پروفیسر حافظ محمد سعید
امیر جماعہ الدعوۃ پاکستان
یہ1946,47ء کادورتھا۔ہندوستان سے انگریزکے انخلااو پاکستان کے قیام کامعرکہ
زوروں پرتھا۔انگریز سرکاراورکانگریس کے نیتاہرصورت ہندوستان
کومتحداورمسلمانوں کو غلام بنانے پرتلے بیٹھے تھے جبکہ مسلمان غلامی سے
نجات اور پاکستان کے حصول کے لئے اپنی جانوں پرکھیل جانے کا فیصلہ کرچکے
تھے۔قیام پاکستان کے مطالبے نے ہندوستان کے طول وعرض میں بسنے والے
مسلمانوں کوایک عجب ایمانی اورروحانی کیفیت سے سرشارکرکھاتھا۔ہندوستان
کاآخری کونا جونیپال سے جاملتاہے تعلیمی اورمعاشی اعتبارسے بہت پسماندہ
سمجھاجاتاتھا۔آج بھی وہاں جہالت عام اورتعلیم کافقدان ہے۔ لاہورسے تعلق
رکھنے والاایک شخص تحریک پاکستان کے ایام میں نیپال سے متصل ہندوستان کے
آخری سرحدی علاقے میں جانکلااس نے ایک مقامی کسان سے پوچھا ہندوستان تقسیم
ہونے والاہے ایک طرف بھارت ہوگادوسری طرف پاکستان آپ دونوں میں سے کس کے
ساتھ رہناچاہوگے۔؟کسان نے پہلے توسائل کوغورسے دیکھاپھرلاٹھی بڑھاکرچل
پڑا۔پیچھے سے آوازپڑی بھائی کچھ توکہہ جاؤ۔کسان ایک لمحے کورکامڑکرپیچھے
دیکھااوریوں گویاہوا’’میاں ہم کلمہ طیبہ کے ساتھ ہیں۔؟؟پوچھنے والے نے
دوسراسوال داغا’’باباجی کلمے سے کیامرادہے۔؟‘‘جواب ملا’’پاکستان‘‘۔
23مارچ 1940ء کے لاہور کے اجلاس میں میرٹھ سے تعلق رکھنے والے ایک نمائندے
سید رؤف شاہ نے مسلم اکثریتی صوبوں سے آئے ہوئے وفود کو مخاطب کرتے ہوئے
کہا تھا’’جان سے عزیز بھائیو!جب آپ آزاد اور خود مختار ہوجائیں گے تو بھارت
کے ہندو ہمیں نیست ونابود کر دیں گے۔ ہمیں پاکستان کے ساتھ محبت کی سزا دی
جائے گی ،ہمیں شودروں کی طرح زندگی بسر کرنا ہوگی،اس کے باوجود ہم خوش ہوں
گے کہ کم از کم آپ تو آزاد فضا میں سانس لیں گے۔جب آپ آزاد ہو جائیں اور
آزاد مملکت میں زندگی بسر کرنے لگیں تو کبھی کبھی ہمارے لئے بھی دعائے
مغفرت کر لیا کرنا۔‘‘سید رؤف شاہ اپنی ساری تقریر کے دوران روتے رہے
،ہزاروں شرکائے اجلاس کوبھی رولادیا ۔ آخر میں کہنے لگے’’بھائیومیرے آنسو
اس لئے نہیں کہ ہندو ہمارے ساتھ کیا سلوک کریں گے،ہمیں چیریں پھاڑیں گے
بلکہ یہ تو خوشی کے آنسو ہیں کہ آپ ایک ایسے ملک میں زندگی بسر کریں گے جو
آزاد ہو گا اور جس کی بنیاد لا الہ الا اﷲ پر ہو گی۔‘‘سید رؤف شاہ نے جب یہ
بات کہی تو مجمع پر عجب کیفیت طاری ہو گئی،آنسو بے قابو ہو گئے ، ضبط کے
بند ھن ٹوٹ گئے اور ہچکیاں بندھ گئیں۔تب حاضرینِ اجلاس میں سے بعض اٹھے اور
کہاپاکستان صرف ہمارا ہی نہیں آپ کابھی ہو گا ،یہ اسلام اور قرآن کا ملک ہو
گا۔ ہم بھارت میں رہ جانے والے اپنے بھائیوں کوبھولیں گے اور نہ بے
