ہمارے پیارے ملک، مملکت اسلامی جمہوریہ پاکستان
اوراسلامی دنیا میں مغربی طوطوں کا میڈیا میں بڑا چرچا ہے۔ یہ لوگ اپنے ملک
ومذہب کے خلاف زبان درازی کر مغرب سے داد وصول کرتے رہتے ہیں۔شہرت پاتے ہیں
اور مالی مدد بھی حاصل کرتے ہیں۔ مغرب کی آلہ کار ملالہ یوسفز زئی ہی کو لے
لیں،جو نام نہاد حملے میں زخمی ہونے اور صحت پانے اور پانچ سال بعد لندن سے
واپس آئی ہے۔ جس کو مغرب کی آلہ کار بننے کے عوض میں مغرب نے سکندر اعظم سے
بھی بڑا رعتبہ دے دیا ہے۔نوبیل انعام،اقوام متحدہ میں خطاب،مغربی ملکوں کی
پارلیمنٹوں سے خطاب اور بچیوں کی تعلیم کے لیے کروڑوں ڈالر کی امداد
اورملالہ فنڈ قائم کیا گیا۔ملالہ نے سوات میں بچیوں کی تعلیم کے لیے کچھ
بھی تو نہیں کیا۔ ہاں وہ اپنی باپ کے اسکول جو امریکی مدد سے چلتا تھا اس
میں زیر تعلیم تھی۔ جب امریکا کے بنائے ہوئے ٹی ٹی پی (طالبان) سوات میں
امریکا کی اشیر آباد پر دہشت گردی کر رہے تھے۔ تو ملالہ اس وقت اپنے باپ کے
ساتھ ایبٹ آباد چلی گئی تھی۔ جب قدرے امن ہوا تو سوات واپس گئی تھی۔ جب
ملالہ سوات میں تھی تو کل مکئی کے نام سے بی بی سی اُردو کے مقامی رپورٹر
اور جیونے کہانیاں تخلیق کی تھیں۔ دراصل یہ بی بی سی اُردو اور جیونیوز کی
تیار کردہ ڈائری تھی جو پاکستان کو بدنام کرنے کے لیے تیار کی گئی تھی۔ یہ
کہانیاں پاکستانی امریکی فنڈڈ میڈیا، جس میں سرِ فہرست پاکستان کا ایک بڑا
میڈیا گروپ تھا اوریہودیوں کے کنٹرول میں بین الاقوامی میڈیا نے بھی اسے
خوب پھیلایا تھا۔ اسی بڑے میڈیا گروپ کے مشہور اینکر نے ۹؍ سال قبل، سب سے
پہلے ملالہ کو پرموٹ کرنے کے لیے اس کاانٹرویو کیا تھا۔اُسوقت ملالہ ۱۱؍
سال کی بچی تھی۔ جب ملالہ لندن میں تھی تو اسی اینکر نے ملالہ سے دوسرا
انٹرویو کیا تھا۔اسی اینکر نے اب جب ملالہ اب پاکستان آئی ہے تو تیسرا
انٹرویو جس میں ملالہ کو پروموٹ کیا ہے۔ اسی بڑے میڈیا گروپ نے اپنے
الیکٹرونک میڈیا سے پاکستان کی مایا ناز قابل فخر آئی ایس آئی کے چیف کے
فوٹو کے ساتھ چھ گھنٹے مسلسل جھوٹی خبر چلائی تھی کہ اس کے اس اینکر پر آئی
ایس آئی کے چیف نے حملہ کروایا ہے۔جس کو نواز شریف نا اہل وزیر اعظم نے
نہیں روکا تھا۔ یہ میڈیا گروپ جیو کہانی نشر کرکے پاکستانی معاشرے کو
ہندوانہ اور مغربی معاشرے کا دلدادہ بنانے کی کوشش کرتا رہا ہے۔اس کے اینکر
صاحب بنگلہ دیش میں اپنے مرحوم قوم پرست والد کا ایوارڈ لینے بنگلہ دیش گیا
تھا۔ اس نے پاکستان دشمن بنگلہ دیش کی وزیر اعظم سے ایوارڈ لینے کے بعد کہا
تھا کہ پاکستان کی فوج کے مظالم کے خلاف بھی مقدمات قائم کیے جائیں اور
