آپ نے اپنے ملک میں، اللہ والے، دل والے، قرآن والے ،
حدیث والے ، مولا والے، پیرومرشد والے اور طرح طرح کے متوالے و جیالے دیکھے
ہونگے۔ یہ سب مختلف موضوعات پر اپنا اپنا موقف رکھتے ہیں۔ یہ تو ہم جانتے
ہی ہیں کہ موقف بتانے کے لئے ہوتا ہے، موقف کے اظہار کے مختلف طریقے ہیں،
کبھی اشارے کنائے میں، کبھی تحریر یا تقریر سے ، کبھی شعر یا داستان سے اور
کبھی فتوئے یا حکم سے موقف کا اظہار کیا جاتا ہے۔
آپ کو یاد ہوگا کہ سال ۲۰۰۴ میں لال مسجد سے یہ فتویٰ جاری کیا گیا تھا کہ
جنوبی وزیرستان میں پاکستانی فوج کا اگر کوئی فوجی قبائلیوں اور غیرملکی
مجاہدین سے لڑتا ہوا جاں بحق ہو جائے تو اس کی نمازِ جنازہ نہ پڑھائی جائے،
اس فتوے پر پانچ سو دیوبندی علمائے کرام نے دستخط کئے تھے، اس کے بعد سال
۲۰۰۷ میں اللہ والوں نے اسلام آباد میں شریعت یا شہادت کا نعرہ لگایا
تھا۔بات کچھ یوں تھی کہ حکومت نے ایک مسجد کو غیرقانونی قرار دے کر اسے
مسمار کر دیا تھا،جس کے جواب میں اللہ والوں کی طالبات نے نزدیکی لائبریری
پر قبضہ کر لیا تھا، یعنی اللہ والوں کے لئے ساری زمین اللہ کی ہے لہذاوہ
جہاں چاہیں مسجد یا مدرسہ بنا لیں یا لائبریری پر قبضہ کر لیں۔
۲۷ مارچ ۲۰۰۷ کو اللہ والوں کی طالبات اسلام آباد میں جی سکس کے کوارٹروں
میں گھس کر کچھ خواتین کو اٹھا کر جامعہ حفصہ میں لے آئیں کہ یہ خواتین
شریعت کی پابندی نہیں کرتیں۔موقف یہ اختیار کیا گیا کہ جب انتظامیہ نوٹس
نہیں لے گی تو کیا لوگ ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہیں گے۔
یہ تفکر اور یہ سوچ ہمارے ہاں ایک اقلیت نے عوام میں راسخ کر دی ہے کہ جب
حکومت نوٹس نہیں لیتی تو عوام قانون کو اپنے ہاتھ میں لے لیں۔۲۱ جنوری ۲۰۰۷
کو اللہ والی طالبات نے قبضہ شدہ لائبریری سے قبضہ چھوڑےنے کے لئے جو شرائط
حکومت کے سامنے رکھیں ان میں سے سر فہرست شرط یہ تھی کہ ملک میں اسلامی
نظام نافذ کیا جائے۔
قارئین توجہ فرمائیں کہ مطالبہ تو اسلامی نظام نافذ کرنے کا کیا جا رہا ہے
اور خود لائبریری پر قبضہ کر رکھا ہے، مطالبہ تو اسلامی نظام کا ہے اور خود
اپنے نزدیکی علاقے کی خواتین کو گھروں سے اٹھا کر مدرسے میں لاکر ان کی
درگت بنائی گئی ہے۔اس واقعے کے بعد جامعہ حفصہ کی پرنسپل اور مولانا
عبدالعزیز کی اہلیہ نے ایک انگریزی ماہنامے کو انٹرویو دیتے ہوئے کہاتھا کہ
اس گند کو صاف کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے لیکن حکومت اپنے فرائض انجام نہیں
دے رہی اور گند مجھے صاف کرنا پڑ رہا ہے۔
اس سے پتہ چلتا ہے کہ یہ تفکر ہمارے معاشرے میں اس حد تک اپنی جڑیں گہری کر
چکا ہے کہ موقع ملنے پر خواتین بھی قانون کو ہاتھ میں لینے سے دریغ نہیں
کرتیں۔
۲۲جون ۲۰۰۷ کی رات کو یہ خبر سامنے آئی تھی کہ لال مسجد کی طالبات ایف ایٹ
تھری سے تین مردوں اور چھ چینی خواتین کو اٹھا کر لے آئی ہیں۔ اس پر
اٹھانے والوں کا موقف یہ تھا کہ اگر حکومت مساج سینٹروں کو بند نہیں کرائے
گی تو کیا ہم منہ دیکھتے رہیں گے۔
اب آئیے چھ سال کے بعد اسلام آباد کے پڑوس راولپنڈی میں ہی دیکھئے جہاں
اللہ والوں کا ایک مدرسہ ہے ، اس کے سامنے سے میلاد النبیﷺ اور محرم الحرام
کے جلوس گزرتے ہیں، اللہ والوں نے ان جلوسوں کو روکنے کے لئے کئی مرتبہ
درخواستیں دیں لیکن کچھ اثر نہیں ہوا تو اب کیا اللہ والے چپ چاپ بیٹھے
