آج اگر یہ کہا جاتاہے کہ پاکستان اور بھارت کی جنگ
نہیں ہوسکتی تو اس بات کامحرک کیا ہے ۔ قیام پاکستان سے آج تک بھارت نے نہ
تو پاکستان کو دل سے قبول کیا ہے اور نہ ہی اس کی سا لمیت کو نقصان پہنچانے
کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے دیا ہے اگر ہم ماضی کے دریچوں میں جھانک کر
دیکھیں تو وطن عزیز قدم قدم بھارت کی جارحیت کا شکار نظر آتا ہے ۔ 1947 میں
مسلمان ریاست حیدر آباد دکن پر جبرا قبضہ ‘ 1948 میں وادی کشمیر پر بھارتی
فوج کی یلغار اور بڑے حصے پر قبضہ کرنے میں کامیاب ٗ 1958 میں مشرقی
پاکستان کے انتہائی حساس علاقے پر زبردستی قبضے کی ناکام کوشش ۔ 6ستمبر
1965 کی صبح پاکستان کے دل اور پنجاب کے دارالحکومت لاہور پراچانک حملہ
کرکے قبضہ کرنے کی حتی المقدور کوشش کی گئی۔ اﷲ تعالی کے فضل اور پاک فوج
کے جری افسروں اور جوانو ں نے نہایت بہادری سے بھارتی فوج کے مکروہ عزائم
کو خاک میں ملا یا۔ پے درپے ناکامیوں کے باوجود بھارتی حکمرانوں کی
چالبازیوں اور سازشوں کے سلسلے نہ رک سکے۔ پاکستانی حکمرانوں کی نااہلی اور
بین الاقوامی محاذ پر سپرطاقتوں کی پس پردہ حمایت کی وجہ سے پاکستان کو دو
حصوں میں تقسیم کرکے مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش بنا دیا گیا۔ 1971 کے بعد
بھی سیاچین پر قبضے اور معرکہ کارگل کے دوران پاکستان کی بحری ناکہ بندی کی
حکمت عملی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ۔ یہ جارحانہ اور غاصبانہ بھارتی اقدام یہ
ثابت کرتے ہیں کہ جب بھی موقع ملا بھارت نے پاکستان کو نقصان پہنچانے سے
دریغ نہیں کیا ۔ اب اگر یہ کہا جاتاہے کہ بھارت پاکستان پر حملہ کرنے سے
پہلے ہزار بار سوچے گا تو اس کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان اس پوزیشن میں آ چکا
ہے کہ متوقع بھارتی یلغار کا نہ صرف منہ توڑ دے بلکہ اس کہیں زیادہ نقصان
بھارت کو پہنچانے کی طاقت رکھتا ہے ۔یہ صلاحیت اور طاقت ہمیں صرف اور صرف
ایٹم بم کی شکل میں حاصل ہوئی۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ ایٹم بم کا یہ تحفہ
جس عظیم پاکستانی سائنس دان نے مملکت خداداد کو اپنی ذھانت ٗ نامساعد حالات
سے گزر کر اور سالہاسال کی تحقیق کے بعد عطا کیا ہے۔ اس عظیم پاکستانی ہیرو
کانام ڈاکٹر عبدالقدیر خاں ہے۔ دنیا کی کوئی طاقت یا کوئی حکمران ڈاکٹر
عبدالقدیر خاں کا نام پاکستانیوں کے دلوں سے بالخصوص اور دنیا بھر کے
مسلمانوں کے دلوں میں بالعموم مٹا نہیں سکتا ۔کہا یہ جاتا ہے کہ اگر قائد
اعظم محمد علی جناح نے جنوبی ایشیا میں عظیم اسلامی مملکت کو اپنی جدوجہد
سے آزاد کروایا تھا تواس مملکت کو طاقتور ممالک میں سر ٗ فخر سے بلند کرکے
جینے کا موقع ڈاکٹر عبدالقدیر خاں نے فراہم کیا ہے ۔
