پاکستان میں دینی جماعتوں کے اتحاد متحدہ مجلس عمل کو
فعال کردیا گیا ہے۔ ذرایع کے مطابق متحدہ مجلس عمل نے ملک بھر سے قومی
اسمبلی کی 200 نشستوں اورصوبائی اسمبلیوں کی 390 نشستوں پرالیکشن لڑنے کا
فیصلہ کیا ہے۔ ملک بھر میں قومی و صوبائی اسمبلیوں کے200 سے زائد حلقوں میں
دینی جماعتوں کا مضبوط ووٹ بینک موجود ہے۔ متحدہ مجلس عمل کا پلیٹ فارم5
مذہبی جماعتوں پرمشتمل ہے۔ 2001ء میں جماعت اسلامی،جمعیت علمائے
اسلام(ف)جمعیت علمائے اسلام(س)، جمعیت علمائے پاکستان، جمعیت اہلحدیث اور
تحریک فقہ جعفریہ پر مشتمل ملک کی چھ بڑی دینی جماعتوں کا اتحاد ’’متحدہ
مجلس عمل‘‘ قائم ہوا تھا۔ 2002ء میں بھرپور انداز میں متحدہ مجلس عمل کے
پلیٹ فارم سے دینی سیاسی جماعتوں نے الیکشن لڑا اور قومی اسمبلی کی
342نشستوں میں سے 63نشستیں اورصوبائی اسمبلی کی99 نشستوں پر کامیابی حاصل
کی تھی۔ صوبہ خیبر پختونخوا میں قومی اسمبلی کے تین نشستوں کے علاوہ صوبے
کے تمام قومی اسمبلی کے نشستیں،صوبہ سندھ 5،صوبہ پنجاب میں 3 اور صوبہ
بلوچستان میں قومی اسمبلی کے 6 نشستیں متحدہ مجلس عمل کے اتحاد کو ملیں۔
اسی اتحاد نے سینیٹ کی100 میں سے 6 نشستیں بھی حاصل کیں۔
2002ء کے انتخابات میں پہلی مرتبہ ملکی سیاست میں دینی سیاسی جماعتوں کی
حیرت انگیز کامیابی کے بعد قومی اسمبلی میں متحدہ مجلس عمل نے اپنا اپوزیشن
لیڈر ،خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں متحدہ مجلس عمل نے اپنی حکومت بنائی۔
تاہم 2008ء میں انتخابات میں متحدہ مجلس عمل کا یہ اتحاد باقاعدہ ٹوٹ گیا۔
2013ء کے الیکشن میں متحدہ مجلس عمل کو ملک بھر سے گنتی کی چند سیٹیں ملی
تھیں، حالانکہ مذہبی جماعتوں نے 1800 امیدوار میدان میں اتارے تھے۔ مذہبی
جماعتوں کے اتنے زیادہ امیدواروں میں سے قومی اسمبلی کی 11سیٹیں جمعیت
علماء اسلام اور صرف 3سیٹیں جماعت اسلامی کو ملی تھیں۔ اس کے علاوہ صوبائی
اسمبلی میں تمام مذہبی جماعتوں کو تیس سے بھی کم سیٹیں ملیں۔ خیبر پختونخوا
میں تقریباً ہر سیٹ پر جماعت اسلامی اور جمعیت علماء اسلام کے امیدوار
مدمقابل تھے،اس کے علاوہ کئی سیٹوں پر ان دو کے ساتھ متحدہ دینی محاذ اور
جمعیت علماء اسلام نظریاتی کے امیدواربھی مدمقابل تھے، اس سے یہ ہوا کہ
مذہبی ووٹ چار جماعتوں میں بٹ گیا، جس سے دوسری جماعتیں فتح پاگئیں۔اس کے
علاوہ پنجاب، سندھ اور بلوچستان میں بھی بے شمار ایسی سیٹیں تھیں، جن پہ
کئی کئی مذہبی امیدوار کھڑے تھے۔صرف خیبر پختونخوا میں مذہبی امیدواروں نے
دو درجن کے لگ بھگ نشستیں ایک سے پانچ ہزار ووٹوں کے فرق سے ہاریں اور یہ
وہی فرق تھا جو دوسری جانب کسی دوسری دینی جماعت کے امیدوار کی جانب سے ووٹ
کاٹے جانے سے پیدا ہوا۔
اب متحدہ مجلس عمل کا اتحاد دوبارہ فعال ہوگیا ہے، لیکن اب اس اتحاد کے لیے
الیکشن 2018ء میں بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا اور متحدہ مجلس عمل
کو سیاسی طور پر ماضی کی طرح کامیابی ملنا تقریبا ً ناممکن ہے، کیونکہ
2002ء کے انتخابات میں متحدہ مجلس عمل کو جو کامیابی حاصل ہوئی تھی، وہ
کامیابی اس وقت کے معروضی حالات کے تناظر میں تھی۔ 2002ء کے انتخابات سے
قبل امریکا نے افغانستان پر حملہ کیا، جس کا رد عمل پورے عالم اسلام میں
سامنے آیا اور پاکستان افغانستان کا پڑوسی ہونے کی حیثیت سے اس رد عمل کا
مرکز ٹھہرا۔ پاکستان کی دینی جماعتوں نے نئے حالات کا مقابلہ کرنے کے لیے
اتحاد کا فیصلہ کیا اور متحدہ مجلس عمل قائم کرکے الیکشن میں نمایاں
کامیابی حاصل کی، مگر اب حالات بہت مختلف ہیں۔ 2002ء کے الیکشن میں مسلم
