یک نہ شد دو شد

چوہدری نثار لگتا ہے کسی غیر حقیقی خوف کے شکا رہیں۔وہ قیادت کے خلاف باربا ربیانات تو داغ رہے ہیں۔مگر پارٹی چھوڑنے کا اعلان کرنے کا حوصلہ نہیں پارہے۔وہ نوازشریف کی تمام حکومتوں میں کسی نہ کسی بڑی پوزیشن پر فائز رہے ہیں۔انہیں پارٹی میں بھی ہمیشہ اچھا عہدہ ملا۔اس کے باوجود چوہدری صاحب اپنے آپ کو مضبوط کرنے میں ناکام رہے۔ کوئی موثر گروپ نہیں بناپائے۔کوئی بڑا پلان نہیں تیارکرپائے۔وہ آج بھی پارٹی چھوڑنے کا حوصلہ نہیں پارہے۔انہیں خوف ہے کہ اگر نوازشریف کا لیبل اتار پھینکا تو وہ شیخ رشید کی طرح نہ ادھر کے رہیں گے نہ ادھر کے۔ان کی یہی بے بسی ہفتے مہینے بعد چھوٹا موٹا اختلافی بیان دے کر اپنی ناراضگی ظاہر کرنے تک محدود کررہی ہے۔ان کا تازہ ترین گلہ یہ ہے کہ شہباز شریف بہتری لاسکتے ہیں۔مگر انہیں مینڈیٹ نہیں دیا جائے گا۔ میری اور آصف زردری کی سیاست میں فرق ہے۔ عمران خاں اور آصف زرداری کا ہاتھ ملانا نیک شگون ہے۔وزیر اعظم اور چیف جسٹس کی ملاقات کا مقصد اداروں میں نرمی تھا۔نوازشریف سے وہ روابط نہیں۔ن لیگ کو اگر گھر کی لونڈی بنا یا گیاتوشاید پارٹی سے رشتہ نہ رہے۔

چوہدری نثار کی بے چینی بے سبب نہین ہے۔مسلم لیگ (ن) اس وقت نئی انگڑائیاں لے رہی ہے۔ایسی انگڑائیاں جس سے چوہدری صاحب اور ان جیسے کچھ لوگ خوش نہیں۔انہیں خوف ہے کہ اب انہیں ڈرائیونگ سیٹ کی بجائے عام سواریوں کے پورشن میں بیٹھنا پڑے گا۔ان کا پارٹی گھر کی لونڈی بنتی محسوس ہونا کہہ دینا اصل میں اس بات کا اشارہ ہے کہ چوہدری صاحب کو اب وہ توجہ نہیں مل رہی جو کبھی حاصل تھی۔مگر ا س تبدیلی کا ذمہ دار کون ہے۔بظاہر چوہدری صاحب کی اپنی کوتاہیوں کا وزن زیادہ لگتاہے۔ نوازشریف کے اس پورے دور میں پارٹی پر کڑا وقت رہا۔آزمائش کے اس وقت پر چوہدری صاحب کی جانب سے کندھے سے کندھا ملانے کا سے گریز کیا گیا۔یہی تک بات رہتی تو کچھ نہ تھا۔ایسا بیسیوں دیگر لیگی اکابرین نے بھی کیا۔بات یوں بگڑی جب چوہدری صاحب کی جانب سے مخالفین کے موقف کادفاع کیا جانے لگا۔باربار اپنی قیادت کو صبر کرنے اور ایک قدم پیچھے ہٹنے کا مشورہ دیتے نظر آئے۔اسی سبب پارٹی اعلی قیادت میں ان کی وفاداری پر سوال اٹھنے لگے۔مریم نوازصاحبہ کا ڈرائیونگ سیٹ پر آجانا کچھ لوگوں کو ناپسند ہے۔شاید اسی وجہ سے پارٹی کو گھر کی لونڈی قراردیا جارہاہے۔مگر کیا یہ درست نہیں کہ مریم نے اس آڑے وقت میں نوازشریف کا ساتھ دیا جب اکثریت مائنس نوازشریف پر آمادہ ہوچکی تھی۔ذراتصور کیجیے اگر محترمہ مریم نواز بھی مائنس نوازپر راضی ہوجاتی تو کیا ہوتا۔کیا پارٹی کی وحدت برقراررہ پاتی۔کیا اب تک پارٹی کے دو یا تین دھڑے نہ بن چکے ہوتے۔دو دھڑے تو یقینی تھے۔ایک دھڑا جو نوازشریف کو حقیقی ووٹ بنک تصور کرتاہے۔اوردوسرادھڑاجو نوازشریف کے جارحانہ انداز سیاست کے بہانے پر قائم کردیا جاتا۔بات یہی نہ رکتی متفقہ قیادت کے بحران کے سبب یہ دوسرا دھڑا مذید ٹکڑیوں میں تقسیم ہوجاتا۔شہبازشریف کو ایک مضبوط گروپ کی حمایت کا یقین کیا جاسکتاہے۔لیکن اس کے باوجودایک ٹکڑی لازما ایسی بھی بنوائی جاتی جسے اینٹی شریف فیملی کانا م دیا جاسکتا۔یہ مریم نواز ہی تھیں۔جنہوں نے بے پناہ محنت اور پلاننگ سے یہ متوقع توڑ پھوڑ روک دی۔