بدقسمتی سے وہ عظیم پاکستانی ہیرو اپنوں ہی کی زیادتیوں ‘ بزدلیوں اور
احسان فراموشیوں کا شکار ہے۔اس قومی ہیرو کو غیروں کے اشارے پر تین سال سے
زائد عرصہ قید تنہائی میں رکھاگیا ۔یہ جرم ان آمریت کے پیروکارحکمرانوں نے
انجام دیا جو آئین کو توڑنے اور انسانی حقوق کو پامال کرنے کا جرم کرچکے
تھے لیکن پھر وہ آزاد تھے بلکہ اس عظیم ملک پاکستان کے حکمران بنے رہے ٗجس
کی سربلندی اور بقا کے لئے ڈاکٹر عبدالقدیر خاں نے اپنی زندگی اور جوانی کے
بہترین سالوں کا ایک ایک لمحہ انتہائی نامساعد حالات میں وقف کئے
رکھا۔افسوس تو اس بات کا ہے کہ فوجی آمر اور امریکی کٹھ پتلی حکمران جنرل
پرویز مشرف کو اقتدار سے نکلے بھی دس سال ہوچکے ہیں لیکن بعد میں آنے والے
حکمرانوں( جن میں آصف علی زرداری اور نواز شریف شامل ہیں )نے بھی ڈاکٹر خان
کو قیدتنہائی سے رہائی تو عطا کردی لیکن وہ حقیقی مرتبہ عطا نہیں کیا جس کے
وہ حقیقی معنوں میں مستحق تھے ۔ ان کے سلب کیے جانے والے تمام حکومتی
اعزازت بھی واپس نہیں کیے گئے ۔دنیا اپنے سائنس دانوں کو سر پر بٹھاتی ہے
اور ہم انہیں دوسرے کے کہنے پر ذلیل و رسوا کرتے ہیں ۔پاکستانی قوم کی
خاموشی بھی حکمرانوں کی ہمنوائی کے راستے وا کرتی ہے ۔
بہرکیف دنیا کے طاقتور ممالک کہاں چاہتے تھے کہ پاکستان بھی ایٹمی طاقت بن
جائے کیونکہ پاکستان جیسے پسماندہ اور غریب ملک کے لئے انتہائی مہنگی ایٹمی
ٹیکنالوجی حاصل کرنا مشکل ہی نہیں ٗناممکن بھی تھا ۔ یورنیکو کے جوہری
منصوبے میں برطانیہ ‘ مغربی جرمنی اور ہالینڈ کی مشترکہ طور پر یورینم کی
افزودگی کیلئے20 سال سے دو کھرب ڈالر خرچ کرنے کے باوجود کامیابی حاصل نہ
ہوسکی بلکہ بہت سی حساس دستاویزات ترجمے کے لیے بھی یورپی ممالک کا کوئی
ترجمان نہ مل سکا یہ فریضہ بھی پاکستان کے عظیم سائنس دان ڈاکٹر عبدالقدیر
خاں نے انجام دیاٗ جنہیں جرمن ‘ انگریزی اور ڈچ زبانوں پر مکمل عبور حاصل
تھا۔
ڈاکٹر عبدالقدیر خاں کی مادر وطن سے جذباتی وابستگی وطن سے دور رہتے ہوئے
بھی کم نہ ہوئی۔ اس کا اظہار 1965 میں انہوں نے اس وقت کیا جب ہالینڈ ٹیلی
ویژن کے کمنٹیٹر پروفیسر ڈے ینگ نے پا ک بھارت جنگ کے حوالے سے مسئلہ کشمیر
کا کچھ اس انداز سے ذکر کیا کہ سارا قصور پاکستان کا نکلے۔ یہ دیکھ کر
ڈاکٹر خاں تڑپ اٹھے انہو ں نے پروفیسر ینگ کو ایک خط لکھا جس میں مسئلہ
کشمیر کے سیاق و سباق اور اس بارے میں بھارت کی زیادتیوں پر تفصیل سے روشنی
ڈالتے ہوئے انہیں حق اور سچ کا ساتھ دینے کی تلقین کی ۔ کشمیری ایشو پر
یورپین اخبارات میں متعدد آرٹیکلز بھی لکھے جس کی وجہ سے ہالینڈ میں بطور
خاص پاکستان کے حق میں بہتر فضا قائم ہوئی ۔ یہ ایک سچے اور کھرے پاکستانی
کی حیثیت سے ڈاکٹر خاں کی گراں قدر خدمات کی ابتدا تھی۔
1971 میں جب بیلجیئم ٹیلی ویژن نے سقوط مشرقی پاکستان کی ہولناک فلم دکھائی
