اپریل فول کی شرعی حیثیت

اپریل فول مغرب کا دیا ہوا خلافِ اسلام تہوار ہے۔اس کی بنیاد اسلام اور مسلم دشمنی پر رکھی گئی ہے۔ یہ مذہبی نقطہ نظر کے علاوہ عقلی واخلاقی طور پر بھی قابل مذمت ہے۔

اپریل فول کا تعارف:
اپریل فول دوسروں کے ساتھ عملی مذاق کرنے اور بیوقوف بنانے کا تہوار ہے۔یہ اپریل کی پہلی تاریخ کو منایا جاتا ہے۔ اس کا آغاز یورپ سے ہوا اور اب تقریباً پوری دنیا میں چھایا ہوا ہے۔ 1508 سے 1539 کے ولندیزی اور فرانسیسی ذرائع ملتے ہیں جن سے یہ پتہ چلتا ہے کہ مغربی یورپ کے علاقوں میں یہ تہوار تھا جسے انتہائی خوشدلی سے مسلمانوں کے خلاف عظیم فتح کی یاد میں منایا جاتا تھا۔ برطانیہ میں اٹھارھویں صدی کے شروع میں اس کا عام رواج ہوا۔ لیکن دینِ اسلام میں اس کی بالکل اجازت نہیں کیونکہ یہ بہت سے کبیرہ گناہوں کا مجموعہ ہے۔

اپریل فول کی حقیقت:
اپریل لاطینی زبان کے لفظ Aprilis یا Aprire سے ماخوذ ہے جس کا مطلب ہے پھولوں کا کھلنا،کونپلیں پھوٹنا۔ قدیم رومی قوم موسم بہار کی آمد پر شراب کے دیوتا کی پرستش کرتی تھی اور اسے خوش کرنے کی لیے لوگ شراب پی کر اوٹ پٹانگ حرکتیں کرنے کیلئے جھوٹ کا سہارا لیتے تھے۔یہ جھوٹ رفتہ رفتہ اپریل فول کا ایک اہم حصہ بلکہ غالب حصہ بن گیا۔

انسائیکلو پیڈیا انٹرنیشنل کے مطابق مغربی ممالک میں یکم اپریل کو عملی مذاق کا دن قرار دیا جاتا ہے۔ اس دن ہر طرح کی نازیبا اور غیر اخلاقی حرکات کی چھوٹ ہوتی ہے اور جھوٹے مذاق کا سہارا لے کر لوگوں کو بیوقوف بنایا جاتا ہے ۔افسوس کہ یہ فضول ، بے مقصد، لاحاصل اور فول رسم مسلم معاشرے کا ایک اہم اور لازم حصہ بن چکی ہیں اور مسلمانوں میں رچ بس گئی ہے۔ مسلمان اپنے ہی مسلمان بہن بھائیوں کی تباہی اور بربادی پر خوشی کا دن مناتے ہیں اور اپنے ہی مسلمان بھائیوں سے جھوٹ بول کر اور ان کو بیوقوف بنا بنا کر ان کو مصیبت اور پریشانی میں ڈالتے ہیں۔

اپریل فول کو اگر تاریخ کے آئینہ میں دیکھا جائے تو یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اس کی بنیاد اسلام اور مسلم دشمنی پر رکھی گئی ہے۔اپریل فول کے متعلق متعدد واقعات و روایات ملتی ہیں لیکن تاریخی طورپریہ بات بھی ملتی ہے کہ اسپین پر مسلمانوں کی طویل حکمرانی کے بعد جب عیسائیوں نے دوبارہ قبضہ کیا تو مسلمانوں کے خون کی ہولی کھیلی گئی۔ آئے روز قتل وغارت کے بازار گرم کیے گئے۔ ان سفاکیوں کے بعد جب مسلمانوں نے اپنی جانیں بچانے کے لیے مختلف مقامات کو اپنی پناہ گاہ بنایا تو بادشاہ نے مسلمانوں کو صفحۂ ہستی سے مٹانے اور ان سے چھٹکارا پانے نے کے لیے اعلان کروایا کہ مسلمانوں کی جان یہاں محفوظ نہیں لہٰذاہم نے انہیں ایک اسلامی ملک میں بسانے کا فیصلہ کیا ہے۔ جو مسلمان وہاں جانا چاہیں ان کے لیے ایک بحری جہاز کا انتظام کیا گیا ہے جو انہیں اسلامی سرزمین پر چھوڑ آئے گا۔حکومت کے اس اعلان سے مسلمانوں کی کثیر تعداد اسلامی ملک جانے کے شوق میں جہاز پر سوار ہوگئی۔جب جہاز سمندر کے عین درمیان میں پہنچا تو فرڈینینڈ کے فوجیوں نے بحری جہاز میں بذریعہ بارود سوراخ کردیا اور خود بحفاظت وہاں سے بھاگ نکلے۔دیکھتے ہی دیکھتے پورا جہاز غرقاب ہوگیا اور تمام مسلمان اسلامی سرزمین کا خواب دیکھتے دیکھتے ابدی نیند سوگئے۔ عیسائی دنیا اس پر بہت خوش ہوئی اور بادشاہ فرڈینینڈکو اس شرارت پر داد دی اور اس حرکت پر خوب سراہا۔اور اس فتح پر اسپین میں خوب جشن منایا گیا ۔یہ یکم اپریل کا دن تھا۔ بعد میں یہ دن پورے یورپ میں فتح کا عظیم دن بن گیا ۔آج یہ دن مغربی دنیا میں مسلمانوں کو ڈبونے کی یاد میں منایا جاتا ہے ۔