رہتے ، انہوں نے آگے بڑھ کر دس محرم الحرام کو اپنے ہی مدرسے کو خود آگ
لگا دی اور اپنے ہی بندوں کو ہلاک کر دیا۔
اس بارے میں میجر جنرل آصف غفور کا کہناتھا کہ راولپنڈی میں مسجد پر حملہ
کرنے والے اسی مسلک کے تھے، مسجد میں آگ لگانے والوں کا مقصد فرقہ واریت کو
ہوا دینا تھا ۔اس موقع پر کالعدم تحریک طالبان کے دہشتگرد اجمل خان کا
اعترافی بیان بھی چلایا گیا۔ بیان میں اس کا کہناتھا کہ میرا تعلق باجوڑ
سےہےاورمیں 2012میں پاکستان آیا ،ہم 8لوگ ہیں، ہمیں ہدایات دی گئیں کہ
10محرم کوکالےکپڑے پہنے اورحملہ کرواس سےشعیہ اورسنی آپس میں لڑیں گے اور
حالات خراب ہو جائیں گے۔ پاک فوج کے ترجمان کا کہناتھا کہ حملے کے بعد ایسا
دعویٰ کیا گیا کہ شیعہ تنظیم نے اس کی ذمہ داری قبول کی ہے ،آئی ایس آئی نے
اس پر بہت کام کیا اور پورا نیٹ ورک بے نقاب کیا ۔
انہوں نے کہا کہ پاک فوج نے 2013میں سنی مسجد پر حملہ کر کے ہر طرف دہشت کی
فضا پھیلانے والے دہشتگردوں کے نیٹ ورک کو پکڑ لیاہے اور ان کا اعترافی
بیان بھی جاری کر دیاہے ۔ اعترافی بیان دیتے ہوئے کہا کہ وہ آٹھ لو گ تھے
،جن میں عبدالرشید جو کہ امیر تھا ،بشیراللہ ،عنایت الرحمان ،اجمل
،عبدالرزاق ،لاونگ اور سلطان زیب شامل ہیں ,میرا تعلق باجوڑ سے ہے اور
2012میں مجھے یہاں تعینات کیا گیا ۔ان کا کہناتھا کہ شیر گل نے حملے کا حکم
دیا ،ہم عبدالرزاق کے گھر اکھٹے ہوئے اور مشورہ کیا ،10محرم کو جب ہم
منصوبے کو انجام دینے کیلئے راجہ بازار پہنچے تو اس وقت جمعہ کا وقت تھا
،ہم تمام لوگ وہاں اکھٹے ہوئے اور پھر آدھے اوپر والی منزل پر چلے گئے اور
آدھے نیچے والی منزل پر ،کارروائی کرنے کے بعد آگ لگائی اور وہاں سے فرار
ہو گئے ۔
دوسری جانب دہشتگر د اجمل کا کہناتھا کہ افغانستان میں ہمارا کمانڈر ہے جس
کا نام شیر گل ہے جبکہ پنڈی میں شاہ زیب نامی شخص ہمارا کمانڈر ہے ۔ ترجمان
پاک فوج نے کہا کہ راولپنڈی میں مسجد پر حملے کا نیٹ ورک پکڑا گیا،
گرفتاردہشت گردوں کواین ڈی ایس اور”را” کی حمایت حاصل تھی، اس حملے میں اسی
مسلک کے لوگ ملوث تھے، ان کا مقصد ملک میں فرقہ واریت کو ہوا دینا تھا۔
اب جب ایم ایم اے بنی ہے تو پاکستان کا ہر باسی یہ جاننا چاہتا ہے کہ جولوگ
بھی ایم ایم اے میں شامل ہیں وہ چاہے اللہ والے یا حدیث والے یا قرآن والے
یا جوبھی ہیں یہ تو واضح کریں کہ وہ قائداعظم اور علامہ اقبال والے بھی ہیں
یا نہیں!؟
کیا وہ قائداعظم محمد علی جناح کو بابائے قوم تسلیم کرتے ہیں؟
کیا وہ علامہ محمد اقبال کو اپنا روحانی باپ مانتے ہیں؟
کیا وہ قبائلیوں کے ہاتھوں مارے جانے والے پاکستانی فوجیوں کو شہید سمجھتے
ہیں ؟
کیاوہ پاکستان کے قانون اور قانونی اداروں پر اعتماد کرتے ہیں ؟
کیا وہ قانون کو اپنے ہاتھوں میں لینے کو جرم سمجھتے ہیں؟
اگر یہ دینی اتحاد ہے تو بتایا جائے کہ یہ اتحاد کس نظام پر ہوا ہے؟
کیا نظامِ امامت کو اپنانے پر اتحاد کیا گیا ہے ؟ یا امارت ِ اسلامیہ کے
قیام پر یا خلافت کے قیام پر اور یا پھر قدیم ملوکیت یا مغربی جمہوریت یا
تھیو کریسی پر ایکا کیا گیا ہے!؟
یہ سوالات اس ملت اور ریاست کی طرف سے ایم ایم اے کی گردن پر قرض ہیں، ملک
و قوم کی سلامتی اور تحفظ کے لئے ضروری ہے کہ جلد از جلد ان سوالات کے
جوابات دئیے جائیں۔ |