جیب اجازت دے یا نہ دے اپنے بچے کو اس عزم کے ساتھ مہنگے
پرائیویٹ اسکول میں داخل کرایا جاتا ہے کہ پیٹ بھر کے روٹی نہیں کھائیں گے
مگر اپنے بچے کو کم سے کم ایسے اسکول میں تو ضرور پڑھائیں گے جہاں ہر کوئی
انگریزی زبان میں بات کرتا ہو۔ یہ الگ مسئلہ ٹھہرا کہ اسکول میں داخلے والے
دنوں میں تو چپراسی بھی انگریزی بولتا نظر آتا ہے۔ بعد ازاں داخلے کے چند
ماہ بعد یہ راز کھلتا ہے کہ انگریزی پڑھانے والی ٹیچر بھی انگریزی پڑھانے
سے قاصر ہے۔ لیکن معاشرے میں اپنی سفید پوشی کا بھرم رکھنے کے ساتھ ساتھ اس
پر اسٹیٹس کا گوٹہ ٹانکنا بھی تو ضروری ٹھہرا۔ سو انگریزی اسکول جیسا بھی
ہو اپنے بچے پر انگلش میڈیم کا ٹیگ ہونا ہی چاہیے۔ پاکستان میں معاشی حالات
جس ڈگری پر چل رہے ہیں ان میں یہ ہر گھر کی کہانی ہے، کہ انگریزی کا ٹیگ ہی
بچے کا معاشی مستقبل سنوار سکتا ہے۔ اسکول فیس اور اخراجات کے بڑھنے کی صدا
گھر گھر سے آتی ہے۔ امیر طبقہ امیر سے امیر تر اور غریب غربت میں دھنستا
جارہا ہے۔ رہی مڈل کلاس تو وہ ایسی دلدل میں پھنسی ہے کہ بس دم نکلنے کی
دیر ہے۔
اپنی اولاد کو اچھی تعلیم دینے کے خواب کو تعبیر دینے کے لیے جسم کا لہو
دان کرنا پڑتا ہے اور یوں فیس دینے کی آخری تاریخ یعنی ہر ماہ کی دسویں خون
خشک کرجاتی ہے۔ جو نہ دے سکے تو پندرہ کو جرمانے کے بعد،20تاریخ کو ڈبل
جرمانے کے ساتھ فیس جمع کروانا ضروری ہوتا ہے، ورنہ 21 کو تو بچے کا نام ہی
اسکول سے خارج کردیا جاتا ہے۔ اب وہ کون ہوگا جو اپنے بچے کو اسکول میں
رسوائی کا سامنا کرنے دے۔ لہٰذا کہیں سے بھی رقم کا انتظام کرکے فیس ادا کی
جاتی ہے۔
معاملہ یہی ختم نہیں ہوتا۔ بڑا انگریزی میڈیم اسکول ہو یا چھوٹا، چونچلے
اپنے عروج پر ہوتے ہیں۔ گوروں کے تمام تہوار منانا تو ہم پر فرض ٹھہرا۔
مذہبی ’’فنکشنز‘‘ میں بھی پیسے کو پانی کی طرح بہا یا جاتاہے اور یہ افسوس
ناک حقیقت سامنے آتی ہے دین کی اصل روح تو کہیں فنا ہوچکی ہے، جب کہ
اخراجات کی مد میں آنے والا تمام خرچہ والدین کی جیب سے پورا کیا جاتا ہے۔
پانچ سو، ہزار، منگوانا تو عام سی بات ہے، پھر ارتھ ڈے سے لے کر یلو، گرین،
بلو، ریڈ ڈے پر دن کی مناسبت سے لباس کی تیاری الگ۔ ان سب پر رقم دان کرنے
کے بعد سکون کا سانس لینا کسے نصیب ہے۔ کبھی بچے کو خرگوش بنانے کے لیے
کپڑے ضروری ہیں، تو کبھی شیر اور بھالو کے مختلف اقسام کے فینسی ڈریس
خریدنا۔ والدین کی مجبوری ٹھہری، جیب چاہے چیخ اٹھے لیکن اپنے بچے کو
اسٹیٹس مینٹین رکھنے کی دوڑ میں شامل کرنا ضروری ہے۔ سو اس قسم کے فینسی
ڈریس جن کی قیمت 500 روپے سے تین ہزار تک ہوتی ہے اور جنھیں بچہ فقط 15 سے
20 منٹ پہنتا ہے، خریدنا ہی پڑتے ہیں۔
یہ الگ بحث ہے کہ اسکولوں کے ساتھ اس طرح کے فینسی ڈریسز بنانے والوں کے