مختلف انسائیکلو پیڈیا نے اس کی تاریخی حیثیت پر مختلف انداز سے روشنی ڈالی ہے۔ ان سب کو جانچنے کے بعد یہی واضح ہوتا ہے کہ یہ دن یہودونصاریٰ کی طرف سے دیا گیاہے۔ اوراس کا اصل مقصد اسلام اور مسلمانوں کا مذاق اڑانا ہے۔ بد قسمتی سے یہ خلافِ تہذیب رسم اورجاہلیت مسلمانوں کے معاشرے کا حصہ بن چکی ہے۔روشن خیال طبقہ اس کو بڑی گرمجوشی سے مناتا ہے۔

واضح رہے کہ تمسخر و استہزاء اسلامی تعلیمات کے منافی ہے۔ شریعت اسلامیہ میں کسی بھی فرد کو دوسرے فرد کا مذاق اڑانے کی اجازت نہیں ہے اور اسی طرح مختلف قوموں کو بھی ایک دوسر ے کا مذاق اڑا نے سے اسلام میں منع کیا گیا ہے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
یٰٓا أَیُّہَا الَّذِینَ اٰمَنُوْا لَا یَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ عَسٰٓی أَنْ یَّکُوْنُوْا خَیْرًا مِّنْہُمْ وَلَا نِسَاء ٌ مِّنْ نِسَآءٍ عَسٰٓی أَنْ یَّکُنَّ خَیْرًا مِنْہُنَّ۔ (الحجرات:۱۱)
ترجمہ: ’’اے ایمان والو! مردوں کا کوئی گروہ دوسرے گروہ کا مذاق نہ اڑائے ، ہوسکتا ہے کہ وہ ان ( مذاق اڑانے والوں ) سے بہتر ہوں اور نہ عورتیں دوسری عورتوں کا مذاق اڑائیں ہوسکتا ہے کہ وہ ان سے بہتر ہوں۔‘‘

آیتِ قرآنیہ کی رو سے مسلمانوں کو اس معاملے میں محتاط رہنا چاہیے ،لیکن افسوس کہ جس امت کو اﷲ رب العزت نے ’’کنتم خیر امۃ‘‘ کے لقب سے نوازا، آج وہ امت مغربی طرز عمل پر گامزن ہے۔ اﷲ اور اس کے رسول ﷺکی طرف سے یہود و نصاریٰ کی صریح مخالفت کی تاکید کے باوجود آج وہ اپنے ازلی دشمن یہودو نصاریٰ کے جملہ رسم و رواج ، طرزعمل اور فیشن کو بڑی ہی فراخ دلی سے قبول کر رہے ہیں ۔ یہ بات نہایت قابل غور ہے کہ آج کا مسلمان ہر وہ قول وعمل جو مغرب کے ہاں رائج ہوچکا ہے اس کی تقلید لازم سمجھتا ہے، اسی کو اپنی رفعت و بلندی سمجھتا ہے، اسی میں اپنی منزل پانے کی کوشش کرتاہے۔ قطع نظر اس سے کہ وہ اسلامی افکار کے موافق ہے یا مخالف ۔ لیکن مسلمان اس روشن خیالی کے طوفان میں غرق ہے اور مغربی فیشن کے بھنور میں پھنسا ہوا ہے۔ یہاں تک کہ یہ مسلمان ان کے مذہبی شعار تک اپنانے کی کوشش کرتاہے ۔ مسلمان مغربی افکار اور نظریات سے اتنا مرعوب ہوچکا ہے کہ اسے ترقی کی ہر منزل مغرب کی پیروی میں ہی نطر آتی ہے۔حالانکہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔سورج سے بھی اس کا سبق سیکھا جاسکتا ہے۔
سورج ہمیں دیتا ہے ہر روز یہ سبق
مغرب کی طرف جاؤ گے تو ڈوب جاؤ گے

