پولیس کی دہشت گردی !

ان سب کے باوجود پولس کے اس دہشت گردانہ رویئے کے سامنے ان کا جرم بہر حال چھوٹا ہو جاتا ہے ،یقیناً انہیں اس جرم کی سزا ملنی چاہیئے ،پولس کے پاس بہت سے طریقے ہوتے ہیں اور اس کے ہاتھ بھی بہت لمبے ہوتے ہیں وہ موٹر بائیک کا نمبر نوٹ کرسکتے تھے یا ان کا تعاقب کرکے فوری طور پر گرفتارکرسکتے تھے لیکن ایسا کچھ نہیں کیا گیا بلکہ اس کے بجائے وہ طریقہ اختیار کیا گیا جو کسی بھی طرح سے درست نہیں تھا یہاں تک کہ ان میں سے ایک عمران شیخ نامی نوجوان کی جگہ پر ہی موت ہوگئی اور دوسرا نوجوان جاوید بری طرح زخمی ہوگیا ۔

گزشتہ سنیچر ۲۴؍مارچ کی شب میں باندرہ ریکلیمیشن کے پاس ایک ناکہ بندی کے دوران پولس نے جس بربریت کا مظاہرہ کیا وہ کسی بھی باشعور انسان کے رونگٹے کھڑے کردینےکیلئے کافی ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ تین نوجوان ایک ہی بائیک پر سوار کہیں جارہے تھے پولس نے انہیں وارننگ دی ۔کچھ احساس جرم اور کچھ خوف کے سبب وہ نوجوان اپنی بائیک اور تیزی سے دوڑا نے لگے تاکہ پولس کی زد سےنکل بھاگیں تبھی ایک پولس جوان نے ان پر ڈنڈا پھینکا جو ٹھیک نشانے پر لگا، بائیک الٹ گئی سب بری طرح زخمی ہوئے ایک نوجوان تو اسی جگہ دم توڑبیٹھاجبکہ ایک شدید زخمی ہوااور تیسرا فرار ہوگیا ۔ایک معمولی جرم کی اتنی بڑی سزا قانون میں کہیں درج نہیں ہے ۔ہم مانتے ہیں کہ انہوں نے سگنل کی خلاف ورزی کی اور ٹرپل سواری کرکے ٹریفک کے اصول توڑڈالے ،اس جرم کی جتنی سزا مقرر ہے وہ انہیں ضرور ملنی چاہیے ۔ہم یہ بھی مانتے ہیں کہ آج کل کے نوجوان ہوش سے زیادہ جوش سے کام لیتے ہیں،خاص طور سے بائیک پر سواری کے دوران وہ خود کو کسی بادشاہ سے کم نہیں سمجھتےسڑکوں پر پیدل چلنے والے زخمی ہوں یا مریں ان کی بلا سے ان کی کرتب بازیاںعروج پر ہوتی ہیں، ذرا ذرا سی جگہوں سے بل کھاتے، لہراتے وہ اس طرح بایئک نکالتے ہیں کہ راہ گیر خود کو نہ سنبھالیں تو پل بھر میں ان کا کام تمام ہو جائے ۔آپ شہر میں کہیں بھی جائیں ہر جگہ ان کی کرتب بازیوں کے مظاہرے دیکھیں گے ۔ان سب کے باوجود پولس کے اس دہشت گردانہ رویئے کے سامنے ان کا جرم بہر حال چھوٹا ہو جاتا ہے ،یقیناً انہیں اس جرم کی سزا ملنی چاہیئے ،پولس کے پاس بہت سے طریقے ہوتے ہیں اور اس کے ہاتھ بھی بہت لمبے ہوتے ہیں وہ موٹر بائیک کا نمبر نوٹ کرسکتے تھے یا ان کا تعاقب کرکے فوری طور پر گرفتارکرسکتے تھے لیکن ایسا کچھ نہیں کیا گیا بلکہ اس کے بجائے وہ طریقہ اختیار کیا گیا جو کسی بھی طرح سے درست نہیں تھا یہاں تک کہ ان میں سے ایک عمران شیخ نامی نوجوان کی جگہ پر ہی موت ہوگئی اور دوسرا نوجوان جاوید بری طرح زخمی ہوگیا ۔

