وزیرِاعظم شاہدخاقان عباسی نے چیف جسٹس میاں ثاقب نثار
سے اُن کے چیمبر میں ملاقات کی۔ سپریم کورٹ کے اعلامیے کے مطابق یہ ملاقات
خوشگوار ماحول میں ہوئی جس میں مختلف امور پر مشاورت کی گئی۔ اِس ملاقات کے
بعد تجزیوں اور تبصروں کا ’’مینابازار‘‘ لگ گیا اور جتنے مُنہ ،اُتنی باتیں۔
پیپلزپارٹی کے سیّد خورشید شاہ نے کہا کہ چیف جسٹس سے ملاقات کا یہ مناسب
موقع نہیں تھا۔ جی ہاں ! مناسب موقعے کا فیصلہ تو پیپلزپارٹی نے ہی کرنا
ہوتا ہے۔ شاید شاہ صاحب کو یہ یاد نہیں رہا کہ پیپلزپارٹی کے وزیرِاعظم
یوسف رضا گیلانی بھی اِسی طرح سے اچانک سپریم کورٹ پہنچے اور اُس وقت کے
چیف جسٹس افتخار محمد چودھری سے ’’شرفِ ملاقات‘‘ حاصل کیا۔جسٹس جواد ایس
خواجہ کی ریٹائرمنٹ پر الوداعی تقریب میں بھی یوسف رضاگیلانی نے شرکت کی۔
غالباََ اُس وقت مناسب موقع ہی ہوگا اِسی لیے تو گیلانی صاحب نے چیف جسٹس
سے ملاقات اور الوداعی تقریب میں شرکت کو ضروری سمجھا۔
’’نثار، عباسی‘‘ ملاقات پر سب سے زیادہ چیں بچیں تحریکِ انصاف ہے ، جسے یوں
محسوس ہونے لگا ہے کہ جیسے میاں نوازشریف کے ساتھ کوئی این آر او ہونے والا
ہو۔ اِسی لیے تو کپتان نے کہا کہ اُنہیں کوئی نیا این آر او قبول نہیں ،اِس
کے خلاف مزاحمت کی جائے گی۔ اقتدار کی خواہش میں بے چین عمران نیازی شاید
اب دِن میں بھی ڈراؤنے خواب دیکھنے لگے ہیں۔ اُنہیں جہاں کہیں اداروں میں
افہام وتفہیم کی فضا بنتی نظر آتی ہے، وہ بے قرارہو جاتے ہیں۔ سوال یہ ہے
کہ ایک محبّ ِ وطن شخص کی اگر دوسرے محب ِ وطن شخص سے ملاقات ہوتی ہے تو
دوسروں کے پیٹ میں مروڑ کیوں اُٹھنے لگتے ہیں؟۔ کیا کپتان یہ سمجھتے ہیں کہ
اُن کا وزارتِ عظمیٰ تک پہنچنے کا راستہ اداروں کے تصادم ہی سے نکلتا ہے۔
کبھی وہ امپائر کی انگلی اُٹھنے کے انتظار میں ہوتے ہیں تو کبھی عدلیہ کے
دست وبازو بننے کی کوشش کرتے ہیں حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ وہ مخلص ہیں تو
صرف اپنی ذات سے۔ اُنہیں جس روزن سے بھی وزارتِ عظمیٰ ملنے کی توقع ہوتی ہے
، وہیں سجدہ ریز ہو جاتے ہیں۔ اِسی وزارتِ عظمیٰ کے شوق میں وہ پرویزمشرف
کا جھنڈا اُٹھائے گلی گلی گھومتے نظر آئے لیکن جب گوہرِ مقصود ہاتھ نہ آیا
تو پرویزمشرف ہی کے خلاف آگ اُگلنے لگے۔ وہ الزام تو میاں نوازشریف پر
دھرتے ہیں کہ میاں صاحب امپائر کو ساتھ ملائے بغیر کھیل نہیں سکتے لیکن
حقیقت اِس کے بَرعکس کہ کسی کو اگر ہر وقت امپائر کی انگلی کا انتظار رہتا
ہے تو وہ عمران نیازی ہیں ،صرف عمران نیازی۔ ویسے بھی سیاست عبادت ہے، کھیل
نہیں لیکن کپتان نے اِسے بھی کھیل بنا کے رکھ دیا ہے۔ یوں محسوس ہونے لگا
ہے کہ جیسے ساری قوم 1992ء کا ورلڈ کپ کھیل رہی ہو۔ کرکٹ کی جتنی اصطلاحات
ہیں ،اب وہ سبھی ہماری سیاست میں بھی استعمال کی جا رہی ہیں۔ کپتان یہ
سمجھتے ہیں کہ 92ء کا ورلڈ کپ جیتنے کا عوض وزارتِ عظمیٰ ہے ،صرف وزارتِ
عظمیٰ۔ کاش کہ ہم نے 92ء کا ورلڈ کپ نہ جیتا ہوتا۔
عمران خاں کا حصولِ مسندِ اقتدار کادوسرا دعویٰ شوکت خانم کینسر ہسپتال کی
تشکیل ہے۔ یہ بجا کہ شوکت خانم کینسر کا عظیم ہسپتال ہے لیکن یہ بھی یاد
رکھنا ہوگا کہ یہ ہسپتال مخیر حضرات کی کاوشوں کا نتیجہ ہے اور اِس ہسپتال
کی تعمیر کے لیے میاں نوازشریف نے ہی زمین کا یہ ٹکڑا عطا کیا تھا جس پر آج
یہ عظیم الشان عمارت ایستادہ ہے۔ ہمیں اچھی طرح سے یاد ہے کہ سکولوں کے
ننّھے مُنّے بچے اپنی ’’پاکٹ مَنی‘‘ تک شوکت خانم ہسپتال کو عطیہ کر آتے
