نگران وزیر اعظم کسے ہونا چاہیئے ....

جوں جوں الیکشن قریب آتے جارہے ہیں ۔ سیاسی اور سماجی حلقوں میں نگران وزیر اعظم کے بارے میں چہ میگوئیاں جاری ہیں ۔ہر شخص مشورہ دے رہا ہے ۔جہاں تک نگراں وزیراعظم کی شخصیت اور دوران الیکشن کردار کا تعلق ہے ٗایسے شخص کو اس عہدے پر براجمان ہونا چاہیئے جو بہترین منتظم ٗ شفاف کردار ٗ بہترین ماضی ٗ حال اور حقیقی معنوں میں غیرجانبدار بھی ہو ۔ جو کٹھ پتلی بن کر کسی سیاسی جماعت کا پیرو کار نہ بن جائے ۔مسلم لیگ ن کا انتخاب یقینا ایسا شخص ہوگا جوماضی اور حال میں ان کے لیے نرم گوشہ رکھتا ہو جبکہ پیپلز پارٹی اپنے کسی جیالے کو نگران وزیر اعظم کے روپ میں دیکھنا چاہتی ہے ۔جہاں تک عمران خان کا تعلق ہے ان کو تو سوائے اپنے اور کوئی بھی پسند نہیں آئے گا ۔وزیر اعظم کسی کو بھی بنالیا جائے وہ ان کے خلاف چارج شیٹ تیار کرکے بیٹھے نظر آئیں گے۔پاکستان میں شاید یہ واحد سیاست دان ہیں جنہوں نے پانچ سال احتجاجی دھرنوں ٗ جلسوں اور جلوسوں میں گزار دیئے ہیں لیکن اپنے صوبے کے عوام کو کوئی ایک میگا پروجیکٹ کا بھی تحفہ نہیں دیا ۔ ایک غیر جانبدارتجزیہ نگار نے لکھا کہ تحریک انصاف کی حکومت نے کوئی ایک کام بھی ایسا نہیں کیا جس کو کریڈٹ کے طور پر استعمال کرکے وہ عوام سے ووٹ مانگ سکیں ٗ جو منصوبے تحریک انصاف کی حکومت قائم ہونے سے پہلے نامکمل تھے وہ اب بھی نامکمل ہی ہیں ۔ جبکہ صوبائی حکومت کے تمام اراکین کرپشن کے الزامات کی زد میں ہیں ۔آنے والے الیکشن میں عمران خان خیبر پختونخواہ سے تو کامیابی حاصل کرنے سے رہے ٗ پنجاب میں انہیں عوام کی اتنی حمایت حاصل نہیں کہ وہ کامیابی کے گھوڑے پر سوار ہوسکیں ۔بہرکیف عمران خان وزیراعظم بننے کے اس قدر شوقین ہیں اگر انہیں نگران وزیر اعظم ہی بنا دیا جائے تو کم ازکم ان کا شوق تو پورا ہوجائے گا۔ کریں گے وہی جو انہوں نے خیبر پختونخواہ میں پانچ سال میں کیا ہے ۔ ایک اور بات یہ ہے کہ نگران وزیر اعظم جس کو بھی بنایا جائے وکیلوں کاایک ٹولہ ایسابھی ہمارے ہاں موجود ہے جو ہر بات اور فیصلے پر عدالتوں کا دروازہ کھٹکٹھانے سے باز نہیں آتا ۔نگران وزیر اعظم کی تقرری کے ساتھ ہی ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ میں اس کے خلاف رٹیں داخل کردی جائیں گی ۔ ان رٹ کا فیصلہ اس وقت ہوگا جب نگران وزیر اعظم منتخب وزیر اعظم کو چارج دے کر اپنے گھر جا چکا ہو گا ۔ افسوس تو اس بات کا ہے کہ عدالتیں جان بوجھ کر ایسے افراد کی حوصلہ افزائی کرتی ہیں جو عدالت اور قوم کا وقت ضائع کرنے پر ہمیشہ کمر بستہ رہتے ہیں ۔بلوچستان کے سینئر اور بزرگ سیاست دان ظفر اﷲ خان جمالی کا بیان اخبارات کی زینت بنا کہ اگر مجھے نگران وزیر اعظم بنایا گیا تو میں خوشی سے یہ عہدہ قبول کرلوں گا ۔ جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق نے بہت خوب کہا کہ نگران وزیر اعظم کے لیے پاکستان کے عظیم ایٹمی سائنس دان اور بہترین منتظم ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو نامزدکرکے ان کے ساتھ مشرف دورمیں ہونے والی زیادتیوں کا ازالہ کرنا چاہیئے ۔ ان کی شخصیت کسی سے بھی ڈھکی چھپی نہیں اور نہ ہی ان کی وطن سے محبت اور غیر جانبداری کو (سوائے عمران خان کے) کوئی چیلنج کرسکتا ہے ۔انہوں نے پاکستان کو بھارتی جارحیت سے بچانے کے لیے نہ صرف یورپ کی پر تعیش زندگی کو ٹھکرایا بلکہ پاکستان میں آنے کے بعد گوناگوں مسائل کا سامنا بھی کیا اور یہاں کی بیورو کریسی کی قدم قدم پر رکاوٹوں کو صبر و تحمل سے برداشت کیا ۔ اﷲ تعالی نے انہیں ایک اور منفرد صلاحیت بھی عطا کی ہے کہ انہیں انسان شناسی کا فن خوب آتاہے انہوں نے کہوٹہ ایٹمی پلانٹ کی تعمیر اور ایٹم بم بنانے کے لیے جس بہترین ٹیم کا انتخاب کیا وہ انتخاب ہی کامیابی کی ضمانت بن گیا۔ انہوں نے مامے اور چاچے بھرتی نہیں کیے جس طرح موجودہ اور سابقہ حکومتوں کے دور میں ہوتا چلا آیا ہے ۔ انہی خوبیوں کی بدولت وہ اس بات کے حق دار ہیں کہ ان کی عزت افزائی کی جائے اور پاکستان کو مالی بحران سے نکالنے کے لیے وہ بہترین ٹیم تشکیل دیں اور کم ازکم تین ماہ کے دوران کچھ ایسے فیصلے کر جائیں جس سے پاکستان کو مالی استحکام حاصل ہو ۔ایک اور بات بھی ضروری ہے کہ چیف الیکشن کمشنر الیکشن میں حصے لینے والوں کے لیے ایسی کسوٹی بنائیں جس پر وہی لوگ پورا اتریں جو حقیقی معنوں میں کرپٹ اور جعلی ڈگریوں والے نہ ہو ۔ ودہ ملک کے مسائل سے آگاہی اور حل کرنے کی صلاحیت بھی رکھتے ہوں ۔نگران وزیراعظم کے لیے دو نام اور بھی دینا چاہتا ہوں ایک نام تو عظیم کرکٹ ہیرو عبدالحفیظ کاردار مرحوم کے خود دار اور بے باک فرزند شاہد کاردار ہیں ۔وہ صوبائی وزیر خزانہ اور سٹیٹ بنک کے گورنر بھی رہ چکے ہیں ۔ اصولوں پر کبھی سمجھوتہ نہیں کرتے ۔اگر یہ نام بھی پسند نہ آئے تو محکمہ پولیس کے ریٹائرڈ ڈی آئی جی ذوالفقار چیمہ بھی بے داغ کردار کے حامل ایک سلجھے ہوئے انسان ہیں ۔اگر یہ بھی پسند نہ آئیں تو پھر میں بھی آجکل فارغ ہی ہوں ۔اگر مجھے نگران وزیر اعظم بنا دیا جائے تو میں یقین دلاتا ہوں کہ ترازو کا پلٹا کسی جانب جھکنے نہیں دوں گا اور سیاسی جماعتوں کو اس امر پر مجبور کروں گا کہ وہ کرپٹ ٗ خائن ٗ بدکردار اور جعلی ڈگریوں کے حامل افراد کو پارٹی ٹکٹ جاری نہ کریں اور اگر کسی سیاسی جماعت کے رکن میں یہ خامیاں پائی گئیں تو ٹکٹ ہولڈر کے ساتھ ہی متعلقہ پارٹی کو ایک الیکشن کے لیے معطل کردوں گا ۔یہ میرا قوم سے وعدہ ہے ۔اگر ماضی کے الیکشن میں جھانک کر دیکھا جائے تو نگران وزیر اعظم کا کوئی خاص کردار نظر نہیں آتا ۔ ہونا تو وہی ہے جو ایسٹیبلشمنٹ نے کرنا ہے پھر اتنے تکلفات میں پڑنے کی کیا ضرورت ہے ۔ کسی کو بھی ذمہ داری دی جاسکتی ہے ۔مجھ جیسا عام آدمی ہی بہترین چوائس بن سکتا ہے ۔

Aslam Lodhi
About the Author: Aslam Lodhi Read More Articles by Aslam Lodhi: 781 Articles with 659072 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.