جس میں پاک فوج کے جرنیلوں کو نہایت بے بسی کے عالم میں بھارتی جرنیلوں کے
سامنے ہتھیار پھینکتے ہوئے دکھایا تھایہ فلم دیکھ کر آپ کے دل پر گہری چوٹ
لگی۔ اسی لمحے آپ نے اپنی تمام تر ذہنی ‘ جسمانی صلاحیتیں ٗوطن عزیز کی
حفاظت کے لئے وقف کرنے کا اس مشکل ترین فیصلہ کیا تاکہ اس مکار دشمن بھارت
ٗجس نے 1965 کی ناکامی کا بدلہٗ مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش بناکر لیا وہ
باقی ماندہ پاکستان کو ختم کرنے کی سازشیں نہ کرے ۔ابھی یہ تصورات ڈاکٹر
خان کے ذہن میں گردش کرہی رہے تھے کہ 18 مئی 1974 کو بھارت نے پہلا ایٹمی
دھماکہ کرکے کھلے لفظوں میں پاکستانیوں کو یہ پیغام دے دیا کہ ایٹم بم کے
بغیر بھارت نے پاکستان کو باآسانی دو لخت کردیا تھا اب ایٹم بم کی موجودگی
میں پاکستان کی سا لمیت اور خود مختاری کو برقرار رکھنا اور بھی مشکل ہوچکا
ہے۔ اگر پاکستان نے دنیا کے نقشے پر موجود رہنا ہے تو صرف اور صرف بھارت کی
طفیلی ریاست بن کے رہنا ہوگا‘ اس کے علاوہ مستقبل میں پاکستان کا جنوبی
ایشیا میں کوئی کردار نہیں ہوگا۔ مستقبل میں پیش آمدہ خدشات کے پیش نظر
ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے اس وقت کے وزیر اعظم پاکستان ذوالفقار علی بھٹو سے
ملاقات کرنے اور انہیں ایٹمی ٹیکنالوجی کے حصول کے بارے میں اپنی خدمات پیش
کرنے کا پختہ عزم کیا۔ تاریخ گواہ ہے کہ بھٹو نے ایٹم بم حاصل کرنے کے لئے
یہ تاریخی الفاظ کہے تھے ( کہ ہم گھاس کھا لیں گے لیکن اپنی آزادی اور خود
مختاری کو برقرار رکھنے کے لئے ایٹم بم ضرور بنائیں گے) بظاہر تو بھٹو نے
یہ الفاظ کہہ دیئے لیکن ان الفاظ میں رنگ بھرنے کے لئے نہ تو پاکستان کے
پاس وسائل تھے اور نہ ہی ایٹم بم بنانے کے لیے باصلاحیت سائنس دن موجود تھے
۔اس لئے بھارت سمیت کسی بھی یورپی ملک نے بھٹو کے ان الفاظ کا برا نہیں
مانا۔ ان حالات میں ڈاکٹر خان نے بھٹو سے ملاقات کرکے انہیں یہ یقین دلا
دیا کہ وہ ایٹمی ٹیکنالوجی جو ہالینڈ ‘ جرمن ‘ اور برطانیہ کو دو کھرب ڈالر
میں 20 سالوں کی محنت کے بعد حاصل ہوئی ہے۔ وہ ٹیکنالوجی کوڑیوں کے مول ٗ
پاکستان میں ڈاکٹر خان کی خداداد صلاحیتوں کی بدولت لائی جاسکتی ہے ۔ڈاکٹر
خان نے بھٹو کو یہ بھی باور کرایا کہ انہوں نے صرف میٹالرجی میں ڈاکٹریٹ کی
ڈگری ہی حاصل نہیں کی بلکہ شعبہ فلزیات کے حوالے سے لاتعداد تحقیقی مضامین
بھی لکھے ہیں جو کتابی صورت میں دنیا بھر کے ایٹمی سائنس دانوں کے لئے ایک
اہم دستاویز کی حیثیت رکھتے ہیں ۔
ڈاکٹر خان نے جب وطن عزیز کی آزادی اور خود مختاری کو یقینی بنانے کے لئے
بھٹو کو ایٹم بم بنانے کی یقین دہانی کروائی تو بھٹو آماد ہ ہوگئے۔ چنانچہ
ڈاکٹر خان کو جنہیں ہالینڈ میں 30 ہزار تنخواہ ماہانہ ملتی تھی اس خطیر رقم
