پاکستان میں عام انتخابات میں چند ماہ باقی ہیں۔ الیکشن
کا وقت جوں جوں قریب آرہا ہے، سیاسی گہما گہمی میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔
پاکستان میں سیاسی درجہ حرارت آہستہ آہستہ اپنے عروج کی طرف بڑھ رہا ہے۔
تمام سیاسی جماعتوں نے اپنی آئندہ الیکشن کی تیاریاں شروع کردی ہیں۔ ملک
بھر میں جلسے کیے جارہے ہیں۔ حکمران اور اپوزیشن جماعتیں عوام کو سبز باغ
دکھا کر رام کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔ سیاسی جماعتوں نے الیکشن کی مہم کا
آغاز کر دیا ہے۔ ہر بڑی سیاسی جماعت اس کوشش میں ہے کہ بڑی جگہوں پر جلسے
اور عوام کا جم غفیر جمع کر کے اپنی سیاسی قوت کا مظاہرہ کیا جائے اور اپنے
منشور کو عوام تک پہنچایا جائے۔ ملک میں الیکٹرونک میڈیا کے فروغ سے سیاسی
جماعتوں کو آسانی ہو گئی ہے کہ ایک جگہ جلسے کی ٹی وی کوریج سے پورے ملک
میں ان کا پیغام سرعت کے ساتھ پھیل جاتا ہے۔ اسی لیے اب ہر جماعت اپنے
جلسوں میں اس بات کا خاص اہتمام کرتی ہیں کہ ان کے جلسے کی ٹی وی کوریج میں
کوئی کمی نہ رہ جائے۔ الیکشن کا موسم جیسے جیسے قریب آرہا ہے سیاسی ہلچل
میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ 2018 کے انتخابات کا آفتاب چند ہفتوں میں نصف
النہار پر ہوگا۔ جلسے جلوسوں کی ریل پیل ہوگی، انتخابی جلسے ابھی سے شروع
ہوچکے ہیں ۔ عام انتخابات کا نظام الاوقات جاری ہونے میں چند ماہ رہ گئے
ہیں۔ ایسے میں مختلف سیاسی جماعتوں نے اپنی رابطہ عوام مہم کو تیز تر کر
دیا ہے۔ اتوار کی ہفتہ وار سرکاری تعطیل کو عام جلسوں کے لیے بڑے موثر
انداز میں استعمال کیا جارہا ہے۔ اتوار کے روز ملک بھر میں متعدد سیاسی
جماعتوں نے اپنے جلسے کر کے اپنی قوت کا مظاہرہ کیا۔ پاکستان مسلم لیگ نون
نے ننکانہ صاحب کے قریب سانگلہ ہل کے قصبے کا انتخاب کیا۔ جمعیت علمائے
اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کوٹ ادو اور پیپلز پارٹی کے نو عمر
سربراہ بلاول بھٹو زرداری نے مری کے قریب کوٹلی ستیاں، اے این پی کے اسفند
یار ولی خان نے نوشہرہ، ایم کیو ایم پاکستان نے یوم تاسیس کے نام پر کراچی
میں دو مختلف مقامات پر اپنے اجتماعات منعقد کیے، جن میں حاضری حوصلہ شکن
تھی۔ تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے کراچی میں اجتماع کیا، جبکہ جماعت
اسلامی کے سربراہ سراج الحق نے کرک میں رونق لگائی۔
پاکستان مسلم لیگ (ن) نے ننکانہ صاحب کے علاقے سانگلہ ہل میں میدان سجایا،
جہاں میاں نواز شریف اورمریم نواز نے ایک بار پھر مزاحمتی بیانیے کا اعادہ
کیا جو قطعی طورپر مسلم لیگ (ن) کے نئے صدر میاں شہباز شریف کے خیالات سے
میل نہیں کھاتا۔ سابق وزیر اعظم اور پاکستان مسلم لیگ کے تاحیات قائد میاں
نواز شریف نے جلسے سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ عمران خان اور آصف زرداری
بھائی بن کر عوام کو دھوکا دے رہے ہیں۔ دونوں ایک ہی سکے کے دورخ ہیں۔میاں
نواز شریف کا کہنا تھا کہ جمہوریت کی آستین میں چھپے سانپ باہر آگئے ہیں۔
پی پی پی کے نوجوان چیئرمین بلاول بھٹو نے خطہ کوہسار میں کوٹلی ستیاں میں
میاں صاحب اور خان صاحب پر تند و تیز جملے کسے۔ میاں صاحب نے حالیہ دنوں
میں نئے چیئرمین سینٹ کے انتخاب کو یوں چیلنج کیا تھا کہ یہ سب چابی کے
کھلونے ہیں، بلاول نے اسی لہجے میں جواب دیا کہ چابی کا سب سے بڑا کھلونا
تو خود میاں صاحب ہیں، چابی در حقیقت اس کھلونے کے اندر ٹوٹ گئی ہے، نئی
