اور آدھے مولانا صاحب

پی پی کی نئی انگڑائیاں اچھی ہیں۔سینٹ الیکشن بلاشبہ تاریخ سازرہے۔جناب زرداری نے ثابت کردیا ہے کہ اگر انہیں آج بھی تھوڑی فرصت اور زرا سی شفقت حاصل ہوجائے تو انہونی کو ہونی بنانے کی قابلیت رکھتے ہیں۔ اگر پرد ہ نشین انہیں فرصت نہ مہیاکرتے تو اس طرح کاکھیل کبھی نہ کھیلا جاسکتا۔انہوں نے نوازشریف کے لیے تو راتوں کی نیند حرام کیے رکھی مگر جناب زرداری صاحب کی آنیوں جانیوں سے قصدا آنکھیں موندے رکھیں۔اگر پی پی قیادت کا حساب کتاب بھی ان دنوں زیر پرسش ہوتاتو وہ کبھی بھی بلوچستان کا انقلاب برپا نہ کرپاتے۔انہیں مکمل فرصت دی گئی۔فرشتوں کی سہولت کاری نے یہ مکروہ کھیل نجیجہ خیز بنایا۔ایک اٹھان مولانا فضل الرحمان نے بھی اٹھائی ہے۔ ایم ایم اے کی کمان دوبارہ سنبھال لینے کے بعد وہ خاصے پرامید ہیں۔وہ سمجھتے ہیں کہ اگلے الیکشن محفوظ ہوچکے ہیں۔مولانا فضل الرحمان کا کہنا ہے کہ ہمارے سیاسی، مالیاتی، دفاعی ادارے دباؤ کے شکارہیں۔اس دباؤ سے نکلنے کے لیے سوچنا ہوگا۔پاکستان میں فیصلے کہاں ہوتے ہیں۔سب جانتے ہیں۔لیکن اس کا اظہار سب سے مشکل ہے۔ہم اپنے اداروں سے پوچھتے ہیں کہ وہ کسی کی جنگ لڑرہے ہیں۔سیاست دانوں کو چو رثابت کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔میڈیا میں حقیقی مسائل تلاش کرنے کی بجائے سیاست دانوں کی شکل میں چور تلاش کیے جارہے ہیں۔میڈیا اپنے اندر بھی حقائق بتانے کی جرت پیداکرے۔

مولانا صاحب کی باتیں بڑی ایمان افروز ہیں۔وہ ملک کو چمٹی ان عفریتوں کا ذکر کررہے ہیں۔جو پچھلے ستر سالوں سے قوم کو دبوچے ہیں۔انہوں نے بجا طور پر فیصلے کہیں اور سے ہونے کا ذکر کرکے سیاسی بصیرت رکھنے کا ثبوت دیاہے۔وہ میڈیا کو حقائق بتانے کی تلقین کررہے ہیں۔کہہ رہے ہیں کہ وہ حقیقی مسائل کو تلاش کرے سیاست دانو ں کی شکل میں چور تلاش کرنے سے بازرہے۔موالانا صاحب کے افکار بڑے پاکیزہ ہیں۔مگر انہیں بھی اب اپنا روایتی کردار بدلنے کی ضروت ہے۔وہ افکار اور باتیں تو بڑی شاندار کرتے ہیں مگر ان کا عملا کردار ایک الگ تصویر لیے ہوئے ہے۔سینٹ الیکشن میں جو کچھ ہوا۔اگر اس میں مولانا صاحب کی سپورٹ نکال لی جائے تو شاید یہ انہونی نہ ہوتی۔وہ بار بار میاں صاحب کو اپنی حمایت کا یقین دکھارہے ہیں۔مگر جس طرح انہوں نے بلوچستان اسمبلی کی ہیر پھیر میں خاموشی اختیارکیے رکھی۔اس نے اس حمایت کے کھوکھلا ہونے کا شک پیدا کیا۔ان کی طرف سے مسلم لیگ ن کا وزیر اعلی بچانے کے لیے اتنی بھاگ دوڑ نہیں دیکھی گئی۔جتنی زرداری صاحب کے ساتھیوں نے ان کے لیے کی۔یہی نہیں جن دنوں چیئرمین سینٹ کے الیکشن ہورہے تھے۔مولانا صاحب کی آنیوں جانیوں نے بھی ان کی حمایت کی کوئی واضح تصویر نہیں بننے دی۔عین اس وقت جب میاں صاحب اپنے اتحادیوں کو لیے سینٹ چیئرمین کی نامذدگی کو بیٹھے ہوئے تھے۔مولانا صاحب کی غیر حاضری نے کسی نامذدگی کو التوا میں ڈال دیا۔

مولانا صاحب انقلاب بلوچستان کے سہولت کار بھلے ہی نہ ہونگے۔مگر اس کے مزاحم کار کبھی نہ قراردیے جاسکیں گے۔وہ اب ایم ایم اے کے احیا ء پر خوش ہیں مگر کیا ان کے پاس اس بات کی گارنٹی ہے کہ ایم ایم اے دوبارہ کوئی کمال دکھا سکتاہے۔جن دنوں کما ل دکھا یا گیا تھا۔تب یہ ملا ملٹر ی الائنس تھا۔اب یہ صرف متحدہ مجلس عمل ہے۔ایم ایم اے کی ان دو الگ الگ تعبیر وں میں کتنا فرق ہے۔وہ مولانا صاحب جلد دیکھ لیں گے۔یہ درست ہے کہ تب بھی مولانا صاحب اس کی داغ بیل میں کلیدی کردار کرچکے ہیں۔مگر تب انہیں جو غیبی امداد حاصل تھی۔آج نہیں ہے۔ آج وہ امداد کوئی دوسرے بھائی بند لے رہے ہیں۔مولانا صاحب کو فیصلے کہیں اور سے ہونے کا گلہ ہے۔مگر یہ فیصلے بھلا کیوں نہ کسی او رجگہ سے ہونگے۔جب اصل فیصلہ کرنے والے بھاگتے چور کی لنگوٹی پر ہی اکتفا کرنے والے ہوجانئیں گے تو فیصلوں کا محور یقینا بدل جائے گا۔انہیں میڈیا سے گلہ ہے۔مگر وہاں بھی مولانا جیسے درد دل رکھنے والے بیٹھے ہیں۔سابق وزیر اعظم ان دنوں ہر کسی کے لیے تحت مشق بنے ہیں۔اس کا سبب شاید ان کا وہ انتخاب ہے جس کی جانب مولانا صاحب اشارہ کر رہے ہیں۔نوازشریف فیصلے وہی سے ہونے کی ضدکررہے ہیں جہاں سے مولا صاحب کی فرمائش ہے۔مگر کوئی ا ن کا ساتھ نہیں دے رہا۔نام نہاد جمہوریت کے علمبردار ان کا راستہ روکے کھڑے ہیں۔ان کے ساتھ اگر کوئی کھڑا ہے تو بزنجواور اچکزئی ہیں۔یا پھر آدھے ادھورے مولانا صاحب۔
 

Amjad Siddique
About the Author: Amjad Siddique Read More Articles by Amjad Siddique: 222 Articles with 141084 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.