بابا رحمتے باتیں نہیں کردار

وطن عزیز ایک بار پھر بے یقینی اور ابتری کے دور سے گزر رہا ہے۔عدلیہ کو بھی دوسرے اداروں کی طرح اپنے تشخص کی بقا کی جنگ لڑنا پڑرہی ہے۔چیف جسٹس ثاقب نثار ملک میں ہونے والی ابتری پر نوحاخوانی کرتے رہتے ہیں۔انہیں بنیادی حقوق کی پامالی کا گلہ ہے۔حکومتوں کی طرف سے یہ حقوق نہ مل پانے پر عوام کی جو حالت زار ہے۔جناب ثاقب نثار اپنے زیر سماعت کیسز کی سماعت کے دوران اس حالت زار پر کڑھن ظاہر کرتے رہتے ہیں۔مختلف پلیٹ فارم سے انہیں جب بھی اظہار رائے کا موقع میسر آیا انہوں نے قوم کی حالت زار کی اصلاح کا عزم ظاہر کیا۔لاہورمیں 23مارچ کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے اسی درد دل کا احساس دلایا۔ان کا کہنا تھا کہ اچھے حکمران آنے سے ملک کی تقدیر بدلتی ہے۔قسم کھاتاہوں کہ جمہوریتکو کوئی نقصان نہیں۔کسی کو شک نہ ہو۔انصاف بلا تفریق ہوتانظرآئے گا۔ووٹ کی عزت ہے۔ جمہوریت ڈیل ریل نہیں ہونے دیں گے۔کوئی مارشل لاء نہیں آئے گا۔

کچھ قوتوں کو ملک میں اگاڑ بچھاڑ کی عادت رہی ہے۔وہ ادارووں کو اپنے اشاورں پر نچانے کی پریکٹس کرتی رہتی ہیں۔عدلیہ بھی انہیں قوتوں کی بد نیتی کی شکار رہی۔ اسے اب بھی انہیں کی طرف سے سازشیں ہونے کا شک ہے۔عدلیہ کا ڈنک نکالنے کی خواہش رکھنے والے اسے پتلی تماشے کا حصہ بنانے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔وہ چاہتے ہیں کہ عدلیہ ان کے الٹے سیدھے اقدامات کو تحفظ دیتی رہے۔جاوید ہاشمی اس طرح کی خواہش اور سازشوں کا بہت پہلے ذکر کرچکے ہیں۔آج عدلیہ کو بالکل اسی قسم کی صورت حال کا سامنا ہے۔نظام عدل کو اس قدر بے ڈھنگا بانادینے کی کوشش ہورہی ہے کہ اس کی ساکھ تباہ ہوجائے۔کوئی منصفین پر یقین نہ کرے۔یہ قوتیں اب تک کامیاب رہی ہیں۔بہت کم وقت آئے کہ انہیں کوئی بڑی مزاحمت درپیش ہوئی ورنہ زیادہ تر انہیں جو حکم میرے آقا جیسے لوگوں سے واسطہ رہا۔ اب تک یا تو نوازشریف سامنے آکر ڈٹ گئے یا پھر افتخار محمد چوہدری کی ناں نے شہرت پائی ہے۔چوہدر ی صاحب تو اپنی مدت ملازمت پوری ہونے کے بعد قدرے غیر فعال سے ہوگئے۔مگر نوازشریف صاحب اب بھی ڈٹے ہوئے ہیں۔سابق چیف جسٹس صاحب نے ڈٹے رہنے کی کوشش ضرور کی مگر ناکام رہے۔اپنی سوچ کی تکمیل کے لیے سیاست میں آنے کا فیصلہ کیا تھا۔مگر کم تیاری اور عدم تجربہ کے سبب و ہ عوامی رنگ جمانے میں کامیاب نہ ہوپائے۔اپنے اعلی منصب کی آن شان اس قدر ان میں رچ پس گئی تھی کہ وہ کسی عوامی لیڈر کی طرح گلی محلوں میں جانا ایفورڈ نہیں کرسکے۔وہ دودوبار عہدے سے معزول ہونے کے سبب کسی بھی عام چیف جسٹس سے زیادہ اس اعلی منصب سے جڑے رہے۔اس دوران انہیں نظام حکومت اور نظام سیاست کو بڑے قریب سے دیکھنے کا موقع ملاان کے پا س ایک معقول مواد موجود تھا۔وہ چاہتے تو کئی برننگ ایشوز چھیڑ کر سیاست چمکا سکتے تھے۔مگر کچھ انا۔اور کچھ رواداری نے انہیں روایتی سیاست دان نہیں بننے دیا۔ان کی چیف جسٹس کے بطور جو شان با ن تھی بحیثیت سیاست دان نہیں بن پائی۔
موجودہ چیف جسٹس بھی ان دنوں اپنے اندرکوئی بے چین روح لیے ہوئے ہیں۔وہ ملک کو مسائل کے گرداب سے نکالنے کی تمنا رکھتے ہیں۔انہیں اپنے سابق رفیق کار سے سبق لینا چاہیے۔جسٹس افتخار چوہدری نے جب تک بڑے ایشوز پر توجہ دی انہیں مقبولیت ملی۔بطور چیف جسٹس ان کاکردار زبردست رہا۔جب تک وہ فرعونوں سے ٹکراتے رہے۔ہیروبنے رہے۔انہیں عوام کی بے انتہا محبت حاصل تھی۔سبب یہ تھا کہ عوام جن سے نفرت کرتی تھی۔چوہدری صاحب ان کے خلاف کھڑے ہوئے۔آج کے چیف جسٹس اپنے سابق رفیق کار کی طرح کا نام پانا چاہ رہے ہیں۔مگرانہیں مشکل پیش آرہی ہے۔الٹا ان پر ہونے والی تنقید کا دائرہ بڑھتاچلا جارہا ہے۔انہیں دیکھنا ہوگا کہ وہ کہاں غلطی کررہے ہیں۔شاید ان کی باتیں اور کردار میں کوئی بڑا فرق رائے عامہ کو متنفر کررہا ہے۔عوام پچھلی دونوں حکومتوں کے دیے زخموں سے بے حال تھے۔آ ج کے چیف جسٹس کے دور میں یہ دونوں حکومتیں قریبا بری اور آزاد ہیں۔ان حکومتوں کے کرتا دھرتا کھیل تماشوں میں مصروف ہیں۔انہیں اپنی کرتوتوں کی کوئی پرسش نہیں۔موجودہ بابا رحمتے کے دور میں ان دونونں حکومتوں سے متعلق کوئی دلچسپی نہیں دکھائی جارہی۔البتہ وہ موجودہ حکومت کو دیوار سے لگانے میں معاونت کررہا ہے۔عوام تلملا رہے ہیں۔ثاقب نثار صاحب کہا کرتے ہیں کہ بابا رحمتے تو لوگوں کے لیے سہولتیں پیدا کرتاہے۔ رائے عامہ یہی ہے کہ بابا رحمتے نوازشریف دور میں حاصل تھوٹری بہت سہولتوں کو بھی چھین لینے میں مصروف ہے۔

Amjad Siddique
About the Author: Amjad Siddique Read More Articles by Amjad Siddique: 222 Articles with 141309 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.