لیگ ن کی قیادت کی عدم موجودگی اور اس کے مختلف دھڑوں میں تقسیم کا فائدہ
بھی متحدہ مجلس عمل کو پہنچا تھا۔ ماضی میں خیبر پختونخوا میں جہاں متحدہ
مجلس عمل نے بے مثال کامیابی کے جھنڈے گاڑے تھے، آج وہاں پاکستان تحریک
انصاف ایک بڑی سیاسی قوت کے طور پر موجود ہے۔ پاکستان تحریک انصاف کے ہوتے
ہوئے متحدہ مجلس عمل کو خیبرپختونخوا میں ہی کامیابی ملنا مشکل ہے، دیگر
صوبوں میں اس کے امیدواروں کی کامیابی کے امکانات تو ویسے ہی نہایت معدوم
ہیں۔ الیکشن 2002ء میں متحدہ مجلس عمل نے بلوچستان سے بھی بڑی کامیابی حاصل
کی تھی، لیکن اب وہاں بھی متحدہ مسلم لیگ کا شور سنائی دے رہا ہے، جس سے
متحدہ مجلس عمل کے ووٹ پر یقینا اثر پڑے گا۔ متحدہ مجلس عمل کے لیے ماضی کے
مقابلے میں اہل سنت والجماعت، تحریک لبیک اور ملی مسلم لیگ بھی ایک برا
چیلنج ہے،تینوں مذہبی جماعتیں اگر متحدہ مجلس عمل کے مقابلے میں اپنے
نمائندے کھڑے کریں گی تو یقینا اس کا نقصان متحدہ مجلس عمل کو ہوگا۔ اس کے
ساتھ صوبہ خیبرپختونخوا میں مولانا سمیع الحق بھی تحریک انصاف کے ساتھ نظر
آرہے ہیں، جو یقینا مجلس عمل کے لیے پریشان کن صورتحال ہے۔ اس لیے متحدہ
مجلس عمل کو ماضی کے مقابلے میں بہت مختلف صورتحال کا مقابلہ کرنا پڑے گا۔
اگر متحدہ مجلس عمل نے الیکشن 2018ء کو ہلکا لیا اور بہترین اور پائیدار
حکمت عملی نہ اپنائی تو کوئی بڑی کامیابی حاصل نہیں ہوسکے گی اور آئندہ
الیکشن میں متحدہ مجلس عمل کا کردار انتہائی محدود ہو گا۔
جماعت اسلامی کے مرکزی رہنما لیاقت بلوچ نے روزنامہ اسلام سے گفتگو کرتے
ہوئے کہا ہے کہ حکمران جماعت اور دیگر جماعتوں نے عوام کو مایوس کیا ہے،
معاشرے میں بدتہذیبی اور سیاسی انتہاپسندی کو فروغ دیا ہے۔اب متحدہ مجلس
عمل امید کی کرن ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ متحدہ مجلس عمل ماضی کے مقابلے میں
اچھی کامیابی حاصل کرے گی۔ ہر الیکشن کے اپنے تقاضے ہوتے ہیں اور اپنی
ضروریات ہوتی ہیں۔ اس الیکشن میں متحدہ مجلس عمل کو اس لیے بھی زیادہ
کامیابی ملے گی، کیونکہ پوری قوم دیگر تمام جماعتوں سے مایوس ہوچکی ہے۔ ان
کا کہنا تھا کہ مذہبی جماعتوں کا اتحاد برقرار رہنا چاہیے تھا، لیکن جب سے
یہ اتحاد ٹوٹا، ہم لوگ رابطے میں تھے۔ اس اتحاد میں شامل جماعتوں کو کچھ
اختلافات اور تحفظات تھے، مگر قیادت کا کام تمام اختلافات اور تحفظات کو
ختم کرنا ہوتا ہے،ان اختلافات اور تحفظات کو ختم کردیا ہے۔ مذہبی جماعتوں
کے اس اتحاد کا مقصد آئینی اور جمہوری طریقے سے اقتدار کی حفاظت کرنے، ملک
میں صاف ستھراسیاسی ماحول فراہم کرنے اور عوام کے مسائل دور کرنے کے لیے
ہے۔
جمعیت علمائے اسلام کے رہنما مولانا راشد محمود سومرو نے روزنامہ اسلام سے
گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ متحدہ مجلس عمل ماضی سے بھی زیادہ کامیابی حاصل کرے
گی۔ دیگر جماعتیں ناکام ہوچکی ہیں۔ خیبرپختونخوا میں پی ٹی آئی ناکام ہوچکی
ہے۔ اس لیے اب متحدہ مجلس عمل مرکز میں حکومت بنانے کے ساتھ ملک کے تین
صوبوں میں بھی حکومت بنائے گی۔ اس اتحاد میں شامل جماعتوں میں اگرچہ کچھ
اختلافات پیدا ہوگئے تھے، جس کی وجہ سے یہ اتحاد برقرار نہ رہ سکا۔ ہمیں یہ
احساس ہے کہ یہ اتحاد نہیں ٹوٹنا چاہیے تھا، لیکن اب دوبارہ یہ اتحاد بنا
ہے۔ اب اس اتحاد میں شامل تمام جماعتوں کے لیے مجلس عمل کا جھنڈا ہی سب سے
عزیز ہے۔ ملک میں دیگر مذہبی جماعتیں بھی ہیں، جو مجلس عمل میں شامل نہیں،
لیکن ان کی وجہ سے ہمارا ووٹ ٹوٹنے کا خطرہ اس لیے نہیں ہے، کیونکہ یہ
جماعتیں حکومت مخالفت کے نعرے پر الیکشن لڑیں گی، ہمارا اپنا ووٹ بینک ہے۔
|