کیا چیف جسٹس،وزیراعظم،آرمی چیف نوٹس لیں گے۔۔۔؟

آج سے ٹھیک پندرہ سال پہلے 30مارچ 2003کو کراچی سے ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو بچوں سمیت اغوا کرکے امریکیوں کو بیچ دیا گیاتھا۔ڈاکٹر عافیہ صدیقی امریکا سے پی ایچ ڈی کرکے پاکستان آئی تھیں۔آپ کا خواب تھاکہ تعلیم کے حوالے سے پاکستان میں ایسا منصوبہ بنایا جائے کہ ہر بچہ خواندہ ہوجائے۔جدید تعلیم کے ذریعے ملک کو ترقیاتی یافتہ ممالک میں شامل کیا جائے۔مگر ان کی یہ خواہش ادھوری ہی رہ گئے۔جب کراچی سے راولپنڈی جاتے ہوئے ان کو اغوا کرلیا گیا۔پانچ سال تک آپ کے بارے کوئی خبر نہ ملی۔2008 میں عالمی میڈیا پر قیدی نمبر650کا ذکر ہوا تو پتہ چلا کہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی افغانستان میں امریکا کی بدنام زمانہ جیل بگرام میں قیدی نمبر 650 کے نام سے قید ہیں۔جہاں آپ پر بے پناہ تشدد کیا جاتاہے۔تشدد سے چیخنے چلانے کی آوازیں پوری جیل والوں کو سنائی دیتی ہیں۔یوں امریکا کو عالمی میڈیا کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پڑے اور ڈاکٹر عافیہ کی موجودگی کا اقرار کرکے من گھڑت الزامات لگادیے گئے۔ڈاکٹر فوزیہ صدیقی کے مطابق عالمی میڈیا پر خبر آنے کے بعد ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو قتل کرنے کی ناکام کوشش بھی کی گئی۔ان پر گولیاں چلائی گئیں،لیکن اللہ نے انہیں بچالیا۔جس کے بعد امریکی فوجیوں پر گولیوں کے الزام میں ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو امریکی عدالت نے 86سال کی ناحق سزادیدی اور آپ کو امریکی جیل میں سلاخوں کو پیچھے ڈال دیا گیا۔

86سال قید کی اس سزا پر پوری دنیا سراپا احتجاج بنی۔خود امریکی قانون دان امریکی عدالتی تاریخ میں اس فیصلے کو بدترین فیصلہ کہتے رہے۔دنیا بھر کے ماہر قوانین ڈاکٹر عافیہ پر لگائے جانے والے الزامات کو عقلی اور حقیقی دنیا میں ناقابل یقین اور من گھڑت قراردیتے رہے۔امریکی عدالت کے فیصلے پر پوری دنیا نے حیرت کا اظہار کیا۔مگر افسوس پاکستان کی طرف سے اس فیصلے کے خلاف عملاً کوئی خاطر خواہ احتجاج کیا گیا اور نہ ہی ڈاکٹر عافیہ کی رہائی کے لیے کوئی مؤثر کوشش کی گئی۔گزشتہ پندرہ سالوں میں 3 حکومتیں تبدیل ہوچکی ہیں،10کے قریب چیف جسٹس آف پاکستان آچکے ہیں،تین آرمی چیف ان پندرہ سالوں میں آچکے،مگر کسی میں اتنی جرات نہ ہوئی کہ وہ قوم کی بیٹی ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو امریکی ظلم وجبر سے آزاد کروائے۔افسوس کی بات یہ ہے کہ حکومت سمیت چیف جسٹس صاحبان نے بھی ڈاکٹر عافیہ کی رہائی کی حامی بھری،مگر ان کی حمایت یقین دہانیوں اور بیان بازی سے آگے نہ بڑھ سکی۔میاں نواز شریف سمیت پیپلز پارٹی کےارکان سمیت دیگر کئی سیاست دانوں نے ڈاکٹر عافیہ کے نام پر ووٹ مانگے ،مگر ووٹ کے بعد سب ڈاکٹر عافیہ کو بھول گئے۔کس قدر بے حسی اور بے غیرتی کی بات ہے کہ امریکا کا کوئی ادنی سے ادنی ملازم یا شہری بھی پاکستان میں کسی جرم میں ملوث پایا جائے تو امریکا اس کے کیس کو پاکستان کی عدالتوں میں نہیں چلنے دیتا،اگر کبھی کسی کا کیس چل بھی جائے تو امریکا تمام تر قوانین کو روند کر اپنی شہری یا ملازم کو بچانے کی کوشش کرتاہے۔لیکن ایک پاکستان ہے جہاں اپنے ہی ملک کے شہری بے بس ہیں،کمزور اور لاغر ہیں۔جس کا دل چاہے انہیں اغواکرکے امریکیوں کو بیچ دے،جس کا من کرے انہیں چندٹکوں کی خاطر گولیوں سے بھون دے۔ڈاکٹر عافیہ کی طرح کتنے ہی پاکستانی شہری ہیں،جنہیں پاکستان سے اٹھاکر امریکیوں کے ہاتھوں بیچا گیا،جنہیں بگرام جیل اور گوانتانامو بے جیسے دنیا کے بدترین عقوبت خانوں میں رکھا گیا۔جن میں سے کچھ تو تشدد سے جیلوں میں دم توڑ گئے،کچھ ابھی بھی قید ہیں اور جو رہاہوئے وہ زندہ لاشیں ہیں۔

