عالمی سطح پر امریکہ اور روس کے درمیان حالات سنگین رخ
اختیار کرتے جارہے ہیں۔ یمن اور شام کی خانہ جنگی میں ایک طرف امریکہ اور
اس کے اتحادی شامی اپوزیشن کے ساتھ ہیں تو دوسری جانب روس اور ایران صدر
شام بشارالاسد کوہر ممکنہ تعاون فراہم کررہے ہیں۔شام اور یمن کی جنگ سے
سوال اٹھتا ہیکہ کہیں یہ عالمی سطح پر تیسری عالمی جنگ کا آغازتو نہیں۰۰۰؟
امریکہ سعودی عرب پر کافی مہربان نظر آتا ہے۔ویسے سعودی عرب اور امریکہ کے
درمیان تعلقات ابتداء ہی سے دوستانہ رہے ہیں ۔امریکہ کی دوستی سعودی عرب پر
کب دشمنی میں بدلے گی اس تعلق سے کچھ کہا نہیں جاسکتا البتہ ان دنوں سعودی
ولیعہدو وزیر دفاع شہزادہ محمد بن سلمان امریکہ کے دورہ پر ہیں۔ شہزادہ
محمد بن سلمان کا استقبال ،امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے وائٹ ہاؤ ز
میں کیا گیااور دونوں قائدین کے درمیان کروڑوں ڈالرس کے معاہدے طے پائے۔
محمد بن سلمان ویژن 2030کے تحت سعودی معیشت کو بامِ عروج پر پہنچانا چاہتے
ہیں ۔سعودی عرب کا انحصار تیل کی دولت پر ہے لیکن محمد بن سلمان تیل کے
بجائے دیگرمعاشی ذرائع تلاش کرنے کی جستجو میں لگے ہوئے ہیں۔ انہو ں نے
سعودی عرب میں کئی ایک تبدیلیاں لاتے ہوئے خواتین کو آزادانہ ماحول فراہم
کررہے ہیں۔گذشتہ دنوں شہزادہ محمد بن سلمان اپنی نجی تعش پسند زندگی کے
بارے میں کہا کہ وہ نہ تو گاندھی جی ہیں اور نہ ہی منڈیلا۔انہوں نے دو
عالمی قائدین کا حوالہ دیا۔ کاش ایک لمحہ کے لئے انہیں احساس ہوتا کہ وہ
رہتی دنیا تک دنیا کی سب سے عظیم ہستی پیغمبر انسانیت صلی اﷲ علیہ و سلم کے
اُمتی ہیں، جن کی سادگی، انداز حکمرانی کی سب ہی مثال دیتے ہیں۔شہزادہ محمد
بن سلمان کا کہنا تھا کہ وہ ایک شاہی گھرانے کے فرد ہیں اور خوشحال عیش و
آرام کی زندگی گزارنا پسند کرتے ہیں۔سعودی شاہی حکومت نے مملکت میں تارکین
وطنوں پر کئی طرح کے ٹیکس لاگو اور فیس میں اضافہ کرکے پریشان کن صورتحال
سے دوچار کیا ہوا ہے ۔ لاکھوں تارکین وطن سعودی عرب چھوڑنے پر مجبور ہوگئے
ہیں ،اور کئی لاکھ تارکین وطن نے اپنے اہل و عیال کو انکے ملک واپس بھیج
دیا ہے اور یہ سلسلہ ابھی جاری ہے کیونکہ افراد خاندان کو مملکت میں رکھنا
جوئے شیر لانے کے مترادف ہوچکاہے۔ذرائع ابلاغ کے مطابق سعودی شہریوں کو
روزگار سے مربوط کرنے کے لئے حکومت نے تارکین وطنوں کی چھٹی کردی یا انہیں
اس طرح مجبور کیا گیا کہ وہ نوکری چھوڑ کر اپنے ملک واپس چلے جائیں۔لاکھوں
تارکین وطن سعودی حکومت کی سخت پالیسوں سے تنگ آکر اپنے اپنے ملک واپس
ہورہے ہیں ۔ان تارکین وطنوں کی واپسی سے سعودی عرب میں ان دنوں کم تنخواہوں
یا کم اجرت پر کام کرنے والوں کا قحط پڑچکا ہے۔ شہزادہ محمد بن سلمان نے
