جمہوریت ایک رویے ایک سوچ کا نام ہے ، جمہوری سوچ کے
پروان چڑھنے کے لئے عوام کا احترام پہلی شرط ہے ، یہ سوچ آمروں کے دم چھلوں
کے پاس بھی نہیں پھٹک سکتی، اقتدارعارضی شے ہے جو بظاہر تکبر اورحقارت سمیت
حکمرانوں کی ساری خامیاں چھپا لیتا ہے لیکن یہ سہولت بہر حال ایک محدودمدت
کے لئے ہی دستیاب ہوتی ہے، زیادہ مدت تک یہ اداکاری جاری نہیں رکھی جاسکتی،
حکومت میں بیٹھے سیاستدانوں کے چہرے پر خوشامدیوں نے جھوٹی تعریفوں کی الگ
تہہ جمائی ہوتی ہے جسے بھی بہرحال ایک دن ہٹنا ہی ہوتا ہے کیونکہ پاکستان
میں اقتدار کی فلم مقررہ وقت پر بلکہ اکثر اوقات تو وقت سے پہلے ہی ختم ہو
جاتی ہے ، اقتدار سیاست دانوں کو جان سے عزیز ہونے کے ساتھ ساتھ انکی ڈھال
کی طرح ہوتاہے ، اسلئے آخری دن تک بھی اچھا ہی لگتا ہے ،جب تک حکومت پاس
رہتی ہے وہ حکمرانوں کی سیاہ کاریوں پر پردے ڈالے رکھتی ہے ، ان کی خامیوں
کو یوں چھپا لیتی ہے جیسے مرغی چوزوں کو کسی ممکنہ آفت سے بچانے کے لئے
اپنے پروں میں گم کر دیتی ہے ، سیاستدانوں کے مالی معاملات ، انکے ظاہر ہ
اور پوشیدہ کاروبار اور اثاثوں پر اقتدار کی حکومت کی مرغی کے پر آجاتے ہیں
، حقیقت تویہ ہے کہ پاکستان میں جمہوری نظام کے نہ پنپ سکنے کی ایک بہت بڑی
وجہ سیاستدانوں کے اپنے غیرجمہوری رویے بھی ہیں، میرے اس یقین کے باوجود کہ
سیاست میں اچھے لوگوں کی بھی کمی نہیں اور پاکستان کا مستقبل جمہوری نظام
کی مضبوطی اور تسلسل سے وابستہ ہے مجھے یہ کہنے دیجئے کہ اہل سیاست میں
ایسے بھی ہیں جو جمہوریت کا عوامی لباس زیب تن کر کے عوام کو بے وقوف بنا
نے کامکروہ دھندہ کرتے ہیں، عوام کے حقو ق کی خاطر دن رات جھوٹی تقریریں ،جھوٹے
بیان دیتے ہیں ، جس کے نتیجے میں ا نہیں معصوم عوام کی بھی ہمدردیاں حاصل
ہو جاتی ہیں، یہ غیر جمہوری سوچ کے مالک سیاستدان ایک اداکار کی طرح دن رات
عوام کے جھوٹے ہمدرد بن کراپنے ہونٹوں پر مصنوعی مسکان سجائے لوگوں سے
مجبوراََ ملتے ہیں ، عوامی مسائل کا حل کبھی بھی انکی ترجیح نہیں ہوتا، اگر
یہ ڈرامے باز سیاستدان حکومت میں ہوں تواقتدار کی وجہ سے ان نکھٹو
سیاستدانوں کو بھی عظمت کے مینار بنا کر پیش کرنے والوں کی بھی کمی نہیں
ہوتی ، جمہوریت میں بندے تولے نہیں جاتے اس لئے یہ بھی کمال ہے کہ ایسے
ایسے نکموں کو بھی کروڑوں قابل ،پڑھے لکھے اور مہذب لوگوں کے بارے میں
فیصلے کرنے کا اختیار مل جاتاہے ،ان میں بعض ایسے بھی ہوتے ہیں کہ ڈھنگ سے
بات تک نہیں کرنا آتی اور انہیں انکے منصب پر کام کرتے دیکھ کر ایکبار
توانسان کی عقل دنگ رہ جاتی ہے ، رہی بات سیاسی کارکنوں کی توبے چارے کارکن
ملک سے محبت تو کبھی لیڈر سے عشق کے نام پر ان سیاسی اداکاروں کے ہاتھ میں
دن رات استعمال ہوتے ہیں اور پھر ٹشو پیپر کی طرح پھینک دیئے جاتے ہیں ،
اسکے علاوہ سیاستدانوں کے آگے پیچھے پھرنے والے ان کے فیصلوں پر واہ واہ
کیا بات ہے ،بہت اچھے جناب کی صدائیں بھی اسی تواترسے آرہی ہوتی ہیں،یہ
خوشامدیوں کی وہ قسم ہے جو حکمرانوں کی گالیاں کھا کر بھی انکی تعریف و
توصیف سے باز نہیں آتے ، سو جمہوریت کے نام پر واردات کرنے والے یہ جعلی
