کل یگ کے چانکیہ شری امیت شاہ نہیں جانتے کہ دولت کے بل
بوتے پر کوئی لقب حاصل کرلینا بہت آسان ہے مگر اپنے اندر صلاحیت و قابلیت
پیدا کرکے کسی مقام پر پہنچ جانا مشکل کام ہے۔ اچاریہ چانکیہ نے کہا تھا ۔
انسان سکھ یا دکھ کے دنوں کے لحاظ سے کام کرتا ہے ۔ اس پر امیت شاہ نے نصف
عمل کیا ۔ اقتدار سے محروم برے دنوں میں کہتا پھرتا تھا سوئزرلینڈکی بنکوں
سے جب کالادھن آئے گا توسارے لوگوں کو ۱۵ لاکھ مل جائیں گے۔ چانکیہ نے
اپنے اپدیش میں یہ بھی کہا تھا کہ جب سکھ کے دن آجائیں اچھے کام کرتے رہنا
چاہیے لیکن امیت شاہ نے یہ کیا کہ اچھے دنوں کی آمد پر کہہ دیا کہ وہ تو
محض انتخابی جملے بازی تھی۔ چانکیہ نے یہ بھی کہا تھا اگر دکھ کے دن ہوں تو
صبر و ضبط کا دامن تھامے رہنا چاہیے۔ برے دنوں میں صبر و ثبات کھو دینے سے
تباہی آسکتی ہے۔ کاش کہ امیت جی اس نصیحت پر بھی عمل کرتے تو بار بار کی
خواری سے بچ جاتے۔
دہلی اسمبلی انتخاب میں امیت شاہ آخری وقت تک ۶۰ پلس کے خواب خرگوش میں
کھوئے رہے۔ الیکشن سے قبل جب بی جے پی نے داخلی جائزہ لیا اور ۴۰ تا ۴۵
حلقوں میں کامیابی کی پیشن گوئی کی تو وہ آگ بگولہ ہوگئے اورصبر کا دامن
چھوڑ دیا۔اس جائزے کو غیر سائنٹفک اور غیر حقیقی قرار دے کر مسترد کردیا ۔
وہ واقعی خیالی سروے تھا اس لیے کہ بی جے پی کو ۶۰ کے بجائے ۳ پر اکتفاء
کرنا پڑا۔ اصلی چانکیہ اگر زندہ ہوتا تو اپنے چیلے کی اس رسوائی پر خودکشی
کرلیتا لیکن وہ بیچارہ تو کب کا مرکھپ چکا ۔ بہار میں بھی جب آخری مرحلے
میں یہ محسوس ہوا کہ لٹیا ڈوب جائے گی تو نظام الاوقات بیان کرنے لگے ۔۸
بجے گنتی شروع ہوگی، ۹ بجے پہلا نتیجہ آئے گا، ۱۱ بجے تک بی جے پی اکثریت
میں آجائیگی اور ۱۲ بجے نتیش کمار استعفیٰ دے دیں گے۔ ہوا یہ بی جے پی ۹۱
سے گھٹ کر ۵۳ پر پہنچ گئی اور لالو یادو ۲۲ سے بڑھ کر ۸۱ پر آگئے۔
گجرات کے اندر امیت شاہ ۱۵۰ پلس کا نعرہ لگا کر میدان میں اترے۔ مودی اور
امیت شاہ کی کرم بھومی یہ کوئی مشکل ہدف نہیں تھا اس لیے کانگریس کے مادھو
سنگھ سولنکی اس کو حاصل کرچکے تھے ۔ سب کچھ ٹھیک ھاک تھا لیکن اچانک درمیان
میں وکاس پاگل ہوگیا اور اس کا دماغ درست کرنے کے لیے جی ایس ٹی یعنی’گبر
سنگھ ٹیکس ‘ میدان میں آگیا۔ گبر کے ساتھ سامبا اور کالیا کے روپ میں
میوانی اور ہاردک پٹیل بھی تھے ان سب نے مل کر ٹھاکر کے ہاتھ کاٹ دیئے۔ جب
کانگریس نے نعرہ لگایا وکاس پال ہوگیا ہے توجواب میں امیت شاہ نے اعلان
کردیا ’میں وکاس ہیں‘ گویا ’میں پاگل ہوں ‘ ۔ انتخابی نتائج نے ثابت کردیا
کہ وہ حقیقی معنیٰ میں پاگل ہیں ورنہ ۱۱۵ سے ۹۹ پر نہیں اترتے کم ازکم ۱۰۰
