تحریر: عثمان غنی
ولادمیر پوتن روس میں ایک مرتبہ پھر چھ سال کے لیے صدر منتخب ہو گئے ہیں۔
آخر تیسری مرتبہ صدر بننے کے پیچھے راز کیا ہے؟عوامی مقبولیت یا کسی طاقت
ور کا مد مقابل نا ہونا۔ولادمیر پوتن کے ایک بار پھر سے صدر منتخب ہونے پر
اس کے اتحادیوں نے مبارک باد پیش کی ہے اور اس پرخوشی کا اظہار کیا ہے، چین،
قازقستان،بیلا روس، وینز ویلہ، بولیا،کیوبا،ان ممالک میں شامل ہیں۔ جہاں سے
مبارک باد کے پیغامات آئے مگر مغربی دنیا کی طرف سے اس پر مکمل خاموشی
ہے۔صدر پوتن کو تین چوتھائی ووٹ حاصل ہوئے مگر ساتھ ساتھ بے قاعدگیوں کی
رپورٹس بھی سامنے آئی ہیں۔ صدر پوتن پورے ملک کو مبارکی کے پیغام پیش کر
رہے تھے،پچھلے اٹھارہ سال سے صدر پوتن روسی سیاست پر حاوی رہے ہیں،گزشتہ
ہفتے پھر سے صدر منتخب ہونے پر پوری قوم کا شکریہ ادا کیا،ان کا کہنا تھا
کہ کامیابی ہمارا مقدر ہے، اس نے مزید کہا کہ آج میں نے روس ، روس کے نعرے
لگائے۔مگر کیا اس کے علاوہ پوتن کا چوتھا دور کا مغربی طاقتوں کے ساتھ سرد
جنگ ہے۔ آج روسی صدر نے برطانوی الزام کو سختی سے مسترد کیا۔ لیکن برطانیہ
کا کہنا ہے کہ سواسبری میں ایجنٹ پر حملے کے لیے روسی صدر پوتن زمہ دار ہے۔
لیکن صدر پوتن کا کہنا ہے کہ یہ سب بکواس ہے، بے معنی ہے، یہ احمقانہ سوچ
کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔ صدارتی انتخابات اور فٹ بال ورلڈ کپ سے قبل روس
کچھ ایسا کرے گا کیا؟
اب روس مزید مضبوط ہو گا،بہت سے روسی اس پر یقین رکھتے ہیں اور ان کا
مانناہے کہ پوتن ایک زہین انسان ہے اور بہت سمجھ دار ہے،وہ روس کی ترقی
چاہتا ہے اور روسیوں کو خوش دیکھنا چاہتا ہے۔ان کی بدولت روس مضبوط سے
مضبوط ہو رہا ہے، مگر نا قدین کا کہنا ہے کہ انتخابات میں دھاندلی ہوئی ہے
اور صرف ایسے امیدواروں کو انتخابات میں حصہ لینے دیا گیا، جن کے جیتنے کا
کوئی امکان ہی نہیں تھا۔ روس کا مسئلہ ہی یہی ہے کے ملک میں کوئی سیاست نام
کی چیزہی نہیں ہے،ملک میں سیاست کا مکمل خاتمہ ہو چکا ہے۔ملک میں ایک سیاسی
ادارہ ہے اور وہ ہے ولادمیر پوتن، اس لیے کچھ حلقوں میں کہا جا رہا ہے، کہ
جیت پوتن کی ہی ہونی تھی، لیکن اگر انتخابات کی تفتیش بھی کی جائے۔ تب بھی
نتیجہ نہیں بدلے گا، ملک کا صدر پوتن ہی رہے گا۔ ولادمیرپوتن امریکہ،
برطانیہ ،اور دیگر مغربی ممالک کے لیے یہ خبر کیا معنی رکھتی ہے؟امریکہ
وغیرہ کو اس معاملے میں زیادہ حیران نہیں ہونا چاہیے۔کیونکہ ناصرف 1991سے