یارومددگا ر چھوڑ یں گے۔آپ کا تحفظ اور مدد ہمارا اولین فرض ہو گا۔
علی گڑھ یونیورسٹی کے طلبہ تحریک پاکستان کے سلسلہ میں امرتسرکے دورے پرآئے
،پروگرام کے بعدسوال وجواب کی نشست ہوئی ،ایک آدمی نے کہا’’ہم مشرقی پنجاب
کے رہنے والے ہیں ہمیں یقین ہے کہ ہمارے بہت سے علاقے پاکستان میں شامل ہوں
گے اگرہمارے علاقے پاکستان میں شامل نہ ہوسکے تب بھی ہم فجرسے پہلے اپنے
گھروں سے نکلیں گے سورج طلوع ہونے تک پاکستان پہنچ جائیں گے لیکن آپ لوگوں
کامعاملہ اس کے بالکل برعکس ہے آپ میں سے کوئی یوپی کاباسی ہے، کوئی سی پی
کا،کوئی پٹنہ کا اور کوئی دوسرے دوردرازخطے کا۔آپ کے علاقوں اورصوبوں کا
پاکستان میں شامل ہوناخارج ازامکان ہے ۔مزیدیہ کہ جب آپ لوگ ہجرت کے لئے
گھروں حویلیوں سے نکلوگے تو سفراتنالمبااوردشوارگزارہوگاکہ باحفاظت پاکستا
ن پہنچناممکن نہ ہوگا۔ایسے حالات میں جب آپ کے علاقے پاکستان کاحصہ نہیں بن
سکتے،آپ پاکستان پہنچ نہیں سکتے پھرکیوں ہراول دستہ بن کر پاکستان کے قیام
کی تحریک چلارہے ہو۔۔۔۔۔؟
یونیورسٹی کے طلبہ کاجواب تھا’’یہ درست ہے کہ ہمارے علاقے پاکستان کاحصہ
نہیں بن سکیں گے یہ بھی درست ہے ہم سے بہت کم لوگ بحفاظت پاکستان پہنچ
پائیں گے ۔ زیادہ تراپنے گھروں میں،علاقوں میں،راستوں میں ہی کاٹ دیے جائیں
گے،ذبح کردیے جائیں گے، بچے نیزوں میں پرودیے جائیں گے، کرپانوں پراچھالے
جائیں گے،آگ میں جلائے جائیں گے،ہماری عفت ماٰب ماؤں بہنوں کے دامان عصمت
تارتارکئے جائیں گے،یہ سب حقائق روزروشن کی طرح واضح ہیں۔ہم جانتے ہیں
ہمارے علاقے،ہمارے صوبے،ہمارے شہرپاکستان کاحصہ نہیں بن سکتے۔ اس کے
باوجودہم قیام پاکستان کی تحریک جاری رکھیں گے اس سے پیچھے نہیں ہٹیں گے اس
لئے کہ ہمیں یقین ہے پاکستان ہمارے لئے اسلام کاقلعہ ثابت ہوگا،ہمیں یقین
ہے پاکستان سے ایک بارپھرمحمدبن قاسم اٹھے گا،محمودغزنوی پیداہوگاجوہمیں
اورہماری ماؤں بہنوں کوہندؤوں کی غلامی سے آزادکروائے گابتکدہ ِہندکوایک
بارپھرتوحیدکے نغموں اورزمزموں سے آشناکرے گا۔
یہ تھے قیام پاکستان کے لئے تحریک چلانے والے مسلمانوں کے احساسات
وجذبات۔یہی جذبات واحساسات تھے جنہوں نے قیام پاکستان کے مطالبے کوعملی شکل
بخشی۔اس لئے کہ تحریک پاکستان جس نظریے پرچلائی گئی وہ بہت ٹھوس،مضبوط،طیب
اور مقدس تھا۔یہ بات معلوم ہے کہ جب نظریہ اورمنہج پختہ اورواضح ہوتومنزل
کاحصول یقینی ہوجاتاہے۔آج ہم اسی نظریہ ومنہج کی یادتازہ کررہے ہیں ۔ آج کے
دن لاہور میں آل انڈیا مسلم لیگ کے منعقد ہ ستائیسویں سالانہ اجلاس میں
مسلمانوں نے اپنے لئے راہ عمل و منزل کا انتخاب کیا اور پھربے مثال جدو جہد
کے بعد صرف سات سال کے عرصے میں پاکستان معر ضِ وجود میں آگیاتھا۔سو۔۔۔۔اس