اپنے امریکی دورہ کے موقع پر ایک طویل انٹرویودیا جس میں انہوں نے کہاکہ
سعودی عرب ساری دنیا کے سامنے یہ اعلان کرے گا کہ وہ انتہا پسندی کو کچل
دینے کیلئے کام کررہا ہے۔ انہوں نے اسکولوں اور تعلیم میں اب تک دی جانے
والی انتہا پسندی کے درس کے بارے میں بھی بات کی اور زور دے کر کہا کہ اب
تعلیمی نظام سے انتہا پسندانہ نظریات کو دور رکھا جائے گا۔سوال پیدا ہوتا
ہے کہ کیا سعودی عرب میں اب تک انتہاء پسندی کی تعلیم دی جاتی تھی مذہبی۰۰۰
سعودی عرب کی نصابی کتب میں اسلامی تعلیمات، قرآن و احادیث اوراہل اﷲ کے
واقعات پر مشتمل ہے۔ اگر ولیعہد اسے انتہاء پسندی سے تعبیر کرتے ہیں تو یہ
مستقبل قریب میں شاہی حکومت کے زوال کا سبب بن سکتے ہیں کیونکہ آج بھی بڑی
تعداد میں سعودی عرب کے شہری اسلامی ماحول میں جینا پسند کرتے ہیں اگر
شہزادہ محمد بن سلمان سعودی شہریوں کو مغربی ویوروپی طرززندگی دینا چاہتے
ہیں تو اسکے نتائج خطرناک نکل سکتے ہیں۔شہزادہ محمد بن سلمان نے امریکہ کے
ساتھ کروڑہا ڈالرس کے فوجی سازو سامان خریدنے کے معاہدے کئے ہیں ۔ ایسا
محسوس ہوتا ہے کہ ایک طرف امریکہ سعودی عرب کی معیشت کو مکمل طور پر تباہ و
برباد کردینا چاہتا ہے ۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخرسعودی عرب کو اتنی بڑی
لاگت کے ہتھیار خریدنے کی ضرورت کیوں پیش آرہی ہے۔؟ یمن اور شام کی خانہ
جنگی میں سعودی عرب نے جو رول ادا کیا ہے اور کررہا ہے اس سے اسکی معیشت
بری طرح متاثر ہوئی ہے۔ یمن کے حوثی باغیوں نے گذشتہ دنوں سعودی عرب پر سات
میزائیل داغ کریہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ سعودی عرب کتنی ہی بڑی تعداد میں
ہتھیار حاصل کریں اس کا یمن کے حوثی باغی جواب دینے کی طاقت رکھتے ہیں
۔سعودی ولیعہد ایک طرف مشرقِ وسطی میں امن وسلامتی کی بات کرتے ہیں تو
دوسری جانب کروڑوں ڈالرس کے ہتھیار خریدرہے ہیں ۔ شام اور یمن کی خانہ جنگی
سے ایسا محسوس ہوتا ہیکہ ایک طرف امریکہ ، برطانیہ وغیرہ ان اسلامی ممالک
کو خوفزدہ کرکے اپنے ہتھیار کی کھربوں ڈالرس میں نکاسی چاہتے ہیں تو دوسری
جانب شام کو روس اور ایران کا تعاون حاصل ہے۔ روس نہیں چاہتا کہ شام سے
بشارالاسد کو اقتدار سے بے دخل کیا جائے جبکہ امریکہ پر سعودی و دیگر ممالک
کا دباؤ ہیکہ شام سے بشارالاسد کو معزول کیا جائے۔ ان عالمی طاقتوں کا اصل
مقصد کیا ہے اس سلسلہ میں کچھ کہا نہیں جاسکتا البتہ موجودہ حالات کا سرسری
جائزہ لیا جائے تو یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ ان عالمی طاقتیں تیسری جنگ عظیم
کی طرف بڑھ رہی ہیں۔ گذشتہ دنوں سابقہ روسی جاسوس اور انکی بیٹی پر لندن
میں حملے کے بعد برطانیہ اور روس کے درمیان پیدا ہونے والا تنازعہ سفارتی