باقاعدہ معاہدے ہوتے ہیں اور ہر لباس پہ اسکول انتظامیہ اپنا کمیشن رکھتی
ہے۔ جو اسکول کمیشن نہیں لیتے وہ پروگرام تو بہر حال ضرور منعقد کرتے ہیں
تاکہ اپنے اسکول کے طالب علموں کو جانوروں···· معاف کیجیے گا، میرا مطلب ہے
اینیملز سے مشابہت رکھنے والی پر فارمینس دکھانے پر ان کی تصاویر بنائیں
اور نئے آنے والے گاہکوں··· میرا مطلب ہے والدین کو ان تصاویر کی مدد سے
پھانسا جاسکے۔
اب لیجیے کورس کی کتابوں کو، جو ادارہ زیادہ مراعات اور کمیشن کی بات کرے
جناب! اسی کی کتاب خریدنا ضروری ہے۔ میں آج تک یہ بات نہ سمجھ سکی کہ اردو
اور انگریزی میڈیم اسکولز میں کتابوں کا معیار مختلف ہوسکتا ہے، لیکن ہر
انگریزی اسکول دوسرے سے مختلف کورس کیوں پڑھا رہا ہے۔ پیسے بٹورنے کا نیا
حربہ یہ اپنا یا گیا ہے کہ وہ اسکول جن کی لاتعداد برانچز ایک ہی شہر میں
قائم ہیں،ان اسکولزمیں سال شروع ہوتے ہی فیس چالان کے ساتھ ایک اور چالان
تھما دیا جاتاہے اور یہ چالان کتابوں کی خرید کی مد میں جمع کروائی جانے
والی رقم کا ہوتا ہے۔
زیادہ پرانی بات نہیں کہ کسی کو یاد نہ ہو، کتابوں کی ایک فہرست اسکول کی
طرف سے مہیا کی جاتی تھی اور وہ والدین جو نئی کتابیں خریدنے سے قاصر تھے
وہ پرانی کتابیں اور نئی کاپیاں دے کر بچے کی پڑھائی کے خواب کو آگے بڑھاتے
تھے۔ اب انھیں کتابوں کی فہرست ہی نہیں دی جاتی جس کی مدد سے وہ جان سکیں
کہ کون سی کتاب خریدنی ہے اور کون سی نہیں؟ وہ اس پر مجبور ہیں کہ اسکول کے
بک اسٹور یا بتائے گئے مخصوص بک اسٹور ہی سے کتابیں خریدی جائیں، یہ بھی
اچھی رہی کہ کتابوں کا نام ہی نا بتایا جائے۔کیونکہ اس صورت میں تو والدین
پرانی کتابیں خرید لیں گے۔ اور اس طرح نا ہی اسکول انتظامیہ کی روزی میں
برکت ہوگی اور نا ہی والدین پر مہنگائی کا عذاب نازل ہوگا۔
کتابوں کے معیار اتنے اعلیٰ ہیں کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے کہ چھوٹا سا بچہ کس
طرح اس فلاسفی کو سمجھ سکے گا۔ اب مسئلہ سمجھنے نہ سمجھنے کا تو رہا ہی
نہیں۔ سمجھانے کی ذمے داری تو ماں باپ کی ہے۔ لہٰذا ٹیوشن کا سہارا لیا
جاتا ہے۔ ٹیوشن کی فیس کی ادائیگی ایک چھوٹے اژدہے کی مانند گلے میں لٹکی
ہوتی ہے اور اسکول کی فیس کا بڑا اژدہا دو دو ماہ کی اکٹھی فیسوں کے ساتھ
زبان لٹکائے ڈرا رہا ہوتا ہے۔ پھر جیسے ہی سالانہ فیس دینے کا مہینہ یعنی
اپریل شروع ہوتا ہے، یہ اژدہا پورا منہ کھول کر والدین کو نگلنے کے لیے
تیار ہوجاتا ہے۔ اسکول وین کی فیس ادا کرنا تو واجب قرار پایا۔ اب ہمارا
وین ڈرائیور جون جولائی میں اپنا گھر کیسے چلائے گا۔ سو بہتی گنگا میں ہاتھ
دھونا اس کے لیے بھی لازم ٹھہرا۔ پہیہ چلے نہ چلے دو ماہ کی تعطیلات میں یہ
فیس ادا کرنا بھی ضروری ہے۔ ایک اور رواج چل نکلا ہے، اسکول کی امتحان کی