عظیم الشان واقعہ کی یاد میں آج ملک بھر میں پروگرام ہوں گے،جلسوں اور
سیمنارز کا انعقاد کیا جائے گا، سرکاری سطح پرافواج پاکستان کی پریڈمیں
عسکری طاقت کارعب ودبدبہ دشمن کوہیبت زدہ کرے گا۔اخبارات خصوصی ایڈیشن شائع
کریں گے جن میں ماضی کے ان واقعات کو دھرایا اور1940ء کے جذبوں کو زندہ
کرنے کا عہد کیا جائے گا۔
بہ قول شاعرمشرق علامہ محمداقبال ماضی۔۔۔۔قوموں کے لئے ۔۔۔۔ قوت متحرکہ کی
حیثیت رکھتا ہے۔جو قوم اپنے ماضی کو بھول جائے وہ یاداشت کھو بیٹھتی
ہے۔لہذا پاکستان کے استحکا م، دوست دشمن کی پہچان کے لئے ضروری ہے کہ ماضی
کو یاد رکھاجائے۔ماضی کا نہ بھولنے والا ایک سبق وہ دورہے جب مسلمانوں نے
سرزمین ہند پر قدم رکھا تھا۔ سچی بات ہے کہ مسلمانوں کایہ ورودِمسعود ہی
قیام ِپاکستان کا باعث بنا تھا۔سرزمین ہند پر اسلام کے اولین نقوش تعداد
میں اگر چہ کم تھے لیکن ایمان کے بہت مضبوط تھے، حوصلے بلنداورشوق شہادت سے
سرشار تھے،جب سرزمین ہند میں کفر وشرک کے اندھیرے چھائے ہوئے تھے تب انہوں
نے گنگا اور جمنا کے پانیوں سے وضو کر کے بتکدہ ہند میں ۔۔۔اﷲ اکبر کا نعرہ
بلند کیا اورایک ایسی ا سلامی نظریاتی ریاست قائم کی جس کی بنیاد لاالہ الا
اﷲ محمد الرسول اﷲ پر تھی۔لاالہ الا اﷲ بظاہر ایک کلمہ ہے لیکن حقیقت میں
یہ مکمل ضابطہ حیات،زندگی کا نصب العین،دنیوی و اخروی کامیابی کا ضامن اور
عزت ورفعت کا یقینی راستہ ہے۔بعدہ۔۔۔۔ جب مارچ1940ء کے موقع پر لاہور میں
ہندوستان بھر کے مسلمان اکٹھے ہوئے تو در حقیقت انہوں نے ماضی کی اسی کلمہ
طیبہ والی اسلامی نظریاتی ریاست کی بازیابی اور بحالی کا عہد کیا تھا۔سو
۔۔۔۔۔ہندوستان میں اسلامی ریاست کی بنیاد رکھنے والے یہ عظیم مجاہدین
،فاتحین،حکمران اورسالار ہمارے محسن تھے ۔احسان کی ادائیگی کا ایک طریقہ یہ
بھی ہے کہ اپنے محسنوں کو یاد رکھا جائے ، ان کے حالات وواقعات کو پڑھا
جائے،ان کی بہادری ا و رغیرت ایمانی کے تذکروں کوتازہ کیاجائے شائد کہ اﷲ
ہمیں بھی ان جیسا بنا دے۔ امر واقعی یہ ہے کہ ماضی کا اسلامی ہندوستان اور
آج کا پاکستان باہم لازم وملزوم ہیں۔ مسلمانوں نے جب قیامِ پاکستان کا
مطالبہ کیا تو اس مطالبے کی بنیا د اس بات پر تھی کہ ہم ہندوستان میں اجنبی
اور نووارد نہیں ،اس سرزمین کے ساتھ ہمارے رشتے بہت پرانے اور گہرے ہیں،ہم
یہاں کے مالک و مختار رہے ہیں،اس چمن کو ہم نے اپنے خون سے سینچا ہے،تزئین
گلستان میں ہماراخون شامل ہے،جب ہم یہاں آئے تو جہالت وتاریکی تھی،غربت و
پسماندگی تھی ،علم و حکمت کا فقدان تھا،ظلم و جبر کا دور دورہ تھا۔۔۔۔۔۔۔پس
اس سرزمین کی گود کوہم نے علم،عدل ،انصاف ،ہنر،صنعت،حرفت ،تجارت ،تہذیب