۔خبروں سے پتہ چلتا ہے کہ پولس نے جب ڈنڈا پھینکا تو وہ بائیک کے پہیئے میں پھنس گیا اور بائیک الٹ گئی سبھی گرگئے لیکن پولس مرنے والے کی پروا کئے بغیر دوسروں کو پکڑنےمیں لگ گئی ۔یہ پولس کی درندگی کی انتہا ہے اسے قانون کا محافظ بنایا گیا ہے اور قانون شکنی کے مرتکب کسی بھی فرد کو گرفتار کرنے کا اسےحق حاصل ہے لیکن قانون کی حفاظت صرف یہیں تک محدود نہیںاس کی ذمہ داریاں اس سے آگے بھی ہیں ۔ قانون توڑنے والے کو جان سے مارنے کا اسے کوئی حق نہیں ہے وہ انہیں گرفتار کرسکتی ہے اور ضرورت پڑنے پر تادیبی کارروائی بھی کرسکتی ہے لیکن اس کی بھی ایک حد مقرر ہے، اس سے تجاوز کا اسے قطعا ً حق نہیں ہے ،ایسے پولس والوںکی رعونت اور دہشت گردی کا مواخذہ ضروری ہے ۔ حیرت کی بات تو یہ ہے کہ زون نمبر ۹ کے ڈی سی پی پولس کے ڈنڈا پھینکنے کے عمل کی تردید کررہے ہیں ۔اس ضمن میں ایک مقامی سماجی کارکن شبنم شیخ نے مہلوک عمران شیخ کا مقدمہ لڑنے کا فیصلہ کیا ہے ،ان کا کہنا ہے کہ ہر طرف سی سی کیمرے نصب ہیں اس پر سارے مناظر دیکھے جاسکتے ہیں ،یہ کتنی افسوسناک بات ہے کہ ڈی سی پی نے اتنی جلد بازی میں فیصلہ کرتے ہوئے پولس کو کلین چٹ دے دی اور سرے سے ہی اصل واقعے کی تردید کردی ۔ایسے غیر ذمہ دارافسران پر بھی کڑی نظر رکھنے کی ضرورت ہے ۔تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی بھی ایک بہت بڑا مسئلہ ہے آج ممبئی کے کسی بھی علاقے میں ہمہ وقت ایک میلے کا سماں رہتا ہے ،کھوئے سے کھوا چلنے کا محاورہ ابھی تک صرف سنتےہی آئے تھے لیکن اب ممبئی میں یہ محاورہ ہر وقت دیکھا اور سمجھا جاسکتا ہے۔ دس منٹ کے سفر کیلئے گھنٹہ بھر لگ جانا اب معمول کی بات ہوگئی ہے ۔ٹیکسی میں سفر کیجئے تو ٹیکسی کم چلتی ہے میٹر زیادہ چلتا ہے اور مسافر کا دم گھٹتا ہے اس کی نظریں بار بار میٹر کی طرف جاتی ہیں اور اس کی گفتگو کا انداز بدل جاتا ہے، کبھی کبھی وہ بیٹھے ہوئے ہم سفر سے بہکی بہکی باتیں کرنے لگتا ہے ۔

فور وہیلر اور ٹو وہیلر کی بڑھتی ہوئی تعداد دیکھ کر کبھی کبھی تو ایسا محسوس ہوتاہے کہ انسانوں سے زیادہ سڑکوں پریہ گاڑیا ں رینگ رہی ہیں اور ہر وقت یہ خدشہ لگا رہتا ہے کہ وہ آپ کے اوپر نہ آجائیں ۔ پیدل راہ گیر جائے تو کہاں جائے ٹریفک سے گھبراکر فٹ پاتھ پر جاتا ہے تو وہاں بھی چلنے کی جگہ نہیں بیشتر فٹپاتھوں پر دوکانیں اور باکڑےلگے ہوئے ہیں اور کہیں کہیں چھوٹے موٹے جھونپڑےبھی آباد ہیںسڑکوں پر چلنااب بڑے جان جوکھم کا کام ہے ۔فیض احمد فیض نےیہ اشعار ملک کی سیاسی صورتحال کے تناظر میں تحریر کئے تھے لیکن اب وہ موجودہ بڑھتی ہوئی آبادی اور اس سے کہیں زیادہ گاڑیوں کی بھرمار اور اس سے کہیں زیادہ ٹریفک جام کی صورتحال پر صادق آتے ہیں ۔
نثار میں تری گلیوں پہ اے وطن کہ جہاں چلی کچھ ایسی ہوا کوئی نہ سر اٹھاکے چلے
جو کوئی چاہنے والاطواف کو نکلے نظر جھکاکے چلے جسم و جاں بچاکے چلے

سڑکوں پر بڑھتا بے تحاشاگاڑیوں کا سیلاب ایک خطرناک مسئلہ بنتا جارہا ہے آئے دن ہونے والے حادثات یہ کہہ رہے ہیں کہ اس مسئلہ پر غور کیا جائے بینک اوردیگر تجارتی ادارے اپنے کاروبارکیلئے آسان قسطوں پر لون فراہم کرتے ہیںاور حکومت ان سے ٹیکس کی شکل میں بڑی بڑی رقمیں بٹورتی ہے جس کے نتیجے میں سڑکوں پر گاڑیاں بڑھتی جارہی ہیں ۔راستے جام ہوں اور اور لوگ سڑکوں پر دم توڑتے رہیں اس جانب فکر کرنے والاکون ہے ۔مہنگائی پر کنٹرول ،انفرانسٹرکچرکی درستگی اور دیگر عوامی سہولیات کی فراہمی انتظامیہ و حکومت کی اہم ترین ذمہ داری ہوتی ہےاور اس سے بھی بڑی ذمہ داری یہ ہے کہ ملک کی گنگا جمنی تہذیب کو برقرار رکھا جائے لیکن حکومت کو ان کاموں سے کوئی دلچسپی نہیں اس کے برعکس وہ مسلسل غیر ضروری امورمیں لگی رہتی ہے۔ بابری مسجد تنازعہ ابھی تک لاینحل بنا ہوا ہے۔ طلاق ثلاثہ بل کے بعد اب تعددازدواج اور دیگر مسائل کھڑے کرکے وہ مسلسل امن و امان کو غارت کرتی جارہی ہے ۔اس کی نظر یں صرف انتخابی جوڑتوڑ پر لگی رہتی ہیں اور ساری صلاحیتیں اسی میں صرف ہوتی ہیں کہ کس طرح حریف پارٹیوں کو کمزور کیا جائے اور عوام کو یہ باور کیا جائے کہ ہمارے سوا کسی کے اندر ملک کی قیادت و سیادت کی اہلیت نہیںاور ہم ہی ملک و قوم کے صحیح خیر خواہ ہیں ۔آپ کا کیا خیال ہے ۔

Waseel Khan
About the Author: Waseel Khan Read More Articles by Waseel Khan: 126 Articles with 94481 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.