دشمن اسلام عبدالعزیٰ ابولہب کیسے مرا؟

 غزوہ ٔبدر میں عمربن ہشام المعروف ابوجہل کے واصل جہنم ہونے بعد رسالت مآب ﷺ سے نبر دآزما ہونے کیلئے مشرکین مکہ نے تین ارکان پر مشتمل ایک کمیٹی تشکیل دی جس میں عبدالعز یٰ المعروف ابولہب ،ابوسفیان اورصفوان بن اُمیہ شامل تھے ۔ ان تینوں افراد نے یہ عہد کیا کہ ہم اس گھڑی تک آرام وسکون سے نہ بیٹھیں گے جب تک (معاذاللہ ) محمد ابن عبداللہ (ﷺ ) کوقتل اوردین اسلام کو نا بود نہ کردیں ابولہب بیمار ہونے کی وجہ سے غزوۂ بدر میں شریک نہ ہوسکا تھا تاہم اس نے اپنی اس عدم شمولیت کے اَزالۂ کیلئے عاص بن ہشام نامی مشرک کو کرایہ پر حاصل کرکے اس جنگ میں شامل کرادیا اوران خدمات کیلئے مختلف روایتوں کے مطابق اسے چا ر ہزار درہم کاگراں قدر معاوضہ ادا کیا کفار مکہ نے جب شکست کھاکر اپنے قیدیوں کے رہائی کیلئے فدیہ کی ادائیگی کاارادہ کیا تو عبدالعزیٰ ابوالہب نے رسول کریم ﷺ کوقتل کرنے کا ایک قبیح اورشیطانی منصوبہ تیار کیا جس پر عمل درآمد کرنے کیلئے اسے ایک ایسے سفاک سنگ دل اُجرتی قاتل کی ضرورت تھی جومدینہ پہنچ کر یہ کام سر انجام دے سکے کیونکہ مدینہ میں حضور ﷺ کو (معاذ اللہ ) شہید کرنا بڑا ہی سہل اور آسان کام تھا اس کی وجہ یہ تھی کہ آستانہ ٔ نبوی پر کوئی سیکورٹی تھی نہ سیکورٹی گارڈ میرے آقا کریم ﷺ کی حفاظت وامان کاذمہ خود ربّ العزت نے اپنے ذمہ لے رکھا تھا اورجس کا حافظ خود ذات ربانی ہواُسکو کسی سے کیاخطرہ آپ ﷺ کی حیات مبارکہ توایسی عام اورسادہ تھی کہ جب کسی نے دیکھا تواللہ کے نبی ﷺ کبھی اپنے موزے بنارہے ہوتے کبھی کپڑے مرمت کرتے دکھائی دیتے یاپھر گھر کے کسی نہ کسی کام میں مصروف ہوتے ، آپ ﷺ کے ہاں تو کوئی ذاتی ملازم بھی نہ تھا ، ہاں ایک ایسا خادم ضرور تھا جو آنیوالے احباب کی رہنمائی کرتا اوران لوگوں کی مدد کرتا جو بغرض ملاقات آستانۂ نبوت پر آتے ۔حیات رسول تو نہایت پاکیزہ اورسادہ ہونے کیساتھ ساتھ جاہ و حشمت اور نمود و پرنمائش سے یکسر پاک ومنز ّہ تھی۔ بقول راقم الحروف
بڑی سادہ تھی زندگی مصطفیٰ ﷺ کی
نمود ونمائش سے کترانے والے

عام مسلمانوں اورپیغمبر اسلام ﷺ کی زندگی میں کوئی فرق نہ تھا انہی حالت کوپیش نظر رکھتے ہوئے عبدالعزیٰ (ابولہب ) نے اس مذہوم کام کیلئے عمیر بن واہب نامی شخص کوتلاش کیا اس شخص کاایک بیٹا غزوہ بدر میں مسلمانوں کااسیر بن چکا تھا طے یہ ہوا کہ وہ (عمیر بن واہب ) اپنے اس فرزند کافدیہ ادا کرنے کیلئے مدینہ جائے اوراس بات کاعلم صرف کمیٹی کے ان تینوں ارکان کے علاوہ کسی اور کو نہ تھا ۔