اپریل فول ان چند رسوم ورواج میں سے ایک ہے جس میں جھوٹی خبروں کو بنیادبناکر لوگوں کا جانی ومالی نقصان کیا جاتا ہے۔ انسانیت کی عزت وآبرو کی پروا کیے بغیر قبیح سے قبیح حرکت سے بھی اجتناب نہیں کیا جاتا۔اس میں بے شمار برائیاں پائی جاتی ہیں جو مذہبی نقطہ نظر کے علاوہ عقلی واخلاقی طور پر بھی قابل مذمت ہیں۔مسلمانوں کا اپریل فول منانا جائز نہیں،کیونکہ اس میں کئی مفاسد ہیں جو ناجائز اور حرام ہیں۔ اس میں غیرمسلموں سے مشابہت پائی جاتی ہے اور حدیث مبارکہ میں ہے:
مَنْ تَشَبَّہَ بِقَوْمٍ فَہُوَ مِنْہُمْ (سنن ابی داؤد: ۴۰۳۱)
ترجمہ: ’’جس نے کسی قوم کی مشابہت اختیار کی وہ انہیں میں سے ہے۔‘‘
لہٰذاجو لوگ اپریل فول مناتے ہیں اندیشہ ہے کہ ان کا انجام بروز قیامت یہود ونصاری کے ساتھ ہو۔ایک واضح قباحت اس میں یہ بھی ہے کہ جھوٹ بول کر دوسروں کو پریشان کیا جاتا ہے اور جھوٹ بولنا شریعت اسلامی میں ناجائز اور حرام ہے۔
حدیث مبارکہ میں ہے:
إن الکَذِبَ فُجُورٌ، وإنَّ الفُجُورَ یَہدِی إلی النّار۔ (صحیح مسلم:۲۶۰۷)
ترجمہ : ’’ جھوٹ بولنا گناہ ہے اور گناہ (جہنم کی) آگ کی طرف لے جاتا ہے۔‘‘
بلکہ ایک حدیث مبارکہ میں تو جھوٹ بولنے کو منافق کی علامت قرار دیا گیا ہے:
آیَۃُ الْمُنَافِقِ ثَلاثٌ إِذَا حَدَّثَ کَذَبَ وَإِذَا وَعَدَ أَخْلَفَ وَإِذَا اؤْتُمِنَ خَانَ۔ (صحیح البخاری: ۳۳)
ترجمہ: ’’منافق کی تین نشانیاں ہیں۔ جب بات کرتاہے تو جھوٹ بولتا ہے، وعدہ کرتا ہے تو خلاف ورزی کرتا ہے اور جب اس کے پاس امانت رکھی جائے تو خیانت کرتا ہے۔‘‘
ایک حدیث مبارکہ کے مطابق جھوٹ بولنے والے سے رحمت کا فرشتہ بھی دور ہوجاتا ہے۔ چنانچہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
إِذَا کَذَبَ العَبْدُ تَبَاعَدَ عَنْہُ الْمَلَکُ مِیلاً مِنْ نَتْنِ مَا جَاء َ بِہِ۔ (ترمذی: ۱۹۷۲)
ترجمہ: ’’جب کوئی جھوٹ بولتا ہے تو جھوٹ کی بدبو کی وجہ سے (رحمت)کا فرشتہ ایک میل دور چلا جاتا ہے۔‘‘
احادیث مبارکہ کی روشنی میں معلوم ہوتا ہے کہ جھوٹ بولنا مسلمان کی شا ن نہیں ہے ۔یہ منافق کی علامت ہے۔ لہٰذااپریل فول کے موقع پرمذاق کے نام پر جھوٹ بولنا یا تفریح کے نام ھوکادینا قطعاً مسلمان کے شایان شان نہیں ہے۔ اپریل فول کے مو قع پر جھوٹ کی بنیاد پر بسا اوقات دوسروں کے بارے میں نامناسب باتیں پھیلا دی جاتی ہیں، جس کی وجہ سے ان کی عزت خاک میں مل جاتی ہے ،جوکہ اشدمذموم وحرام ہے ۔ مسلمانوں کو آپس میں عزت و آبرو کی حفاظت پر زور دیا گیا ہے۔ جس طرح کسی شخص کے نا حق قتل کو اسلام نے حرام قرارد یاہے، اسی طرح اس کی عزت و آبرو کا پردہ چاک کرنے اور اسے دھوکادینے سے بھی اسلام نے سختی سے منع کیا ہے۔ حدیث مبارکہ میں خاتم النبیین حضور نبی کریم ﷺ نے قربانی کے دن لوگوں کو خطبہ دیتے ہوئے ارشاد فرمایا:
إ نَّ دِمَاءَ کُمْ وَأَمْوَالَکُمْ وَأَعْرَاضَکُمْ عَلَیْکُمْ حَرَامٌ کَحُرْمَۃِ یَوْمِکُمْ ہَذَا فِی بَلَدِکُمْ ہَذَا فِی شَہْرِکُمْ ہَذَا۔ (صحیح البخاری:۱۷۳۹)
ترجمہ : ’’بے شک تمہا رے خون اور تمہارے مال اور تمہاری عزتیں تم پر اس طرح حرام ہیں جس طرح تمہارے اس (قربانی کے) دن کی ، تمہارے اس شہر(مکہ) کی ، تمہارے اس مہینہ (ذوالحجہ) کی حرمت ہے۔‘‘
یعنی جس طرح مکہ مکرمہ کی حرمت ہے اسی طرح مسلمانوں کی جان ، مال اور عزت کی بھی حرمت ہے کہ وہ کسی بھی طرح دوسرے مسلمان کی عزت پامال نہ کرے اور اسے دھوکہ نہ دے۔مسلمان کی شان تو یہ ہے کہ وہ کسی کو دھوکا نہیں دیتااور ہی کسی پر ظلم و جبر کرتا ہے۔ حدیث مبارکہ میں ہے:
اَلْمُسْلِمُ أَخُو الْمُسْلِم لَا یَظْلِمُہُ وَلَا یَخْذُلُہُ وَلَا یَحْقِرُہُ ۔ (صحیح المسلم: ۲۵۶۴)
ترجمہ: ’’مسلمان مسلمان کا بھائی ہے ، اس پر ظلم نہ کرے،نہ اس کو رسوا کرے اور نہ حقیر جانے۔‘‘
اس دن مذاق میں دوسروں کو ڈرایا دھمکایا بھی جاتا ہے جو بسا اوقات جان لیوا بھی ثابت ہوتا ہے۔ یہ بھی یاد رہے کہ مذاق کرنے کو شریعت میں منع نہیں کیا گیا بلکہ شریعت میں جھوٹے مذاق کی مذمت و ممانعت کی گئی ہے۔ اس کے برعکس اس طرح مذاق کرنا کہ اس میں جھوٹ نہیں بلکہ بات سچ ہو تو یہ مذموم نہیں ہے بلکہ روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ حضور نبی کریم ﷺ خود ایسا فرمایا کرتے تھے۔ چنانچہ امام ترمذی نقل کرتے ہیں:
عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ قَالَ: قَالُوا: یَا رَسُولَ اللّٰہِ إِنَّکَ تُدَاعِبُنَا، قَالَ: إِ نِّیْ لاَ أَقُولُ إِلاَّ حَقًّا۔ (جامع الترمذی: ۱۹۹۰)
ترجمہ: ’’حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ لوگوں نے کہا :اے اﷲ کے رسول!آپ ہم سے ہنسی مذاق کرتے ہیں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا: میں صرف حق بات کہتا ہوں۔ ‘‘
الغرض مروجہ رسم اپریل فول میں کئی مفاسد پائے جاتے ہیں۔ لہٰذا تمام مسلمانوں کو چاہیے کہ اس قبیح فعل سے خود بھی بچیں اور دوسروں کو بھی بچائیں اور حکومت وقت کو بھی اس پر پابندی لگانے میں اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔اﷲ عمل کی توفیق مرحمت فرمائے۔۔۔۔آمین
اپنی ملت پہ قیاس اقوام مغرب سے نہ کر
خاص ہے ترکیب میں قوم رسول ہاشمی
 

Muhammad Riaz Aleemi
About the Author: Muhammad Riaz Aleemi Read More Articles by Muhammad Riaz Aleemi: 79 Articles with 75979 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.