چابی سییہ پھر چل پڑے گا۔ جہاں تک خان صاحب کی بات ہے تو بلاول نے کوئی نئی
بات نہیں کہی کہ انہوں نے صرف گالیوں کو رواج دیا اورہرمرتبہ یوٹرن لیے۔
خان صاحب نے بھی ایک بار پھر بلاول کو بچہ کہہ کر نظر انداز کیا کہ میں اس
بچے کی باتوں کا کیا جواب دوں انہیں پتہ ہی نہیں کہ کیا ہورہا ہے۔ پی ٹی
آئی کے چیئرمین عمران خان کا کہنا تھا کہ الیکشن میں نواز شریف اور زرداری
کی وکٹیں ایک ساتھ گراؤں گا۔ نواز شریف اور زرداری دونوں ملکی حالات کے ذمے
دار ہیں، ان میں ملکی حالات کو بہتر کرنے کی صلاحیت ہی نہیں ہے۔ جمعیت
علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کوٹ ادو میں جلسے میں عمران
خان اور آصف زرداری پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ایک دوسرے کو چور کہنے والے
ایک اسٹیج پر اکٹھے ہوگئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ سب جماعتیں جمعہ جمعہ آٹھ
دن کی پیداوار ہیں۔ عوامی نیشنل پارٹی کے سربراہ اسفند یار ولی نے کہا کہ
سیاست اور شرافت عمران خان کے قریب سے بھی نہیں گزری۔ جماعت اسلامی کے
سربراہ سراج الحق نے کہا کہ محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو نگران
وزیر اعظم بنایا جائے۔ ان اجتماعات اور رابطہ عوام مہمات کا افسوسناک پہلو
یہ ہے کہ ان میں شامل سرکردہ سیاسی رہنماؤں نے اپنے انتخابی منشور پر روشنی
ڈالنے اور اپنی کارکردگی کو اجاگر کرنے کی بجائے عمومی طور پر ایک دوسرے کے
خلاف ہرزہ سرائی کو ترجیح دی، جس سے ثابت ہوتا ہے کہ رہنماؤں کے پاس دوسروں
کو گالیاں دینے کے سوا کہنے کے لیے کچھ نہیں بچا۔ سیاست میں تحمل اور
شائستگی کے راستے ابھی بند نہیں ہوئے، لیکن سیاست دوراں سر برہنہ پھر رہی
ہے۔ اس کی توقیر سیاست دانوں کے ہاتھوں میں ہے۔ سیاسی رہنما اپنے تند و تیز
بیانات کی تلواریں نیام میں ڈالیں، باہمی کشمکش خود کشی سے بدتر نتائج دے
سکتی ہے جب کہ اصولی سیاست تدبر، حکمت ،دور اندیشی اور خیر سگالی کی
پیغامبر بنے گی تو پاکستان کا سیاسی وقار بلند ہوگا۔
سیاسی رہنماؤں کا اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ سیاست ایک فہم اورکھیل کا
نام ہے، جس میں کوئی بات حرف آخر نہیں ہوتی۔ سیاسی تعلقات میں کسی سے حتمی
دوستی ہوتی ہے نہ کسی سے قطعی دشمنی، وقت اور رفتار بدلے تو انہونی، ہونی
ہوجاتی ہے۔ تمام تر صورتحال میں سیاست دانوں کو یہ بات سامنے رکھنی چاہیے
کہ سیاست میں اختلافات اور اختلاف رائے یقینی بات ہے۔ اسے جمہوری روایات کا
حصہ سمجھا جاتا ہے۔ تمام سیاسی جماعتوں کو بھی محسوس کرلینا چاہیے کہ
نعروں، دھرنوں، احتجاج اور دھمکیوں سے کچھ حاصل ہونے والا نہیں۔ اگر عوام
کے دلوں میں جگہ بنانی ہے تو طرز سیاست میں تہذیب اور بردبار ی کو لانا
ہوگا اور عوام کی بھلائی کے فیصلے کرنا ہوں گے۔ رواداری اور عوامی فلاح کے
لیے مفاہمت کی سیاست کو فروغ دینا ناگزیر ہوچکا ہے۔ پاکستان نے غلط طرز
سیاست سے ناقابل تلافی نقصانات کا سامنا کیا ہے۔ اب ملک اس کا اور متحمل
نہیں ہوسکتا۔دانش مندی اور سیاسی بصیرت متقاضی ہے کہ روادارانہ سیاست کو
فرسودہ روایتی سیاست پر ترجیح دی جائے، تاکہ مملکت کی تمام اکائیاں سیاسی
اختلافات کے باوجود قومی یکجہتی، جمہوری رویوں اور معاشی ترقی و خوشحالی کے
اجتماعی اور مشترکہ ایجنڈے سے منسلک ہوجائیں۔
افسوس کی بات ہے کہ آج سیاست دانوں کی ساری توانائیاں اختلافات کی نذر