ابو لہب نے اسکو سفر شروع کیلئے ایک معقول رقم ادا کرنے کے علاوہ اس بات کی بھی ذمہ داری لی کہ اس کے واپس مکہ لَو ٹنے تک اسے کے اہل وعیال کاتمام خرچ بھی برداشت کرے گا چنانچہ عمیر بن واہب یہ معاہدہ طے پانے کے بعد ایک طویل سفر ( جوکم وبیش 450 کلومیٹر پر مشتمل تھا ) طے کرکے مکہ سے مدینہ میں داخل ہوا اس نے بڑی ہوشیاری چالاکی اور احتیاط سے نبی کریم ﷺ کے متعلق ضروری معلومات اکٹھی کیں پھر جب آستانۂ نبوی کی چوکھٹ پر پہنچا تو اس نے دیکھا کہ ساری کائنات کے آقا کریم ﷺ ماہ عرب عجم ،ورفعنالک ذکرک کی ارفع شان والے رسول اپنی ایک رِدا (چادر) ہاتھو ں سے دھورہے ہیں دریں اَثنا آقا کریم ﷺ نے اچانک اپنا سرمبارک موڑ کر اس نووارد اجنبی شخص کی طرف دیکھا لب ہائے مقدس حرکت میں آئے اور پوچھا اے آنیوالے عرب اجنبی کیا تمہیں مجھ سے کوئی کام ہے ؟ عمیر بن واہب نے یہ شائستہ جملہ سن کر کہا ۔یامحمد( ﷺ ) ! کام تو مجھے آپ سے ہی ہے مگرمیں یہ دیکھ کر حیران رہ گیا ہوں کہ آپ ﷺ اپنی رِدا خود ہی دھو رہے ہیں یہ کام کسی پیغمبر کے شایان نہیں کہ ایسے کام خود کرے ، عمیر بن واہب کی یہ بات سن کر حلیم و کریم نبی کریم ﷺ نے جواباًفرمایامیرے پاس کوئی خادم ہے نہ کوئی کنیز ہے میں تواپنے کام خود کرلیتا ہوں تم یہ اطمینان رکھو کہ کسی پیغمبر کے چادر دھولینے سے اسکی پیغمبر ی میں کوئی کمی واقع نہیں ہوتی یہ فرمانے کے بعد آقا کریم ﷺ نے خودہی سلسلہ گفتار کے موضوع کوبدلہ اورفرمایا میں جانتاہوں تم یہاں کس کام کیلئے آئے ہو عمیر بن واہب گھبراکر ایک دم بول اٹھا ہاں ہاں اے محمد ﷺ میں مدینہ ہی آپکے پاس اس لیے آیاہوں کہ آپ سے اپنے قیدی فرزند کی بابت یہ معلوم کرسکوں کہ کتنا فدیہ ادا کرنے کے بعد اس کو رہائی مل سکتی ہے ؟ عمیر بن واہب کہ یہ شاطر انہ بات سن کرمخبر صادق ﷺ نے فرمایا۔ عمیرتم بالکل جھوٹ بول رہے ہو تم اپنے فرزند کی رہائی کیلئے نہیں بلکہ مجھے قتل کرنے کی نیت سے یہاں آئے ہو عمیر بن واہب نے جب یہ الفاظ سنے تو ایک دم اس کے بدن پر لرزہ طاری ہوگیا ندامت کی ایک کپکپاہٹ نے اس کے سارے وجود کو پسینے میں بھگو دیا اس نے فوراً اپنا آلہ قتل (خنجر ) اپنے لباس سے نکا ل کر ایک طرف پھینک دیااوربولا ۔اے محمد (ﷺ )بجز میر ے اور تین دوسرے افراد کے کہ جنہوں نے مجھے یہ قتل کا کام سوپنا کوئی نہیں جانتا کہ میں یہاں کس کام کیلئے آیا ہوں اورمجھے اس بات کا کامل یقین ہے کہ ان تینوں نے اس بات کاکسی اور سے تذکرہ بھی نہ کیا ہوگا لہذا آب مجھے پختہ یقین ہوگیا ہے کہ تم پیغمبر برحق ہو لہذا میں اسی لمحہ آپ کے دین اسلام کوقبول کرتا ہوں ، اسلام لانے کے بعد عمیر بن واہب نے مزید کہا آج کے روز تک میری تمام فطری صلاحتیں جودین اسلام کو نیست ونابودکرنے کیلئے وقف تھیں ابھی اسی وقت سے وہ تمام صلاحتیں فروغ اسلام اوراحیائے دین کیلئے وقف ہیں اس کے بعد عمیر بن واہب رضی اللہ عنہ واپس مکہ لوٹ گے جب وہ اپنے شہر میں داخل ہوئے توان کو یہ اطلاع ملی عبدالعزیٰ( ابولہب) مرگیا ہے یہ دشمن اسلام کیسے مرا ؟ آئیے یہ بھی جانتے ہیں ۔