مقامات پر کامیابی درج کراکر تین ہندسوں میں تو رہتے۔ ویسے تو سیاسی مبصرین
کا کہنا تھا مودی جی پردھان سیوکی میں اگر بی جے پی ۱۱۴ نشستیں بھی ملتیں
تو اس کو ناکامی شمار کیا جاتا ۔ پپو کی قیادت میں کانگریس کا۶۱ سے ۷۷ پر
پہنچ جانا بی جے پی کے لیے ایک زناٹے دار طمانچے سے کم نہیں تھا ۔ اس تھکی
ماندی کامیابی کو حاصل کرنے کے لیے خود وزیر اعظم کو جو پاپڑ بیلنے پڑے تھے
اس سے بھی ساری دنیا واقف ہوگئی ۔
کرناٹک اسمبلی کی انتخابی مہم کے آغاز ہی میں امیت شاہ کا دماغی توازن بگڑ
گیا ہے۔ انہوں نے علی الاعلان کہا کہ دنیا میں اگر بدعنوان ترین سرکاروں کا
مقابلہ ہو تو اول مقام پرکرناٹک کی یدورپاّ حکومت ہوگی ۔ امیت شاہ صاحب یہ
بھول گئے بی ایس یدورپاّ بی جے پی میں لوٹ چکے ہیں لیکن حقیقت یہ بھی ہے کہ
یدورپاّ کو خود بی جے پی نے بدعنوانی کے سبب وزیراعلیٰ کی کرسی سے ہٹا دیا
تھا اور انہیں جیل کی ہوا بھی کھانی پڑی تھی۔اپنے ساتھ کیے جانے والے اس
سلوک سے ناراض یدورپاّ نے پارٹی سے بغاوت کرکے کرناٹک جنتا پارٹی بنائی تھی
اور بی جے پی کے خلاف انتخاب لڑا تھا۔ اس خانہ جنگی کا نتیجہ یہ ہوا کہ بی
جے پی اقتدار سے بے دخل ہوگئی اور یدورپاّ بھی ہار گئے۔۲۰۱۳ کی انتخابی
شکست کے بعد دونوں ہارے ہوئے کھلاڑی ایک دوسرے سے گلے مل گئے۔ یدورپاّ اپنا
تھوکا ہوا چاٹ کر بی جے پی میں لوٹ آئے اور سنگھ پریوار نے سارے گلے شکوے
بھلا کر کمال ابن الوقتی کا مظاہرہ کرتے ہوئےاپنے ماتھے پر بڑی شان سے
بدعنوانی کا کلنک لگا لیا۔
بی جے پی کی چانکیہ نیتی کے جواب میں کانگریس نے یہ چال چلی کہ یدورپاّ کے
ذات بھائیوں (لنگایت) کو بی جے پی سے توڑ کر اپنا ہمنوا بنالیا۔کانگریس کے
اس نہلے پر دیہلا نے بی جےپی سمیت امیت شاہ کو بوکھلاہٹ کا شکار کردیا ہے
جس کا مظاہرہ آئے دن ہورہا ہےاور امیت جی کے من کی بات اپنے آپ زبان پر
آنے لگی ہے۔ یدورپاّ کو سب سے بدعنوان وزیراعلیٰ قرار دینے سے قبل شاہ جی
نے ودوت لوکناتھ کو بری طرح زدوکوب کرنے کااا لزام کانگریس کے رکن اسمبلی
این اے حارث کے بیٹے تھوپتے ہوتے ہوئے حملہ آور کا نام محمد نلپد بتادیا
جو بی جے پی کا اپناآدمی ہے۔ اس کے فوراً بعد شاہ جی بیان واپس لینا پڑا۔
آگے چل بی جے کے ایم پی پرہلاد جوشی نے شاہ جی کی تقریر کا ترجمہ کرتے
ہوئےمودی جی کو غریبوں کا دشمن قرار دیتے ہوئے کہہ دیا کہ انہوں نے پسماندہ
طبقات کے لیے کچھ نہیں کیا حالانکہ یہ بات سدھا رمیہ کے بارے میں کہی گئی
تھی۔ ان اوٹ پٹانگ بیانات کی بنیادی وجہ اچاریہ چانکیہ کی اس نصیحت سے غفلت
ہے کہ دکھ کے دنوں میں صبرو ضبط کھودینے سے تباہی آجاتی ہے۔ |