قرار واقعی سزا دی جائے۔(جبکہ ایک بنگالی ہندولیڈرسبھاش چندربوس جو تحریک
آزادی ہند کے عظیم رہنما تھے کی پوتی شرمیلا بوس جو بھارتی اور بنگالی ہے ۔یونیورسٹی
آف آکسفورڈ کے شعبہ سیاسیات اور بین الاقوامی تعلقات کی سنیئر ریسرچ ایسوسی
ایسٹ بھی ہیں۔ اپنی کتاب میں بنگالی قوم پرستوں کے مظالم بیان کئے ہیں کہ
ان کے مظالم نے پاکستانی فوج کو کاروائی کرنے پر مجبور کیا گیا۔ اس کتاب
میں اس نے ثابت کیا ہے کہ بنگالی عورتوں کے گینگ ریپ کے واقعات غلط ہیں۔
انہیں بڑھا چڑھا کر بیان کیا گیا ہے۔بنگالی قوم پرست جو ہر قسم کے انسانی
جرائم میں ملوث تھے پاکستانی فوج سے متعلق تیس لاکھ قتل عام افسانہ
ہے۔سبھاس چندر بوس کی پوتی نے اپنی تحقیق میں پاکستانی فوج کے نام
نہادمظالم کو جھوٹا ثابت کیا ہے)اس اینکر نے علیحدگی پسند ماما قدیر بلوچ
جو پاکستان کی فوج کے خلاف الزام لگاتا رہتا ہے کا مسنگ پرسن پر پروگرام
کیا تھا۔ جس میں پاکستان کی فوج کو بدنام کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔اوربہت
کچھ ہے مگر طوالت کی وجہ سے بیان نہیں کر سکتے۔ یہ سب کچھ اس لیے لکھا
جارہا ہے کہ عوام کو معلوم ہو کہ کون کون مغرب کے طوطوں کے طور پر اسلامی
جمہوریہ پاکستان میں کام کر رہے ہیں۔اس سے قبل ڈکٹیٹر پرویز مشرف کے دور
میں، مظفر گڑھ مختیاراں مائی کے ساتھ اجتماہی ریب کو مغرب میں خوب اُچھالا
گیا تھا۔ پورے مغرب اور امریکا میں مختیاراں مائی کے پروگرام کرائے گئے اور
پاکستان کے اسلامی معاشرے کی تذلیل کی گئی۔مختیاراں مائی پر بھی مغربی
طوطوں نے کتاب لکھی تھی۔(جب کہ مظفر گڑھ سے قومی اسمبلی کا ممبر جناب جمشید
دشتی صاحب ،مختیاراں مائی کے ریب کے واقعہ کی تردید کرتا ہے)۔ اسی طرح
اسلام کو بدنام کرنے کے لیے ٹی ٹی پی (طالبان)امریکا نے بنائے تھے۔جنہوں نے
پاکستانی سیکورٹی کے لوگوں کے کٹے سروں سے فٹ بال کھیلا تھا(جس کا سربراہ
مولوی فضل اﷲ جو اب بھی افغانستان سے پاکستان میں دہشت گردی کرتا ہے) ان ہی
طالبان نے ایک لڑکی کو سوات میں کوڑے مارے تھے۔ مقدمہ عدالت میں چلا اور
ایک مغربی طوطی نے اس کا اعتراف کیا کہ اسے اس جعلی ڈرامہ کے لیے پانچ لاکھ
روپے دیے گئے تھے۔کوڑے مارنے کا بہانہ بنا کر سوات میں طالبان کے خلاف
آپریشن شروع ہوا تھا۔
سوات میں بی بی سی اُردو کے نمائندے کو کہانیوں لکھنے کے عوض بی بی سی کے
مقامی رپورٹرسے پروموٹ کر کے نیوز پروڈیوسر کے عہدے پر ترقی دے دی
گئی۔ملالہ کہانی کے اصل تخلیق کار ملالہ کے والدضیاء الدین یوسفزئی ،جو
سوات کے اس کے اپنے جاننے والے کہتے ہیں کہ ایک لالچی شخص ہے۔ضیا الدین