مکہ مکرمہ کے قریب مریدنامی ایک وسیع میدان ہے جس میں اطراف واکناف اور دُور دراز سے آنیوالے قافلے ٹھہرتے ہیں وہاں لوگوں کی باہمی ملاقاتیں اوربات چیت ہوتی ہے ایک روز اتفاقاً (ابولہب ) گزر بھی اس میدان سے ہوا اس نے دیکھا کہ کچھ بدوی ایک عرب کی باتیں سننے کیلئے اس کے گرد جمع ہیں عبدالعزی (ابولہب ) صورت حالات جاننے کیلئے اس مجمع کی طرف بڑھا معلوم ہوا کہ وہ بدوی عرب لوگوں کوغزوۂ بدر کی باتیں سنارہا ہے اس کے مطابق مسلمانوں کایہ عقیدہ ہے اس وقوع پذیر ہونیوالی کفر واسلام کی جنگ میں پانچ ہزار فرشتے آسمان سے نازل ہوئے اورمجاہدین اسلام کی جماعت میں مشرکین کے خلاف جنگ میں شامل ہوئے جسکی وجہ سے لشکر قریش کوذلت آمیز شکست ہوئی اس بدوی نے لوگو ں کومزید حیرت میں ڈالنے کیلئے یہ بھی بتایا کہ میں نے خود کئی فرشتوں کو مصر وف جنگ دیکھا وہ آسمان سے اُترتے ا ُن کے لباس ایک جیسے سفید اورسیاہ گھوڑے پر سوار ہوتے ۔تمام لوگ بڑے انہماک اورتوجہ سے اسکی باتیں سن رہے تھے ، عبدالعزی (ابولہب ) نے بھی جب اس بدوی عرب کی حیرت کناں باتیں سنیں وہ حیران بلکہ پریشان بھی ہوا وہ مجمع میں کچھ آگے بڑھا ایک بلند آواز میں بولا !تو جھوٹ کہہ رہا ہے اس جنگ میں کوئی فرشتہ آسمان سے نازل نہیں ہوا یہ سن کر بدوی نے جوابادیا جیسے میں تم کوبلاشبہ اپنے روبرو دیکھ رہا ہو ں بعینہٖ اسی طرح میں نے بچشم خود جماعت ملائکہ کودیکھا عبدالعزی ٰ(ابولہب ) نے دوبارہ اس کے بیان کوجھٹلایا اوراسے کاذب تک کہہ دیا مجمع میں کچھ لوگ جو اس بدوی کی باتوں سے متاثر ہوئے تھے کہنے لگے یہ جوکہہ رہا ہے سچ کہہ رہا ہے اگر فرشتے مسلمانوں کی مدد نہ کرتے تو 313مجاہدین اسلام اتنے بڑے لشکر قریش کوکیسے شکست دے سکتے تھے کچھ لوگ عبدالعزی ٰ (ابولہب کی حمایت میں ہوگئے پھر کیاتھا دونوں فریقین میں ایک تصاد م برپا ہوگیا اور عبدالعزیٰ (ابولہب ) اس ہنگامہ آرائی میں شدید زخمی ہوا یہاں تک کہ لوگ اُسکو اٹھاکر اسکے گھر چھوڑ آئے بعدازاں لگنے والا گھائو مہک ثابت ہوا جس کی وجہ سے سات یوم اندر وہ مرکر واصل جہنم ہوگیا۔ عیسیٰ نامی ایک عرب تاریخ نویس لکھتا ہے کہ:
عبدالعزیٰ (ابولہب ) کوزخمی حالت میں ایک مہلک عارضہ ہوگیا جسکے باعث جراثیم دوسروں میں پھیلنے کے خدشہ کے پیش نظر اسکی لاش کومکہ شہر سے دور کسی گڑھے میں رکھ دیا گیا ور طرح اسلام کایہ ازلی دشمن اپنے عبرت ناک انجام کو پہنچ کر ہمیشہ کیلئے دوزخ کا مکین بن گیا۔

سید قمر احمد سبزواریؔ
About the Author: سید قمر احمد سبزواریؔ Read More Articles by سید قمر احمد سبزواریؔ: 35 Articles with 61880 views میرا تعلق صحافت کی دنیا سے ہے 1990 سے ایک ماہنامہ ّّسبیل ہدایت ّّکے نام سے شائع کر رہا ہوں اس کے علاوہ ایک روزنامہ نیوز میل لاہور
روزنامہ الجزائر ل
.. View More