ڈاکٹر عافیہ صدیقی کا مجرم صرف ڈکٹیٹر پرویز مشرف ہی نہیں ،بلکہ پوری ریاست پاکستان ہے جو پندرہ سالوں سے ڈاکٹر عافیہ پر ڈھائے جانے والے مظالم کے خلاف کچھ نہ کرسکی۔ہرریاست اپنی شہری کی جان ما ل اورآبرو کی حفاظت کی ذمہ دار ہوتی ہے،مگر ریاست پاکستان گزشتہ پندرہ سالوں سے ڈاکٹر عافیہ کی جان ،مال اور آبرو کی حفاظت میں ناکام رہی۔جب ریاست کی طرف سے شہریوں کے ساتھ بے حسی اور لاپرواہی والا رویہ برتاجائے گا تو پھر کیسے شہری ریاست سے مطمئن ہوں گے۔سوال یہ ہے کہ ریاست کی طرف سے شہریوں کے ساتھ اس قدر بے حسی اور لاپرواہی والا رویہ کیوں روا رکھا جارہاہے؟کون لوگ ہیں جنہوں نے ریاست کویرغمال بنایا ہواہے اور ریاست کے شہری انصاف کے لیے ترس رہے ہیں؟سنجیدگی سے اگر ان سوالوں پر غور کیا جائے تویہ حقیقت سامنے آتے ہی کہ عوام سے ووٹ لینے والے ،عوام کی جان ومال کے تحفظ کا دم بھرنے والے اور عوام کو عدل وانصاف فراہم کرنے والے وہ سبھی لوگ اس میں شریک ہیں۔حکومتوں کو چھوڑیے!صرف عدل وانصاف مہیا کرنے والے اداروں کو دیکھ لیجیے کہ ڈاکٹر عافیہ کے معاملے میں انہوں نے اب تک کتنی جی آئی ٹی بنائیں ؟کتنی مرتبہ ازخود نوٹس لیا اور کتنی مرتبہ حکومت کو مجبور کیا گیا کہ وہ ریاست کی ایک مظلوم شہری اور قوم کی بیٹی ڈاکٹر عافیہ کو رہا کروائے؟۔اس میں کوئی شک نہیں کہ اس وقت چیف جسٹس میاں نثار کی جرات وبہادری کے چرچے زبان زد عام ہیں۔آئے روز چیف جسٹس زیر بحث رہتےہیں۔پانامہ سے لے کر توہین عدالت تک،جعلی دوائیوں سے لے کر کوڑے کچرے تک چیف جسٹس کے فیصلوں کو سراہا جارہاہے۔یہی حال آرمی چیف آف پاکستان جنرل قمر جاوید باجوہ کا ہے جن کا طوطی جنرل راحیل شریف کی طرح خوب بول رہاہے۔مگر بدقسمتی سے چیف جسٹس صاحب قوم کی بیٹی ڈاکٹر عافیہ کے لیے کوئی نوٹس لیتے ہیں اور نہ ہی جنرل صاحب کوئی دباؤ ڈالتے ہیں۔حالاں کہ یہی دو معزز ادارے ہیں ریاست کے جن سے ریاست کا ہرشہری امیدیں لگائے بیٹھاہے۔