ہورہی ہیں، بلاوجہ کی معرکہ آرائی ہے جس کا لازمی نتیجہ عدم رواداری،
اشتعال انگیزی، محاذ آرائی ، انارکی اور بے یقینی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ سیاسی
رہنماؤں کی نورا کشتیاں، سیاسی یوٹرن، داخلی تضادات اور ایک دوسرے کی پگڑی
اچھالنے تک ہی محدود ہوگی۔ اہل سیاست اس بات کا خیال رکھیں کہ ان کی شعلہ
بیانی سے معاشرتی انتشار، جرائم کی بڑھتی ہوئی وارداتوں، غربت اور
بیروزگاری کے دہکتے ہوئے جہنم کی آگ ٹھنڈی نہیں ہو گی۔ ملک کی تین بڑی
سیاسی پارٹیوں کے درمیان آیندہ کے الیکشن کی دوڑ لگی ہوئی ہے، اس کا باوقار
انجام جمہوری اسپورٹس مین شپ سے ممکن ہے، قوم کو اس بات کا اشارہ مل جانا
چاہیے کہ جس سیاسی جماعت کو اقتدار ملنا ہے اسے قومی امنگوں، ملکی ترقی اور
عوامی ریلیف کے لیے گراں قدر اقدانات کرنا ہوں گے جو اب تک حکمرانوں نے
نہیں کیے۔ عوام تو برسوں سے سیاسی لیڈروں کے جلسے کامیاب کرواتے آرہے ہیں
اور ان جلسوں میں مخالفین کے خلاف تنقید بھی سنتے آرہے، ہر سیاسی لیڈر صرف
اپنی جماعت کو ٹھیک باقی سب کو غلط کہتا ہے، مگر اقتدار ملنے کے بعد سب
عوام کے حقوق کے حوالے سے ایک ہی کردار ادا کرتے ہیں۔ اس حقیقت سے انکار
نہیں کیا جاسکتا کہ سیاسی جماعتیں اقتدار حاصل کرنے کے لیے سرتوڑ کوششیں کر
رہی ہیں اور اپنے مقصد میں کامیاب ہونے کے لیے ہر حربہ بھی استعمال کر رہی
ہیں، لیکن کسی بھی سیاسی جماعت کا اقتدار میں آجانا عوام کے لیے تو تب ہی
مفید ثابت ہوسکتا ہے، جب اقتدار میں آنے والی جماعت عوام کے حق میں فیصلے
کرے۔ اگر حکومت بنانے والی جماعت نے عوام کو کوئی ریلیف دینا ہی نہیں، عوام
کی غربت، بے روزگاری، لوڈ شیڈنگ، عوام کے مسائل کا خاتمہ ہی نہیں کرنا تو
ہر جماعت کے لیڈروں کا جلسوں میں مخالف جماعت کے لیڈروں پر تنقید کرنے کو
دوغلا پن ہی کہا جاسکتا ہے۔
انتخابات میں چند ماہ باقی ہیں، جن میں نئے سیاسی اتحاد بن سکتے ہیں اور
مخالف سیاسی جماعتوں کی طرف سے ایک دوسرے پر تنقید بھی بڑھے گی۔ پاکستان کی
قوم کا جو سب سے بڑا سرمایہ ہے، وہ ان کا سیاسی شعور ہے اور ہمارا سیاسی
شعور بہت تیزی سے آگے بڑھ رہا ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ سیاسی معاملات اور ان
پر موقف زیادہ واضح ہوں گے۔ پاکستان کا جو حکمران طبقہ ہے، چاہے وہ مرکز
میں ہو یا صوبوں میں ہے (وہ کوشش کرے گا کہ) 2018 میں کم از کم عام
پاکستانی کی زندگی کو کچھ بہتر بنا سکیں۔ اس کے کچھ مظاہر لوشیڈنگ میں کمی
کی صورت میں سامنے آئے بھی ہیں، سال گزشتہ لوڈشیڈنگ بہت زیادہ تھی، حکومت
نے اس پر کچھ خاص توجہ نہ دی، مگر اب جب الیکشن قریب آنے لگے ہیں اور
اپوزیشن جماعتیں بھی میدان میں آچکی ہیں تو لوشیڈنگ کا دورانیہ کم کردیا
گیا ہے تاکہ اگلے سال ووٹ لینا آسان ہو۔ صوبوں میں حکمران جماعتوں نے عوامی
کام بھی تیزی سے شروع کیے ہوئے ہیں۔ تیزی کے ساتھ سڑکیں بنائی جارہی ہیں،
گلیاں پکی کی جارہی ہیں۔ نالیاں بنائی جارہی ہیں۔ گاؤں دیہات میں سوئی گیس
پہنچائی جارہی ہے اور وہ سیاسی نمائندے بھی دور دراز علاقوں کے چکر لگانا
شروع ہوگئے ہیں، جنہوں نے پورے پانچ سال ان علاقوں کا سوچا بھی نہیں تھا۔
یہ سب کچھ ووٹ حاصل کرنے کے لیے کیا جارہا ہے۔ تمام سیاسی جماعتیں ابھی سے
انتخابی تیاریوں میں مشغول ہوگئی ہیں اور عوام کو رام کرنے کی کوشش میں
ہیں، مگر عوام کا کچھ نہ کچھ شعور بیدار ضرور ہوا ہے۔ لگتا ہے عوام اس بار
بہت کم ہی سہی، اپنے شعور کے مطابق فیصلہ کریں گے۔
|