کو چھوڑ کر صرف وطن عزیز کی آزادی اور خودمختاری کی سلامتی کے لئے 3 ہزار
روپے ماہانہ پر پاکستان آنا قبول کرلیا۔ ڈاکٹر خان کا پاکستانی قوم پر یہ
دوسرا بڑا احسان تھا ۔ ہالینڈ کی فرم سے مستعفی ہوکر جب ڈاکٹر خاں پاکستان
آنے لگے تو متعلقہ فرم نے آپ کو اعلی سر ٹیفکیٹ عطا کرتے ہوئے لکھا کہ آپ
نہایت لائق اور عمدہ انجنئیر ہیں ۔
ڈاکٹر خان اور ان کی منتخب ٹیم نے بے سروسامانی کے عالم میں روزانہ 18 سے
20 گھنٹے کام کرکے ناممکن کو بالاخر ممکن بنا دیا۔ 1978 میں کہوٹہ لیبارٹری
میں یورینیم افزودہ کرنے کا تجربہ کامیاب ہوگیا۔ یہ ڈاکٹر خاں کا پاکستانی
قوم پر تیسرا عظیم ترین احسان تھا
ان کامیابیوں کو خاک میں ملانے کے لئے امریکی انٹیلی جنس سی آئی اے ہی بے
تاب نہ تھی ٗ بھارتی حکمران بھی پیش پیش تھے۔ ان کے مطابق بھارت اگر چودہ
دن میں مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش بنا سکتا ہے تو کوئی وجہ نہیں کہ کہوٹہ
ایٹمی پراجیکٹ کو چودہ منٹ میں تباہ نہ کیا جاسکے۔ دوسری جانب ڈاکٹر خاں
سمیت تما م ایٹمی سائنس دان اعصاب شکن جدوجہد میں مصروف تھے۔ پاکستانی
حکمرانوں (جن میں جنرل محمد ضیا الحق ‘ محمداسحاق خاں ‘ اور میاں محمد نواز
شریف) پر بھی عالمی طاقتوں کا سخت دباؤ موجود تھا۔ امریکہ کسی بھی صورت یہ
نہیں چاہتا تھا کہ پاکستان ایٹمی صلاحیت حاصل کرکے جنوبی ایشیا میں بھارت
کے ہم پلہ ہوجائے اور اس کی تھانیداری کو ختم کردے۔ روس کا وزن تو پہلے ہی
بھارت کے پلڑے میں تھا۔
چنانچہ مغربی پریس نے ایک طرف اسلامی ایٹم بم کا شوشہ چھوڑا تو دوسری طرف
بطور خاص ڈاکٹر خاں کی کردار کشی کی مہم کو تیز تر کردیا۔ انہیں بد معاش ‘
چور اور جاسوس قرار دیا جانے لگا۔ ڈاکٹر خاں ان دنوں گردے کی پتھری کے
عارضے میں مبتلا تھے اور اس بیماری کے ہاتھوں خاصے کمزور ہو چکے تھے۔
جسمانی ناتوانی اور ذہنی پریشانی نے انہیں خاصا مضطرب کئے رکھا لیکن اس وقت
ان کو اس لئے حوصلہ تھا کہ پاکستانی قوم سمیت پاکستانی حکمران بھی ان کی
وکالت اور حفاظت کے لئے سربکف تھے بلکہ انہوں نے کسی بھی لمحے ڈاکٹر خان کو
تنہا نہیں چھوڑا۔ افسوس تو اس بات کا ہے کہ جب اﷲ تعالی کے فضل و کرم
اورڈاکٹر خان کی تمام تر جدوجہدسے پاکستان کامیاب ایٹمی دھماکے کرکے بھارت
کے ہم پلہ ہوگیا ۔ بھارت پاک سرزمین کی جانب آنکھ اٹھا کر دیکھنے کی جرات
نہیں کرسکتا تھا۔ اس لمحے ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو پاکستان کے فوجی حکمران
جنرل پرویز مشرف نے امریکی حکم پر ہیرو سے نہ صرف زیرو بنانے کی حتی
المقدور کوشش کی ہے بلکہ انہیں قید تنہائی میں نظر بند کرکے ذہنی اور
جسمانی اذیتوں میں مبتلا بھی کیے رکھا ۔ ڈاکٹر خان ماشااﷲ اب 75 سال کے
ہوچکے ہیں ۔ ہائی بلڈپریشر ‘ شوگر سمیت کئی موذی امراض نے انہیں گھیر رکھا