ڈاکٹر عافیہ کے بچے پندرہ سالوں سے رو روکر اپنی مظلوم والدہ کی رہائی کے لیے دہائیاں دے رہے ہیں۔ہاتھ جوڑ کر منتیں کررہے ہیں فریادیں کررہے ہیں کہ جناب وزیر اعظم صاحب،جناب چیف جسٹس صاحب، جناب آرمی چیف صاحب ! ان کی ماں کو امریکی ظلم وجبر سے رہا کرواکر ماں کی ممتا دیکھنے کا موقع دیں۔آہ !مگر کسی کو عافیہ صدیقی کے بلکتے ،روتے،دھاڑیں اور فریادیں کرتے بچے دکھائی دیتے ہیں،نہ کسی کو بچوں کے دیدار کو ترستی مظلوم عافیہ نظر آتی ہے۔کیا چیف جسٹس صاحب ،وزیراعظم صاحب اور آرمی چیف صاحب اپنے بچوں کی ماؤں سے جدائی برداشت کرسکتے ہیں؟کیا ایک لمحے کے لیے بھی یہ تصور کیا جاسکتاہےکہ پاکستان کے ان معززین کی بچوں کی مائیں کسی کی قید میں ہوں اور بچے ہر روز سکول جاتے وقت ماں کی تصویر کو حسرت سے دیکھتےہوں ،ہر خوشی کے تہوار پر اپنی ماں کی محبت کویاد کرتے ہوں۔کیا چیف جسٹس صاحب ،وزیراعظم صاحب اورآرمی چیف صاحب یہ کربناک تصور برداشت کرسکتے ہیں؟ہرگز نہیں!مگر پھر کیسے ریاست کے یہ ذمہ دار ڈاکٹر عافیہ صدیقی اور ان کے بچوں پر ڈھائی جانے والی قیامت پر خاموش ہیں؟رحمت اللعالمین صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ ؛"تم میں ہر آدمی نگہبان ہے ا ور ہرنگہبان سے اس کی رعایا کے بارے (قیامت کے دن)باز پرس ہوگی"۔ قوم کے نگہبان روز محشر رحمت اللعالمین صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے آخر کس منہ سے پیش ہوں گے؟کیا رب العالمین پاکستان کے نگہبانوں سے ان کی رعایا کے بارے باز پرس نہیں کرے گا؟یقینا کرے گا!بلکہ نگہبانوں کے ساتھ اخوت اسلامی کے رشتے سے جڑے ہر مسلمان سے سوال ہوگا کہ اس نے اپنی مسلمان بہن ڈاکٹر عافیہ صدیقی پرڈھائے جانے والے مظالم کے خلاف کیوں کوئی کوشش نہ کی؟کاش ہم عافیہ صدیقی کو رہا کرواکر روزمحشر شرمندہ ہونے سے بچ سکیں!!!

Ghulam Nabi Madni
About the Author: Ghulam Nabi Madni Read More Articles by Ghulam Nabi Madni: 43 Articles with 36378 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.