،شرافت ،تمدن سے اس طرح بھر دیا کہ یہ اپنے وقت کا خوشحال ترین ملک بن گیا
تھا۔
اسی پس منظرمیں قائداعظم محمدعلی جنا ح نے کہاتھاپاکستان اسی دن معرضِ
وجودمیں آگیاتھاجب یہاں پہلے مسلمان نے قدم رکھاتھا۔محمدبن قاسم الثقفی
پہلا مسلمان جرنیل تھا جو 93ہجری 712ء میں ایک مسلمان بیٹی کی عزت بچانے کے
لئے 15ہزار کے لشکر کے ساتھ سندھ میں داخل ہوا ۔آج ہم خود کو محمد بن قاسم
کا فکری وارث کہتے ہیں اپنے ملک کے قیام کی نسبت بھی فاتح سندھ کے ساتھ
جوڑتے ہیں لیکن حیرت ہے ہمیں مقبوضہ جموں کشمیر اور بھارت میں مسلمان ماؤں
بہنوں کی چیخیں سنائی نہیں دیتیں،ہم ان کی آزادی او ررہائی کے لئے کچھ نہیں
کرتے۔
محمد بن قاسم کی سندھ آمد کے 300سال بعد محمود غزنوی دوسرا مسلمان فاتح تھا
جو سرزمین ہند پر حملہ آور ہوا ۔اس حملے کا سبب لاہور کا ہندو راجہ جے پال
خود بنا تھا۔جے پال لاہور سے نکل کر سلطنت غزنویہ پر حملہ آور ہوا مگر
محمود نے جے پال کو ایسی ذلت آمیز شکست دی کہ وہ شرم کے مارے آگ میں زندہ
جل کر مر گیا۔ہندوستان میں وارد ہونے والا تیسرا مسلمان جرنیل شہاب الدین
غوری تھا،اس کا تعلق بھی افغانستان سے تھا۔ شہاب الدین کا دور حکومت صرف
20سال ہے مگر نتائج و ثمرات کے اعتبار سے یہ 20سال۔۔۔۔۔ صدیوں پر محیط ہیں
۔ شہاب الدین غوری نے ہندوستان میں ایک ایسی اسلامی ریاست کی داغ بیل ڈالی
جس پر1857ء تک اسلام کا پرچم لہراتا رہا۔ شہا ب الدین سچا مسلمان ، عالمِ
دین اورمردمجاہد تھا۔اسلام کے ساتھ اس کی محبت کا اندازہ اس سے کیا جاسکتا
ہے کہ اس کی فوج کے خطیب و امام مشہور مفسر قرآن،عالمِ باعمل امام فخرالدین
رازی تھے جنکی لکھی ہوئی تفسیر رازی(تفسیرکبیر) کو آج بھی قبول عامہ کا
درجہ حاصل ہے۔
یہ لوگ تھے ہندوستان میں اسلامی نظریاتی سلطنت کی بنیاد رکھنے والے،
نخلستانِ ِاسلام کی اپنے خون سے آبیاری کرنے والے۔تہجد گزار ،شب ِزندہ
دار،راتوں کو مصلے پہ کھڑے ہو کے رب کو منانے والے، دن کے وقت رب کا پیغام
زمین پر پھیلانے والے۔آج ان باتوں کا تذکرہ ضروری ہے تاکہ نوجوان نسل کو
معلوم ہو کہ ہمارا ماضی کتنا تابناک اور کس قدر ایمان افروزتھا۔چالیس کی
دہائی میں قیام پاکستان کی تحریک چلانے والے یقیناایک ایسا ہی ملک چاہتے
تھے جس کی ابتدامحمد بن قاسم نے کی، زادِ راہ محمود غزنوی نے بہم پہنچایا
اور تکمیل شہاب الدین غوری نے کی تھی۔
آج 23 مارچ کی مناسبت سے ایک اور بات کا تذکرہ بھی ضروری ہے۔۔۔۔۔اور وہ ہے
مسلمان دور کے ہندوستان کی پہچان اور شناخت ۔ ہم سب بچپن سے کتابوں میں
پڑھتے اور سنتے چلے آرہے ہیں کہ یہاں جس خطے پر مسلمانوں نے دس صدیاں حکومت