حقیقی قیاد ت کی ہمارے ہاں ہمیشہ مخالفت کی گئی ہے۔یہ قیاد ت ان کے ٹوپی ڈراموں کی راہ میں رکاوٹ بنتی ہے۔اس لیے یہ مصنوعی قیادت تیار کرتے رہتے ہیں۔آج کسی کو استعمال کیا۔کل کوئی نیا لے آئے۔مصنوعی قیادت کا کام اپنے مالکوں کے اشاروں پر چلنا ہوتاہے۔عوام سے جھوٹ بولنا انہیں کھیل تماشوں میں لگائے رکھنا۔اس قیادت کی فریضہ قرار پاتاہے۔انپڑہ اور غریب عوام کو ان کے حقوق سے بے خبر رکھنا انہیں نان ایشوزمیں الجھائے رکھنا اس کی ذمہ داریوں کاحصہ ہوتاہے۔اس محنت کے بدلے میں کبھی اسے کوئی ایسا بڑا عہدہ دے دیتے ہیں جس کے وہ لائق نہیں ہوتی۔مصنوعی قیادت کی بھرتی میں چوروں اورٹھگوں کو ترجیح دی جاتی ہے۔یہ لوگ اپنے پالنے والوں کے مفادات کا تحفظ بہتر اندازمیں کرپاتے ہیں۔ چوروں اور چور پالنے والوں کی امداد باہمی کا یہ شیطانی کھیل نوازشریف کو پسند نہیں۔وہ ووٹ کے تقدس کی بحالی کی تحڑیک کے نام پر اس مکروہ کھیل کے خلا ف میدان میں نکل چکے۔مسلم لیگ(ن) کو گھر کی لونڈی کا طعنہ دینے والے یہ نہیں سمجھتے کہ مریم نواز کی شکل میں نوازشریف کو ایک مضبوط ساجھی ملا ہے۔مائنس نوازشریف تو نہیں ہوسکا۔الٹانوازشریف کی طاقت ڈبل ہوگئی۔ مریم نواز غیر محسوس طریقے سے ٹاپ پوزیشن تک آن بیٹھیں۔مصنوعی قیادت مسلط کرنے والوں کے ڈیروں پر وحشت چھارہی ہے۔یہ وحشت اسی نئے یک نہ شد دو شد کے سبب ہے۔

Amjad Siddique
About the Author: Amjad Siddique Read More Articles by Amjad Siddique: 222 Articles with 140934 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.