جنگ میں تبدیل ہوگیا ہے ۔ روس اور برطانیہ نے ایک دوسرے کے 23،
23سفارتکاروں کو اپنے اپنے ملک سے نکال دیا۔ یہ معاملہ ابھی ان دونوں ممالک
کے درمیان جاری ہی ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ نے امریکہ سے 60روسی سفارت کاروں کو
ملک چھوڑنے کا حکم دیدیا۔ اسی طرح یوروپی ممالک جرمنی، فرانس، کینیڈا
،پولینڈسے چار چار ، یوکرین نے 13، ڈنمارک اور اٹلی نے 2، 2، لیتھونیا نے
3روسی سفارت کاروں کو ملک چھوڑنے کا حکم جاری کردیا ہے۔ذرائع ابلاغ کے
مطابق روسی وزارتِ خارجہ کے ترجمان دمیتری پیسکووف نے کہا ہے کہ روسی
سفارتکاروں کی بے دخلی پر صورتحال کا جائزہ لیا جارہا ہے ،انہوں نے خبردار
کیا ہے کہ وہ امریکہ سمیت 20سے زائد مغربی و یوروپی ممالک سے اپنے سفارت
کاروں کی بے دخلی کا اسی طرح جواب دیا جائے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ روسی
حکومت پہلے بھی وضاحت اور تصدیق کرچکی ہے کہ برطانیہ میں مقیم سابق روسی
جاسوس کو زہر دینے میں اس کا کوئی ہاتھ نہیں ہے۔ برطانوی وزیر اعطز
تھریسامے نے روسی سفارت کاروں کی ملک بدری کو ایک تاریخی قدم قرار دیا
ہے۔وزیر اعظم تھریسامے نے برطانیہ کے ساتھ کھڑے ہونے والے ممالک کا شکریہ
اداکرتے ہوئے کہا کہ تاریخ میں اس سے قبل کبھی عالمی برادری نے اتنی بڑی
تعداد میں روس کے انٹیلی جنس افسران کو ایک ساتھ ملک بدر کرنے کا اعلان
نہیں کیا۔امریکی حکومت کا کہنا ہیکہ اس نے یہ اقدام نہ صرف اپنے قریب ترین
اتحادی ملک برطانیہ کے ساتھ اظہار یکجہتی کے طور پر کیا ہے بلکہ یہ دنیا کو
عدم استحکام کا شکار کرنے والے روس کے مسلسل اقدامات کا جواب بھی ہے۔ یہاں
ایک بات مزید غور طلب ہیکہ روسی صدر ولایمیر پوتین کا انتخابات میں مزید
ایک میعادیعنی چھ سال کے لئے منتخب ہونے پر عالمی طاقتوں کی جانب سے
مبارکبادی کے پیغامات نہیں دیئے گئے البتہ سب سے پہلے عالمی سطح پر چینی
صدر نے ولایمیر پوتین کو مبارکباد دی۔امریکہ اور چین کے درمیان بھی
اختلافات میں اضافہ ہوتا جارہا ہے ۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے چینی
درآمدات پر اربوں ڈالرس کی ڈیوٹیزلگانے کے اقدامات سے دنیا میں تجارتی جنگ
چھڑنے کا خدشہ پیدا ہوگیا جبکہ یورپ بھی امریکی اقدامات پر انتقامی
کارروائی کرنے کے لئے غور کررہا ہے۔ فرانسیسی صدر امانوئیل میکرون نے متنبہ
کیا ہے کہ یوروپ کمزوری دکھائے بغیر واشنگٹن کی دھمکیوں کا جواب دے گا۔
امریکہ اور چین نے تجارتی معاملات پر بات چیت جاری رکھنے پر اتفاق کیا ہے
اب دیکھنا ہیکہ امریکہ کس حد تک چین کے ساتھ نرمی اختیار کرتا ہے ۔ عالمی
سطح پر ہونے والے ان حالات کو دیکھتے ہوئے یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی پالیسیوں سے عالمی سطح پر کسی بھی وقت بُرے حالات