کی اس کا نام ہندوستان تھا۔پاکستان میں سر کاری سطح پر طبع کی جانے والی
تاریخ اور مطالعہ پاکستان کی کتب میں بھی یہی لکھاگیاہے کہ انگریز نے
ہندوستان پر قبضہ کیا ۔ بات اس حد تک تو درست ہے کہ مسلمانوں کی آمد سے
پہلے اس خطے کانام ہندوستان تھا۔ لیکن جب یہ خطہ اسلام کی روشنی سے منور
ہوااور مسلمانوں نے اسلامی ریاست کی بنیاد رکھی تو پھر یہ ہندوستان نہیں
بلکہ ’’بلاد اسلامیہ ہند‘‘کے نام سے پوری دنیا میں معروف ہوا تھا۔گویا اس
کی پہچان اور شناخت اسلام کے حوالے سے تھی۔یہ ملک اسلام کی جاگیر تھا اور
اس کی بنیاد کلمہ طیبہ پر تھی۔ مشہور مورخ محمد بن فرشتہ اور عرب سیاح ابن
بطوطہ نے لکھا ہے کہ بلاد اسلامیہ ہند کے مسلمان ملکوک و سلاطین عباسی خلفا
سے سند ِحکومت حاصل کیا کرتے تھے۔باہم نامہ و پیام اور تحفے تحائف کے
تبادلے ہوتے۔محمود غزنوی نے ہجری410میں اپنی فتوحات کا ایک مفصل خط نہایت
ہی عزت و تکریم اور قیمتی تحائف کے ساتھ عباسی خلیفہ القادر باﷲ کو بھیجا
جواب میں خلیفہ نے محمود کو بیش قیمت خلعتِ فاخرہ اور’’ امین الملہ یمین
الدولہ‘‘ کا خطاب دیا۔مشہور مسلمان حکمران ابوالمجاہد سلطان بن محمد شاہ
تغلق کی دعوت پر خلیفہ کے بیٹے بلاد اسلامیہ ہند کے دورے پر آئے۔عباسی خلفا
اس وقت کے ہندوستان کو سرکاری سطح پر’’ بلاد اسلامیہ ہند ‘‘ہی لکھتے
تھے۔الغرض انگریز نے ہندوستان نہیں ’’بلکہ بلاد اسلامیہ ہند ‘‘پر قبضہ کیا
تھا۔ قبضہ وتسلط کے بعد انگریز نے جہاں مسلمانوں کی ہزارسالہ میراث
اورتہذیب وثقافت کو تاراج و پامال کیا وہاں بلاد اسلامیہ ہند کی اسلامی
پہچان اور شناخت کو بھی حرفِ غلط کی طرح مٹادیا ۔انگریز کے دور میں تاریخ
اور جغرافیہ کی جو کتب مرتب اور مدون کی گئیں ان میں علمی اور تاریخی
بددیانتی کرتے ہوئے لفظ ’’ہندوستان‘‘ کی اس قدر تکرار اور گردان کی گئی کہ
آج ہم ’’بلاد اسلامیہ ہند ‘‘کا نام با لکل ہی بھول چکے ہیں۔
اس کے بعدجب ہندوستان سے انگریزکاانخلایقینی ہوگیاتووہ زمام اقتدارمسلمانوں
کوسونپے کی بجائے مسلمانوں کوہندونیتاؤں کی غلامی میں دینے کافیصلہ کرچکے
تھے۔ہندو نیتاؤں کا معاملہ بھی عجب تھا ایک طرف وہ ہندوستان میں بسنے والوں
کو ایک قوم قرار دیتے دوسری طرف انہوں نے انسانی مخلوق کو لاتعداد طبقات
میں تقسیم کر رکھا تھا۔ ایک طرف سانپوں کو دودھ پلاتے دوسری طرف مسلمانوں
کو ذبح کرتے تھے۔ جیسے جیسے ہندوستان سے انگریز کے انخلا کا وقت قریب آرہا
تھا برہمن کے مسلمانوں کے بارے میں عزائم واردے آشکارا ہوتے چلے جارہے
تھے۔اسی دوران ایک ہندو لیڈر مہاشہ پرتاپ سنگھ نے اپنی قوم کو مخاطب کرتے
ہوئے کہا تھا۔۔۔۔۔:
’’بھیشم کے سپوتو۔۔۔۔ارجن کے دلاورو!
