز پڑھنے والا چاہے ایک بھی نہ ہو لیکن اسلام کیلئے سب ہی جان
دینے کو راضی ہو جائیں گے ۔ میں پہلے بھی بارہا اس قسم کے ہتھکنڈوں کے بارے
میں قارئین کو متنبہ کر چکا ہوں کہ اب یہ سیاسی لوگ اس طرح سے ہتھکنڈے کھیل
کر لوگوں میں انتشار پھیلائیں گے اور ملک کا استحکام داؤ پر لگائیں گے اور
وہی ہونے جا رہا ہے ، مریم نواز خود کو نعوذبااﷲ حضرت فاطمۃ الزاہرا ؓ سے
تشبیح دیتی پھر رہی ہے ، کہاں ہیں وہ تمام مولوی جو عام سی بات پر فتوے تو
جاری کر دیتے ہیں اور اتنی بڑی بات ہو گئی وہ خاموش ہیں ؟؟ کیا یہ واقعی
اسلامی ریاست ہے ، مریم نواز پر فتویٰ جاری ہونا چاہئے کہ ہم تو خود کو ان
پاک ہستیوں کے پیروں کی خاک برابر نہیں سمجھتے اور یہ پھرتی ہے ان کے ساتھ
خود کو تشبیح دیتی! حقیقت اس سے برعکس ہے اور انتہائی برعکس ہے جس کا مریم
نواز اور نواز شریف اور دیگر سیاستدانوں کے اعمال سے تعلق ہے جو انہوں نے
ملک میں جمہوریت کے استحکام کیلئے عوام میں ڈالا ہے آج وہی انہیں واپس مل
رہا ہے ، جس طرح یہ میڈیا کے سامنے سیاستدانوں کو گالیاں دیتے ہیں اور ایک
دوسرے پر کیچڑ اچھال کر عوام کو دماغی مریض بناتے ہیں وہ چھتر اب ان کی طرف
واپس پھینکے جا رہے ہیں ، یقین مانئے کہ لبرل ازم میں لتھڑے ان جمہوریوں کا
اسلام کے ساتھ دور دور تک کوئی تعلق نہیں ہے ، عوام الناس کو ان کا یہ
گھناؤنا کھیل سمجھنا چاہئے کہ اب جب تمام راستے بند ہو گئے ہیں تو یہ اسلام
کا نام استعمال کر کے لوگوں کو ورغلا رہے ہیں ۔ میرا ماننا ہے کہ اسلام کو
جاننے کیلئے کسی شخص یا ملک کو نہیں دیکھو بلکہ اﷲ کی کتاب قرآن الکریم اور
صحیح احادیث کا مطالعہ کرو اگر ان کے مطابق کوئی بھی ثابت کر پائے کہ یہ
حکمران حق پر ہیں تو ضرور ان کا ساتھ دیں بصورت دیگر ہمیں ملک پاکستان اور
اس کے ستون ، اداروں سے محبت ہونی چاہئے کسی شخص سے نہیں کیونکہ حکمران ہر
روز بدلتے ہیں لیکن ان شاء اﷲ ملک پاکستان قائم دائم رہے گا۔علامہ قبال کیا
خوب فرماتے ہیں :
نہ فلسفی سے نہ ملا سے ہے غرض مجھ کو
یہ دل کی موت ! وہ اندیشہ و نظر کا فساد ! |