یوسف زئی ایک قوم پرست روشن خیال شخص ہے۔ قوم پرست پختون اسٹوڈنٹ تنظیم
کاممبر اور صدر بھی رہا۔ اسے اس کے والد جو شانگلہ میں امام مسجد تھے، اس
کے اسلام مخالفت خیالات کی وجہ سے نے گھر سے نکال دیا تھا۔ اس نے سوات میں
امریکی فنڈ سے ایک این جی اوز’’ گلوبل پیس کانفرنس‘‘ قائم کی۔ ایک خوشحال
پبلک اسکول کھولا ۔جس میں اس کی بیٹی ملالہ زیر تعلیم تھی۔ اُس وقت ضیا ء
الدین یوسفزئی اور ان کی بیوی کی ر چرڈبالروک، بر گیڈیئر مارٹن جونز اور سی
آئی اے کے اہلکاروں کے ساتھ متعددمیٹنگ کی تصاویر جب سوشل میڈیانے جاری کیں
تو ملالہ کہانی کی سازش ہونے کے شواہد کنفرم ہو گئے۔ضیالدین یوسفزئی کو
ملالہ کے ڈرامے میں کلیدی کردار ادا کرنے پر امریکا سے مدد ملی۔ بین
الاقوامی طور پر شہرت ملی۔ بلا آخرو لندن میں پاکستان کے فارن آفس میں
نوکری بھی مل گئی۔(حوالہ۱۵ ؍اپریل ۲۰۱۲ء روز نامہ امت کراچی) بڑے میڈیا
گروپ کے سیکولر اینکر پرسن کو مغرب سے صحافتی انعام ملا۔
ہم نے لفظ طوطے کیوں سلیکٹ کیا ہے۔ وہ اس لیے پاکستان اور اسلامی دنیا میں
جو کوئی مرد یا عورت، اسلام کی مخالفت اور مغربی معاشرے کی تعریف کرے، تو
مغرب اُسے مدد کرتا ہے، شہرت نوازتا ہے اور اس کے لیے ترقی کے راستے کھولتا
ہے۔جس میں شیطان سلمان رشدی۔ تسلیمہ نسرین اورملالہ وغیرہ شامل ہیں۔عبید
چنائے جیسی طوطی ، پاکستانی معاشرے کو منفی طور پر پیش کر کے مغرب سے
اواسکر انعام حاصل کرتی ہے۔ ملالہ کا ذکر کریں تو ہم نے اِس کی کتاب اور اس
کے مشکوک کردار ’’ ملالہ کی کہانی اور کتاب‘‘پرمسلسل چھ کالم لکھے تھے۔ اس
کا کچھ حصہ اس طرح ہے کہ ملالہ کا پشاور کی ملٹری ہسپتال میں جعلی قسم کا
علاج کیا گیا ۔ کہا گیا پاکستان میں علاج ممکن نہیں۔پھر اسپیشل ایئر
ایمبولنس سے ملالہ کو برطانیہ اس ڈرامے کے بڑے کرداروں کے پاس پہنچا دیا
گیا تاکہ راز فاش نہ ہو سکے۔ انگلستان کی ہسپتال میں ملالہ کی سر سے گولی
بھی نہیں نکالی گئی نہ اس کے سر سے بال کاٹے گئے ۔نہ کہیں ماتھے پرزخم کے
نشان نظر آئے۔ اور ملالہ بل لکل ٹھیک اور صحت مند ہو گئی۔ اس دوران سوشل
میڈیا نے اس ڈرامے کا بھانڈا پھوڑ دیا۔ اور ملالہ کی صاف ستھرے چہرے والی
تصویرں جاری کر دیں۔ اور پورے ملک میں سازش بے نقاب ہو گئی۔اس ڈرامے کا
نقشہ ایک کالم نگار نے اس طرح کھینچا ’’ کہاں کل تک برطانوی ڈاکڑوں کی یہ
خبر کہ ماتھے پر گولی لگی ہے۔ کھوپڑی کی ہڈیاں ٹوٹ گئی ہیں۔ دماغ نیم مردہ
ہے اور برطانوی ڈاکڑوں نے تو یہ بھی کہا کہ علاج سے پہلے کچھ دن کا آرام
مطلوب ہے۔ اور کہاں یہ صورتحال کہ ملالہ کا علاج شروع بھی نہیں ہوا اور