ایک گاؤ ماتا کی رکھشا کے لئے کراچی سے مکہ تک تمام مسلمانوں کا بھی خون
بہادو تو یہ سودا مہنگا نہیں ہے۔ہندو دھرم میں گوشت کھانا جائز نہیں ہے
لیکن مسلمانوں کا خون پینا بھی منع نہیں ہے۔‘‘یہ تھا کانگریس کا ہندوستان
جس میں وہ مسلمانوں کو امن و شانتی کے ساتھ’’ایک ملک ایک قوم‘‘ کے خوش کن
نعرے لگا کر اور مل جل کر رہنے کی ترغیب دے رہی تھی۔سو۔۔۔۔ان حالات میں
مسلمانوں کے لئے دو ہی راستے تھے
زندگی یا موت ۔۔۔۔۔
آزادی یا غلامی ۔۔۔۔۔
مسلمان ایمان سے دستبردار ہو کر ہندوؤں کے سامنے سر جھکا دیتے تو یہ یقینی
موت اور غلامی کا راستہ تھا۔انہوں نے زندگی اور آزادی کا راستہ چنا جو بلا
آخر قیام پاکستان پر منتج ہوا۔یہ بات سمجھنے کی ہے کہ پاکستان ہمارے پاس اﷲ
کی نعمت اور شہدا کی امانت ہے ۔اﷲ کا قانون ہے جو نعمت کی قدر کرے اﷲ انہیں
انعامات سے مزید نوازتا اور ناشکرگزاروں کے لئے اس کی پکڑ بڑی سخت ہے۔اﷲ کی
نعمت کی شکرگزاری یہ ہے کہ ہم نظریہ پاکستان پرکاربندرہیں اپنی زندگی
،سوچ،فکر ،معیشت ،معاشرت ،تجارت،سیاست،طرز حکومت ۔۔۔۔۔الغرض سب کچھ اﷲ اور
اس کے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کے احکامات کے تابع کردیں اگر ہمارے ملک میں
یہ سب کچھ ہے تو سمجھ لیں نظریہ پاکستان قائم ہے اگر جواب نفی میں ہے
تواصلاح کی ضرورت ہے۔
ہم بھارت کے ساتھ مذکرات اور تعلقات بہتر بنانے کے ہر گز خلاف نہیں لیکن
سوال یہ ہے کہ کیا بھارت بھی ایسا چاہتا ہے۔۔۔۔۔؟اس کا جواب ہم سب کو معلوم
ہے۔بی جے پی کی پاکستان دشمنی اداؤں سے ٹپک رہی اور نگاہوں سے برس رہی
ہے۔دنیاآگے کی طرف جارہی ہے اور بی جے پی پاکستان دشمنی کی فضا گرم کرنے کے
لئے 47ء کا ماحول بنا رہی ہے۔ بھارت اور مقبوضہ جموں کشمیر میں مسلمانوں
پربدترین مظالم، گائے کے ذبیحہ پر پابندی اور گائے کی خریدو فروخت کا
کاروبار والوں کو پھانسی کے پھندوں پر لٹکانا اس بات کا ثبوت ہے کہ ہندو
متعصب رہنما 1940ء کے مسلم دشمن ماحول سے باہر نکلنے ،پاکستان کو دل سے
تسلیم کرنے اور مقبوضہ جموں کشمیر کے مسلمانوں کو ان کا حق دینے کے لئے
تیار نہیں ہیں۔ان حالات میں ضروری ہے کہ ہم بھی اپنے حق کی بات کریں ۔حق یہ
ہے کہ بلاد اسلامیہ ہند اور مقبوضہ جموں کشمیر کے مسلمانوں کے ساتھ
ہماراایمانی اورروحانی رشتہ ہے۔پس۔۔۔اے حکمرانو قوم کے جوانو۔۔۔۔! تحریک
پاکستان کے ایام میں کئے گئے وعدوں کو نبھانا ہمارافرض ہے۔اگر اس فرض کی
ادائیگی میں کوتاہی ہو گی تو ہم اﷲ کے ہاں ظالم و وعدہ شکن لکھے جائیں
گے۔ظالم و وعدہ شکن قوموں کے لئے اﷲ کے ہاں کوئی مقام واحترام نہیں ہے۔لہذا
ضروری ہے کہ ہم سچے مسلمان بن جائیں اور احیائے نظریہ پاکستان کا عہد کریں۔ |