پیدا ہوسکتے ہیں ۰۰۰۰
عراق کے 39مہلوکین پر سیاست ۰۰۰ مودی کی خاموشی اور اپوزیشن ردِ عمل
ہندوستانی حکومت نے آخر کاربڑی کوششوں کے بعد داعش کے قبضہ سے آزاد ہونے
والے عراقی شہر’ موصل‘ میں ان 39ہندوستانیوں کے ہلاک ہونے کی خبر دے دی ہے
جو 2014سے لاپتہ بتائے جارہے تھے۔حکمراں این ڈی اے اور اپوزیشن کے درمیان
ان دنوں39ہلاک شدگان پر بھی سیاست چل رہی ہے۔ وزارتِ خارجہ ہند نے عراقی
حکومت کی مدد سے جس طرح اجتماعی قبر کھوج نکالنے میں کامیابی حاصل کی اسے
سراہا جانا چاہیے یا نہیں یہ الگ بات ہے۔ وزیر خارجہ ہند سشماسوراج نے پہلے
ہی واضح کردیا تھا کہ39ہندوستانیوں کی مصدقہ رپورٹ دستیاب ہونے کے بعد ہی
کسی نیتجہ پر پہنچا جاسکتا ہے یعنی39ہندوستانی زندہ ہیں یا ہلاک کردیئے
گئے۔عراقی فوج نے داعش سے قبضہ سے شہر موصل کا کنٹرول حاصل کرلیا اس کے بعد
وزارتِ خارجہ ہند نے اس اجتماعی قبر کھوج نکالنے میں کامیابی حاصل کی۔وزیر
خارجہ ہند سشما سوراج نے 20؍ مارچ کو راجیہ سبھا میں ان 39داعش کے ہاتھوں
مغویہ ہندوستانیوں کے مرنے کی توثیق کرتے ہوئے بتایا کہ عراق کے شہر موصل
میں گذشتہ تین سال قبل دہشت گرد تنظیم داعش کے ہاتھوں مغویہ تمام
39ہندوستانی مرچکے ہیں اور ان کی نعشیں برآمد کرلی گئی ہیں۔ انہوں نے بتایا
کہ یہ معلوم نہیں ہوسکا کہ انہیں کب ہلاک کیا گیا۔نعشیں موصل کے شمال مغرب
کے ایک موضع بدوش سے برآمد ہوئیں۔ 40ہندوستانی ورکرس کے ایک گروپ کو جن میں
بیشتر کا تعلق پنجاب سے تھاانہیں بعض بنگلہ دیشی ورکرس کے ساتھ اسلامک
اسٹیٹ نے یرغمال بنالیا تھا۔ 40ہندوستانیوں میں گرداس پور کا ہرجیت مسیح
بھی شامل تھا جوبچ نکلنے میں کامیاب ہوکر ہندوستان پہنچ چکا۔ ہرجیت مسیح کا
دعویٰ تھا کہ اس نے اپنے دیگر ساتھیوں کو قتل ہوتے دیکھا ہے لیکن حکومت نے
اس کا یہ دعویٰ مسترد کردیا تھا۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق ان ہندوستانیوں کو
پہلے موصل میں ایک ٹیکسٹائل فیکٹری میں رکھا گیا تھا اور مسیح کے بچ نکلنے
کے بعد انہیں بدوش جیل منتقل کردیا گیا۔ سشما سوراج نے بتایا کہ انتھک تلاش
کے بعد انہیں بدوش میں ایک اجتماعی قبر کا پتہ چلا جہاں ڈیپ پینیٹریشن
راڈار استعمال کیا گیا تاکہ ٹیلہ کے نیچے دفن نعشوں کا پتہ چلے۔نعشیں
نکالنے کے بعد انکی شناخت کے لئے ڈی این اے کیا گیا۔سشما سوراج نے کہا کہ
ڈی این اے نمونے جب ملاکر دیکھے گئے تو سب سے پہلے سندیپ کی نعش کی شناخت
ہوئی۔ 38نعشوں کی شناخت ہوگئی جبکہ 39ویں شخص راجو یادو کی نعش کے ڈی این
اے نمونے 70فیصد میاچ ہوئے ہیں کیونکہ اس شخص کے ماں باپ گذر گئے تھے اور
اس کے دیگر رشتہ داروں کے ڈی این اے نمونے ہمیں بغداد بھیجنے پڑے تھے۔ خیر