تھے۔ کینسر ہسپتال کے لیے عطیات کے حصول میں کپتان کی کوششیں اور کاوشیں
بجالیکن اگر وزارتِ عظمیٰ کے حصول کا یہی معیار ہے تو پھر اُس کے واحد
حقدار مولانا عبد الستار ایدھی مرحوم ٹھہرتے ہیں کہ کپتان اگر سات جنم بھی
لیں تو ایدھی مرحوم کی گَردِ پا کو نہیں پہنچ سکتے۔
میاں نوازشرف کی نااہلی سے لے کر اب تک کپتان ’’حبّ ِ عدلیہ‘‘ میں مبتلاء
ہیں۔ دراصل یہ ’’حبّ ِ عدلیہ ‘‘ نہیں ’’بُغضِ نوازشریف‘‘ ہے وگرنہ عدلیہ کے
بارے میں کپتان کے خیالات اور ’’ارشاداتِ عالیہ‘‘ سے کون آگاہ نہیں۔ یہ
کپتان ہی تھے جنہوں نے 2013ء کے انتخابات کے بعد سپریم کورٹ کے چیف جسٹس
افتخار محمد چودھری کو مخاطب کرکے کہا تھا ’’آپ کتنے میں بِکے؟‘‘۔ اگر
عدلیہ کا فیصلہ میاں نوازشریف کے حق میں آتا تو پھر پوری قوم دیکھتی کہ
کپتان عدلیہ کے خلاف کیسی کیسی ’’گُل افشانی‘‘ کرتے ہیں۔ ’’میٹھا میٹھا ہَپ
ہَپ، کڑوا کڑوا تھو تھو‘‘ کپتان کی سرشت میں شامل ہے اور ’’وارث شاہ نہ
عادتاں جاندیاں نیں‘‘ کے مصداق کپتان کی یہ عادت اب بدل نہیں سکتی لیکن
انتہائی محترم عدلیہ سے پوری قوم کا مطالبہ ہے تو صرف ایک کہ عدل ہوتا ہوا
نظر آئے اور کسی کو عدلیہ کے فیصلوں پر تنقید وتنقیص کی جرأت نہ ہو۔
بَدقسمتی سے آجکل ایسا ہو نہیں رہا، اِسی لیے عدلیہ کے فیصلوں پر کھل کر
تنقید بھی ہو رہی ہے اور تنقیص بھی۔ معیارِ عدل تو ہمیشہ ایک ہی ہوتا ہے
لیکن یہاں تو معیار کے پیمانے بھی مختلف ہیں۔ میاں نوازشریف اور مریم نواز
نے انتہائی علیل محترمہ کلثوم نواز کی عیادت کے لیے احتساب عدالت سے ایک
ہفتے کا استثناء مانگا لیکن احتساب عدالت نے صاف انکار کر دیا۔ احتساب
عدالت کا یہ فیصلہ انتہائی نا پسندیدہ تھا کیونکہ انسانی ہمدردی کی بنیاد
بہت مضبوط ہوتی ہے ۔ دوسری طرف دہشت گردی کورٹ نے عمران خاں کی حاضری سے
استثناء کی درخواست قبول کر لی حالانکہ وہ پاکستان ہی میں موجود ہیں اور
اُن کے ساتھ (خُدانخواستہ) کوئی ایسا مسٔلہ بھی نہیں جیسا میاں نوازشریف
اور اُن کے خاندان کے ساتھ ہے۔ کیا یہ عدل کا ددہرا معیار نہیں؟۔
جب شیخ رشید نااہلی کیس میں پاناما پیپرز کیس میں پانچ رکنی بنچ کے فیصلے
پر یہ ریمارکس دیئے کہ کیس لندن فلیٹس کا تھا لیکن میاں نوازشریف کی نااہلی
اقامہ پر ہوئی تو کئی لوگوں کے تَن بدن میں آگ لگ گئی اور اب ریاض حنیف
الٰہی کی جانب سے یکم جنوری 2016ء کو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف دائر کی
جانے والی درخواست کو سماعت کے لیے منظور کر لیا گیا ہے حالانکہ رجسٹرار
سپریم کورٹ اِس درخواست کو مسترد بھی کر چکے تھے۔ خیبرپختونخوا کے وکلاء نے
قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف کارروائی کی صورت میں احتجاج کی دھمکی بھی دے دی
ہے۔ وہ کہتے ہیں’’ فائز عیسیٰ کے ریمارکس پر مُردہ کیس کھول دیا گیا ہے‘‘۔
ہمارے خیال میں قاضی فائز عیسیٰ کے صرف یہ ’’ریمارکس‘‘ ہی نہیں بلکہ اُنہوں
نے تو سپریم کورٹ کی تشکیل کردہ جے آئی ٹی کے ایک رُکن عرفان منگی کی
کارکردگی پر بھی عدم اطمینان کا اظہار کیا تھااور حدیبیہ پیپرزمِل کیس میں
نیب کی سماعت ملتوی کرنے کی درخواست بھی مسترد کر دی تھی۔ عدالت نے نیب کا
یہ مدعا بھی مسترد کر دیا تھا کہ تاخیر کے ذمہ دار میاں نوازشریف اور
شہبازشریف ہیں۔ یہی نہیں بلکہ یہاں تک کہا گیا کہ شریف خاندان کو اپنے حقِ
دفاع سے محروم کیا گیا۔ جب قاضی صاحب اِس قسم کے فیصلے دیں گے تو پھر
اِس طرح تو ہوتا ہے اِس طرح کے کاموں میں
|