ہے ۔اس کے باوجود کہ اب وہ بظاہر آزاد ہیں لیکن انہیں وہ تمام اعزازات بھی
تک واپس نہیں کیے گئے جو ان کی گراں قدر خدمات کے عوض عطا کیے گیے تھے
اورنہ ہی انہیں ان کے مرتبے کے مطابق صدر پاکستان کا مرتبہ عطا کیا گیا ۔
موجودہ صدر ممنون حسین میں کونسی خوبیاں ہیں جو ڈاکٹر خان میں نہیں ہیں ۔
وطن عزیزکی حفاظت اور دفاع کو مضبوط بنانے کے حوالے سے ڈاکٹر خان کی خدمات
22 کروڑ پاکستانیوں سے کہیں زیادہ ہیں اس لیے ان کا حق بنتا ہے کہ انہیں یا
تو صدر پاکستان کے منصب پر فائز کیاجائے اگر ایسا نہیں ہوسکتا تو فی الوقت
نگران وزیر اعظم مقرر کردیاجائے ۔ ان سے زیادہ غیر جانبدار اور پاکستانی
قوم کا وفا دار اور کون ہوگا ۔
ڈاکٹر عبدالقدیر خان جیسے لوگ صدیوں میں پیدا ہوتے ہیں ان حالات میں کیا
پاکستانی مائیں اپنے بچوں کو سائنس دان بنائیں گی ؟ آخر میں‘ میں تو صرف
یہی کہوں گا کہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کل بھی پاکستانی قوم کے ہیرو تھے آج
بھی ہیرو ہیں اور آنے والے کل بھی ہیرو ہی کہلائیں گے ۔فرق صرف یہ ہے کہ وہ
ابھی زندہ ہیں اور زندہ ہیروز کی قدر کرنا ہماری روایات میں شامل نہیں ہے ۔
ایم ایم عالم نے پاک فضائیہ کی جانب سے ایک منٹ میں پانچ بھارتی جنگی جہاز
گرا کر عالمی ریکارڈ قائم کیا تھاوہ بھی جب زندہ تھے تو کسی حکومتی عہدیدار
نے ان کی مزاج پرسی بھی نہیں کی لیکن جیسے وہ ان کی روح جسم سے الگ ہوئی تو
میانوالی ائیرپورٹ کا نام ان کے نام سے منسوب کردیاگیا اور ملک بھر میں ان
کی خدمات پر بے شمار سیمینار اور تعزیتی اجلاس منعقد ہوئے ۔ میں یہ بات
دعوی سے کہتاہوں کہ جب ڈاکٹر خان قضائے الہی سے اس دنیا سے رخصت ہوئے تو
قائداعظم کی طرح ان کی تصویر یں بھی ہمارے دلوں ‘ گھروں او ر دفتروں میں
ہمیشہ سجنی شروع ہوجائیں گی حکومت ان کے نام کاڈاک ٹکٹ جاری کرے گی اور
شعبہ سائنس کے طالب علموں کے لیے ڈاکٹر خان ایوارڈ کا اجرا کیا جائے ۔یہ
ہماری روایا ت ہیں۔مسلم لیگی رہنما یہ کہتے ہوئے نہیں تھکتے کہ نواز شریف
جس پر ہاتھ رکھ دیں وہ صدر اور وزیر اعظم بن جاتا ہے تو کیا نواز شریف
ڈاکٹر خان کی خدمات سے آگاہ نہیں ہیں ۔اگرممنون حسین اور شاہد خاقان عباسی
کو وزیر اعظم بنایاجاسکتا ہے تو قوم ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو نگران وزیر
اعظم کے روپ میں یا صدر پاکستان کے منصب پر براجمان دیکھنا چاہتی ہے ۔ آنے
والی نسلیں پکار پکار کر اپنے بزرگوں سے پوچھیں گی کہ جو لوگ ڈاکٹر
عبدالقدیر خاں کے دور حیات میں زندہ تھے انہوں نے ان کی پذیرائی کے لئے
کیوں کچھ نہیں کیا ۔28 مئی کا دن تو ہم بہت دھوم دھام سے مناتے ہیں لیکن اس
دن کو پاکستانی قوم کے لیے اہم بنانے والے ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو ہم کیوں
بھول جاتے ہیں ۔
|