ابھی ان نعشوں کو ہندوستان لانا باقی ہے، ان میں 27کا تعلق پنجاب ، 4کا
ہماچل پردیش، 6کا بہار اور 2کا مغربی بنگال سے تعلق بتایا جاتا ہے۔ ابھی ان
نعشوں کو لانے کے لئے چند دن درکار ہے کیونکہ قانونی کارروائی کے بعد ہی
عراقی حکومت ان نعشوں کو ہندوستان کے حوالے کرے گی۔ وزیر خارجہ نے مہلوکین
کے خاندانوں سے ملاقات کے دوران بتایا کہ بہت جلد وی کے سنگھ ان نعشوں کو
حاصل کرنے کے لئے عراق جائیں گے۔ ملک میں حکمراں اور اپوزیشن کے درمیان ان
39مہلوکین پر سیاست چل ہی رہی تھی کہ حکمران این ڈی اے اس مسئلہ سے توجہ
ہٹانے کے لئے ایک نیا مسئلہ چھیر کر کانگریس پر الزام عائد کیا ہے کہ
کانگریس سنگاپور کی ایک کمپنی کے ساتھ صارفین کے ڈاٹا کا تبادلہ کررہی ہے ۔
ڈاٹا افشاء کے مسئلہ پر کانگریس اور بی جے پی کے درمیان لفظی جنگ مزید تلخ
ہوتی جارہی ہے۔ کانگریس کے صدر راہول گاندھی نے وزیر اعظم نریندر مودی کو
’’بگ باس‘‘ قرار دیا۔ راہول گاندھی نے ڈیلیٹ نمو ایپ کا ہیاش ٹیگ استعمال
کرتے ہوئے ٹویٹر پر کہاکہ مودی کا نمو ایپ آڈیو، ویڈیو، آپ کے دوستوں اور
خاندان کے روابط ریکارڈ کرلیتا ہے یہاں تک کہ وہ جی پی ایس کے ذریعہ آپ کا
لوکیشن ٹریک کرلیتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ مودی بگ باس ہیں جو ہندوستانیوں کی
جاسوسی کرنا چاہتے ہیں اور اب وہ ہمارے بچوں کاڈاٹا بھی جمع کرنا چاہتے ہیں
ان کاکہنا تھا کہ 13لاکھ این سی سی کیڈٹس سے کہا گیا ہے کہ وہ نمو ایپ ڈاؤن
لوڈ کریں۔ اس طرح وزیر اعظم مودی کروڑوں ہم وطنوں کے ذاتی ڈیٹا کو
’’نموایپ‘‘ کے ذریعہ اپنی ذاتی ڈیٹا بیس بناکر وزیر اعظم کے عہدے کا غلط
استعمال کررہے ہیں۔ تو دوسری جانب مرکزی وزیر برائے اطلاعات و نشریات
اسمرتی ایرانی نے صدر کانگریس راہول گاندھی کو ایک کارٹون کردار ’’جھوٹا
بھیم‘‘ قراردیا۔ اسمرتی ایرانی نے ٹوئٹر پر کہا کہ راہول گاندھی مخاطب ہوتے
ہوئے کہاکہ آپ یہ جواب دینے کی زحمت کریں گے کہ کانگریس ، سنگاپور کے سرورس
کو کیوں ڈاٹا روانہ کرتی ہے جس تک ہر کس و ناکس اور انالیٹیکا کو بھی رسائی
حاصل رہتی ہے۔ خیر یہ الزامات کا سلسلہ ابھی کب تک چلے گا یہ تو آنے والا
وقت بتائے گا لیکن اصل مسئلہ جو ہے وہ ان 39مہلوکین کا ہے جن کے تعلق سے
ابھی تک مرکزی حکومت نے یہ فیصلہ نہیں کیا کہ آیا ان مہلوکین کے افراد
خاندان کوروزگار سے منسلک کرتے ہوئے انہیں سرکاری نوکری دی جائے گی
اورانہیں کتنا معاوضہ دیا جائے ۔وزیر اعظم نریندر مودی اپنی پرانی روش پر
قائم ہیں تو دوسری جانب اپوزیشن بھی وزیر خارجہ سشما سوراج اورمملکتی وزیر
خارجہ ریٹائرڈ جنرل وی کے سنگھ کے خلاف کچھ کہنے کے بجائے ان مہلوکین کے
غمزدہ افراد خاندان کو روزگار فراہم کرنے اور انہیں معاوضہ دینے کے لئے
حکومت پر دباؤ ڈالے ۔
ٌٌٌ***
|