جمہوریئے عوام پر مسلط ہو جاتے ہیں ،ان کے پاس سرکاری وسائل سے دنیا بھرکے
چکر لگانے ، رشتہ داروں کی تقریبات میں آنے جانے سمیت ہرکام کے لئے وقت
ہوتا ہے لیکن یہ جھوٹے خادم عوام کو وقت دینے اور انکے مسائل حل کرنے میں
کوئی دلچسپی نہیں دکھاتے ، عوامی مسائل حل کرنا تو درکنار یہ خود مسائل
انکے لئے مسائل پیدا کرتے ہیں ، سرکاری محکموں کے گمشدہ ملازمین کا حال یہ
ہے کہ ڈرائیور ز سے لے کر خاکروب تک انکے گھروں میں ڈیوٹیاں دیتے ہیں مگر
کھلے عام عوامی وسائل لوٹنے والے یہ جعلی جمہوریئے ان بدمعاشی کی وارداتوں
کے باوجودد اپنی دیانتداری اور ایمانداری کی قسمیں کھاتے نہیں تھکتے ،
نتیجہ یہ کہ شہر میں کوڑا اٹھانے کے لئے کسی یونین کونسل میں پوری تعداد
میں خاکروب تک نہیں ملتے کیونکہ انہیں حکمرانوں اور سرکاری افسروں کے گھروں
کے کام کرنے پر مامور کیا گیا ہوتا ہے ، یہی نہیں حکمرانوں کے ساتھ ’’
تابعداری ‘‘ کا رشتہ قائم رکھنے والے افسروں کو سفارش کر کے محکمے کولوٹنے
کا باقاعدہ چارج دے دیا جا تا ہے، وہ اپنی کسی حرکت کی شکایت پرمعطل بھی
ہوجائیں تو انکا تحفظ کر کے واپس تعینات کرا دیا جاتا ہے ، یہی وجہ ہے کہ
یہ افسران کئی کئی سال سے اپنے اپنے محکموں کے نا خدا بنے ہوئے ہیں ، ان
میں کئی ایک ایسے ہیں جن کے حکمرانوں سے خاندانی تعلقات ہیں جو کئی نسلوں
سے چلے آ رہے ہیں، بعض افسران اپنی ڈیوٹی پر آنے سے پہلے حکمرانوں کے تلوے
چاٹنا اپنی سرکاری ذمہ داری سمجھتے ہیں ، سیاستدانوں کا یہ بھیانک چہرہ ہی
اصل میں جمہوریت کی شکل بن کے رہ جاتا ہے ، چنانچہ غیر جمہوری قوتوں کو بار
بار اقتدار میں آنے کا جواز بھی یہی جعلی جمہوریئے دیتے ہیں ، پاکستان میں
بدقسمتی سے 70سال میں کوئی ایک ایسا دورحکومت نہیں گزرا جسے ہم مکمل طور پر
جمہوری دور کہہ کر اسے ایک عمدہ سیاسی مثال کے طور پر پیش کر سکیں ، اس میں
کوئی شک نہیں کہ آمروں نے قوم کے35سال چھین لئے ، سیاہ و سفید کے مالک کر
ملکی تقدیرسے گھناؤنا کھیل کھیلا، ملک دولخت بھی ہوا مگر سیاستدان بھی
جمہوریت کے شاید مفہوم سے بھی نا آشنا رہے، جنہوں نے انہی آمروں کی کابینہ
میں بیٹھ کر اپنی کلغی بڑی کی اور’’ راگ درباری‘‘ گاتے رہے ، اور پھرسالوں
بعد خدا خدا کر کے لولی لنگڑی ناتواں جمہوریت آئی تو پھرسے راگ جمہوری
الاپنے لگ گئے اور جمہوریت کے نام نہاد چیمپیئن بن گئے ، آمروں نے جمہوریت
کے ساتھ جو کیا سو کیا لیکن ان جعلی جمہوروں نے سیاست کو گدلا کر کے رکھ
دیا ،انکے انہی غیر جمہوری رویوں اورطاقت کے نشے میں مبتلا ہوکرحد درجہ
تکبرنے سیاست کو گالی بنا دیا ، گوجرانوالہ میں سالڈ ویسٹ مینجمنٹ کمپنی کے
ساڑھے تین ارب روپ ہاتھ کی صفائی دکھاکر لوٹ لئے گئے لیکن کوئی ذمہ داری تک
قبول کرنے کو تیار نہیں ، چند حکمران خاندان ہی فیصل آباد کا گھنٹہ گھر بنے
ہوئے ہیں ، کارکنوں کا جھوٹا دم بھرنے والے یہ لوگ سرکاری و پارٹی عہدوں
سمیت کوئی شے اپنے گھر سے باہر جانے نہیں دیتے ، سوشل میڈیا جیسی بے فائدہ
ذمہ داریوں کے وقت بھی گوجرانوالہ کے سیاسی خاندانوں میں عہدوں کی جو بندر
بانٹ ہوئی وہ کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ۔ |