کاپیاں فائلیں رنگ اور رنگ برنگی شیٹیں، جو کہ اسٹیشنری کے زمرے میں آتی
ہیں، وہ بھی اسکول سے سال شروع ہوتے ہی خریدنا ہوتی ہیں۔ اب اس سامان سے
بچہ فائدہ اٹھاتا ہے یا اسکول کا مالک، اس کے بارے میں کچھ کہنا مشکل ہے۔
ایک معیاری انگریزی میڈیم اسکول کی فیس کم سے کم ڈھائی ہزار روپے ہے، جب کہ
اس سے کم فیس والے اداروں کو معیار کی فہرست میں ہم والدین ہی نہیں لاتے
اور زیادہ سے زیادہ فیس 20ہزار ہے۔ اتنی فیس لینے کے باوجود ان ٹیچرز کو
بھرتی کیا جاتاہے جو کم سے کم تنخواہ میں کام کرنے پر آمادہ ہوجائیں۔ اپنے
اپنے شعبے میں مہارت رکھنے والے اساتذہ تو جیسے ناپید ہوچکے ہیں۔ آج سب سے
آسان دھندا اسکول کھول کر کمائی کرنے کا بن گیا ہے۔ میں مانتی ہوں کہ
پانچوں انگلیاں برابر نہیں ہوتیں۔ ایسے مخلص لوگ بھی موجود ہیں جو اس شعبے
سے ایمان داری برت رہے ہیں، لیکن ایسے لوگوں کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر
ہے۔ رہا گورنمنٹ اسکولز کا معاملہ، تو اس کا احوال میں اپنے گلے کالم میں
بیان کروں گی۔
انگریزی میڈیم اسکولز کی تعداد میں دن بہ دن اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ میں
پرائیویٹ اسکولوں کی تنظیموں سے سوال کرتی ہوں کہ آخر کیوں ایسے اصول و
ضابطے مقرر نہیں کیے گئے جن کی رو سے اسکول انتظامیہ جوابدہ ہوں کہ وہ فیس
کس پیمانے پر مقرر کرتے ہیں۔ کتابیں کیوں اسکول سے خریدنا ضروری ہیں۔ آئے
دن ہونے والے فنکشنز پر اٹھنے والا پیسہ کس کی جیب سے جاتا ہے۔ چلیں آپ کچھ
نہ کریں اتنا تو بتادیجیے کہ انگریزی اسکولز کو آپ جتنی کیٹگریز میں تقسیم
کرتے ہیں، آخر ان کیٹٹیگریز کی فیسیں کیوں مختلف ہوتی ہیں؟
اس اندھیر نگری میں اسکول کا کاروبار کرنے والوں کی پانچوں انگلیاں گھی میں
اور سر کڑاہی میں ہے۔ تو اب کوئی بھی میٹرک فیل بے روزگار اپنے گھر کے
احاطے میں اسکول کھول سکتا ہے، کیوں کہ یہاں قابلیت کون پوچھتا ہے۔ ہر بچہ
اس بھٹی میں قابلیت کی آگ میں نہیں جلتا، بل کہ اسکول مالکان کے ہاتھوں میں
ایک نئے کرارے نوٹ کی حرارت بنا رہتا ہے۔
اب وقت آگیا ہے کہ والدین متحد ہو کر تعلیم کے نام پرکاربارکرنے والے نجی
اسکولزکا بائکاٹ کریں تاکہ ان اسکولز کی انتظامیہ من مانی فیس نہ لیں
سکیں۔تبدیلی لانے کی خواہش تو ہم سب کرتے ہیں لیکن اس کے لیے کوشش نہیں
کرتے۔ بدلاؤ کا عمل قربانی چاہتا ہے، اس کے لیے نقصان اٹھانا پڑتا ہے،
جدوجہد کرنا ہوتی ہے، لیکن ہم چاہتے ہیں کہ ہمیں کچھ نہ کرنا پڑے، بس ہم
ایک دن سو کر اٹھیں اور ملک میں انقلاب آچکا ہو، سب کچھ بدل چکا ہو۔ کہنا
صرف اتنا ہے کہ جب تک ہم ظلم اور استحصال کے خلاف باقاعدہ جدوجہد نہیں کریں
گے اور تسلسل کے ساتھ آواز نہیں اٹھائیں گے، اس وقت تک کچھ نہیں بدلے گا۔ |