ماتھے سے گولی کا زخم اور نشان غائب ہو گیا۔ ہسپتال ہے یہ کوئی جادو کا گھر
ہے؟۔ میرے کالم پاکستانی پریس میں شایع ہوئے تھے۔ جس میں ہم نے ملالہ کہ
کہانی اورکتاب کا راز فاش کیا تھا۔ اگر کوئی ملالہ کی کہانی کی مزید حقیقت
تک پہنچنا چاہتاہے تو اُسے سوات کے ایک محقق جناب ڈاکٹر سلطان روم کے
مضمون’’المیہ سوات اور ایوارڈز‘‘ قسط اول؍دوم جو اخبار آزادی سوات میں
۲۷؍۲۸؍ اگست ۲۰۱۰ء شائع ہوئے تھے پڑھ سکتا ہے ۔ گل مکئی کی کہانیوں میں
ملالہ اسلام کے شعار کے خلاف زہر اُگلتی رہی۔ جو ملالہ نے اپنی کتاب’‘ am
malala i ‘‘میں بھی درج کیا ہے ۔(یہ کتاب بھی مغربی عیسائی صحا فی کرسٹینا
لیپ نے لکھی ہے) اِس نے پی آئی اے میں اُسامہ کے نام سے جعلی ٹکٹ حاصل کیا
تھا اور سفر کرنے والی تھی کہ پکڑی گئی۔ اس سے اس کا مقصد پاکستان کو بدنام
کرنا تھا۔ کہ دیکھو اُسامہ پی آئی میں آزادانہ سفر کرتا رہاہے۔ اس جرم کی
وجہ سے اس مغربی صحافی ہے کو پاکستان سے ڈیپورٹ کیا گیا تھا۔ ملالہ نے اپنی
کتاب لکھا ہے کہ بر قعہ پتھر دور کی نشانی ہے۔ داڑھی والے دیکھ کر فرعون
یاد آتا ہے۔جبکہ حجاب اﷲ کا حکم ہے اور داڑھی سنت رسول ؐ ہے۔ پاک فوج پر
بھی تنقید کی گئی۔احمد رشدی اور تسلیمہ نسرین کی تعریف کی گئی۔لکھا گیا
کہ۱۹۶۵ء کی پاکستان نے ہاری تھی وغیرہ وغیرہ۔اس کتاب کو پاکستان کے تعلیمی
اداروں میں شامل کرنے کی کوشش کو تعلیمی اداروں کے محب وطن لوگوں نے ناکام
کر دیا۔ بلکہ اس کے مقابلے میں پاکستان کے نجی تعلیمی اداروں کی فیڈریشن کے
صدر نے کتاب لکھی۔’’I am not malala‘‘ جوضرور پڑھنی چاہیے۔
صاحبو! دُکھ تو اس بات پر ہے کہ ہمارے مقتدر حلقے امریکی کی غلامی سے ابھی
تک نہیں نکلے۔ دوست نما دشمن امریکا نے ہمارے ملک کو تباہ برباد کرنے کے
کوشش کی ہے۔ ملک ۹۰ فی صد عوام امریکا کے مخالف ہے۔ پیپلز پارٹی کے وزیر
اعظم نے بھی ملالہ کو انعام دیا۔ فوج کے سابق سپہ سالار نے تعریف کی۔جبکہ
پاکستان کے محب وطن لوگ سوشل میڈیا پر مغرب کی آلہ کار ملالہ کو عوام کے
سامنے آشکار کر رہے ہیں۔ موجودہ وزیر اعظم نے وزیر اعظم ہاؤس میں ملالہ کا
پروگرام کیا۔ ایک بڑے میڈیا کے لبرل اینکر نے الیکٹرونک میڈیا پر ملالہ کا
انٹرویو شائع کر کے مغربی سازش کو تقویت پہنچائی۔ قوم پرست اورلبرل طبقہ
پاکستان کے وسائل استعمال کر کے مملکت اسلامی جمہوریہ پاکستان کے اسلامی
نظریات کی جڑیں کاٹ رہے ہیں۔ نظریہ اسلام پر یقین رکھنے والے قائد اعظم ؒ
کے شیدائیوں کو اس کا توڑ کرنا چاہیے۔ اﷲ پاکستان کو دشمنوں کے سازشوں سے
محفوظ رکھے ۔آمین۔ |