روس سوویت تن سے آزاد ہوا ہے، سوویت تن کے قیام سے ہمیں مسلسل یہی پیٹرن
ملتا ہے۔ایک پارٹی ایک نمائندے پر فوکس کرتی ہے کیونکہ ریس ہمیشہ ایک ہی
گھوڑا جیتتا ہے اور دوڑنے والے سارے گھوڑے نمائش کے لیے ہوتے ہیں۔ تو ان
نتائج سے مغربی دنیا کو حیرانی نہیں ہونی چاہیے۔ہاں جو تحفظات مغربی ممالک
کو ہیں وہ اپنی جگہ قائم ہیں۔پوتن تیسری دفعہ اس ظرح منتخب ہوئے ہیں۔ اس
پتہ چلتا ہے کہ پوتن کی جو مقبولیت ہے۔ وہ اپنی جگہ قائم ہے اس سے انکار
بھی نہیں کیا جا سکتا۔جبکہ روس کے عوام اور ووٹ دہندگان بھی یہی سمجھتے ہیں،
کہ پوتن ایک نڈر بے باک اور، دلیر، سیا ست دان ہے۔کہ جنہوں نے مغرب کا تمام
تر دباؤ دھمکی ا ور دھونس کا مردانہ وار مقابلہ کیا ہے،وہ گھبرائے نہیں،اور
اس کے خلاف مغرب سے جو مخالفت کی ہواچل پڑی ہے، اس نے پوتن کی مقبولیت میں
اضافہ ہی کیا ہے،اور اس کے مقام کو اونچا ہی کیا ہے۔
جہاں تک لوکل پالیٹیکس کو دیکھا جائے، صدر پوتن کے مدمقابل اس طرح کوئی
ابھرتا ہوا نظر نہیں آتاجو اسے برابری کا مقابلہ دے سکیں۔اس کی وجہ یہی ہے
کہ روس کی آزادی کے 26سال اور اس سے پہلے سوویت نظام کے70 سال،گزشتہ
چھیانوے سال سے یہی پریکٹس جاری ہیں۔ اس پریکٹس سے باہر آنے کے لیے 15 یا16
سال کا عرصہ مزید چاہیے۔رقبے کے لحاظ سے روس دنیا کا سب سے بڑا ملک ہے۔وہ
کسی چھوٹے ملک سے یہ کیوں کر کہے گا کہ اس کی جمہوریت ہمارے لیے آئیڈیل
ہے،اور ہم اس کی جمہوریت کاپی کرنا چاہتے ہیں، تو اس طرح کہنا قبل از وقت
ہے۔ دنیا بھر پر نظر ڈالیں تو امریکہ کا ٹرمپ مقبول ہورہا ہے، چین کا
شی،جنگ،پنک،بھی مقبول ہے اس لیے اسے تاحیات ان کی صدارت کو بر قرار کر دیا
ہے،روس میں تیسری مرتبہ صدر پوتن منتخب ہو گئے ہے، تو اس بات سے صدر پوتن
کی مقبولیت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ پہلے جو لبرل ڈیموکریٹک سسٹم تھا،
مغربی جمہوریت کا جو تصور تھا۔ اس سے اب دنیا دور جا رہی ہے کیوں کے کچھ
ممالک سمجھتے ہیں کہ ہمارے جو قومی تقاضے ہیں،جو ہماری قومی تر جیحات
ہیں۔وہ اب کافی تبدیل ہو چکی ہیں،اس میں کافی بدلاؤ آگیا ہے، کیوں کہ وہ
سیاست کے ساتھ ساتھ اپنی ملکی اور قومی خوشحالی بھی دیکھنا چاہتے ہیں۔ وہ
جن شخصیات سے خوش ہیں ان کو بار بار منتخب کر رہے ہیں کیونکہ ان کے عوام کو
لگتا ہے کہ وہی ان کے لیے بہترین انتخاب ہیں اور وہی ان کے ملک کو ترقی کے
سفر پر چلا سکتا ہیں۔ |