چند دنوں سے سرکاری و نجی تعلیمی اداروں کی اول سے
ساتویں کلاس تک کے نتائج کے اعلانات کا سلسلہ جاری ہے۔ ہر نجی ادارہ اپنے
ادارے کی پبلسٹی کے لیے امتحانی نتائج کے اعلان کے لیے فنکشنز کا انعقاد
کرتا ہے جن میں بچوں اور والدین کی دلچسپی قابل تعریف ہے تعلیمی اداروں اور
والدین کے درمیان مسلسل روابط اور ایک دوسرے کے ساتھ تعاون بچوں کی کار
کردگی میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ نجی اداروں کے درمیان کمپٹیشن کے بھی
مثبت نتائج بر آمد ہوتے ہیں جہاں بچوں کی نصابی و غیر نصابی سرگرمیوں پر
بھی خصوسی توجہ دی جاتی ہے اس کے برعکس اکثر سرکاری ادارے جوکبھی کردار
سازی ۔ لیڈرشپ اور کھیل کو کے میدان میں اہم کردار ادا کیا کرتے تھے ان میں
سے اکثر ادارے آج مردہ خانے نظر آ تے ہیں وہاں ادبی سرگرمیاں نظر آتی ہیں
نہ سالانہ امتحانات کے اعلان کے وقت والدین کو مدعو کیا جاتا ہے اس حقیقت
کے باوجود کے سرکاری اداروں کے ملازمین کی تنخوئیں نجی تعلیمی اداروں کے
سٹاف سے کئی گنا زیادہ فیس کم سٹاف زیادہ تربیت یافتہ اور تجربہ کار ہوتا
ہے بچے پھر بھی سرکاری اداروں کی نسبت نجی اداروں کو ترجیح دیتے نظر آتے
ہیں کیونکہ بچے فطری طور پر چہل پہل کو پسند کرتے ہیں جو سرکاری اداروں میں
کھیل کود اور ادبی سرگرمیاں محدود ہو جانے کی وجہ سے ماند پڑ گئی ہے جس پر
حکومت اور سرکاری اداروں کو توجہ دے کر سرکاری اداروں کو زندہ رکھنے کی
کوشش کرنی چائیے کیونکہ نجی اداروں کی مہنگی تعلیم حاصل کرنا معاشرے کے ہر
انسان کے بس کا روگ نہیں ہے ۔ حالیہ چند سالوں میں نجی تعلیمی اداروں میں
بہت تیزی سے اضافہ ہوا ہے اور کوئی بھی ادارہ عددی طور پر دوسرے سے پیچھے
نہیں البتہ کچھ چیزیں توجہ طلب ہیں جن پر حکومت اور نجی اداروں کی یونین کو
غور کرنا چائیے کیونکہ ایسا نہ کرنے سے والدین کے لیے مسائل اور بچوں کی
کارکردگی اور تعلیم کے اصل مقاصد پر فرق پڑتا ہے جس بات پر حکومت کو سب سے
پہلے توجہ دینے کی ضرورت ہے وہ ہے غیر ملکی زبان میں غیر ملکی نصاب۔
انگریزی ایک مضمون کے طور پر نصاب میں ضرور شامل رہنی چائیے لیکن اسکو
تدریسی زبان کے طور پر مسلط کر کے تمام کلاسوں کی تمام کتابیں جن میں سے
اکثر بیرون ملک سے امپورٹ کی جاتی ہیں غلط ہے غیر ملکی نصاب غیر ملکی تہذیب
تاریخ و ثقافت پر مبنی ہوتا ہے جو مقامی معاشرتی قدروں کی ضد بھی ہے اور
رٹا سسٹم کو مزید تقویت دیتا ہے کیونکہ کسی بھی ملک کے مدرس غیر ملکی زبان
میں غیر ملکی نصاب پر وہ مہارت نہیں رکھ سکتے جو انہیں مادری زبان پر ہو
سکتی ہے ۔ اس سے لائقی نالائقی کا کوئی تعلق نہیں یہ ایک فطری عمل ہے
تحقیقی و تخلیقی عمل کو کمزور کر کے قوم کو فکری علمی اوراقتصادی طور پر
ترقی یافتہ ممالک کا غلام بنا دیتا ہے ۔مغرب اس حقیقت کو تسلیم کرتا ہے کہ
سائنس الجبرا اور دیگر کئی علوم مسلمانوں کی ایجاد ہیں لیکن ایسا تب ہوا جب
نظام تعلیم انکا اپنا تھا۔ اسلامی دنیا کو شکست دے کر مغرب نے جب اپنا تسلط
قائم کیا تو انہوں نے اپنی زبانوں اور اپنے نصاب کو بھی نافذ کیا جہاں سے
رٹا سسٹم کا آغاز اور اسلامی دنیا میں تحقیق و تخلیق کا عمل کمزور ہونا
شروع ہوا۔ فرانس اور برطانیہ نے عرب اور افریکہ کے جو ممالک اپنے درمیان
بانٹے انکے رنگ نسل تو نہ بدل سکے لیکن زبان کے زریعے سوچ و فکر بدل کر دکھ
دی البتہ فرانس جہاں اقتصادی فائدے اٹھانے کے ساتھ ساتھ فرانسیسی انقلاب سے
پیدا ہونے والی جمہوری سوچ کو بھی پھیلانے کی کوشش کرتا تھا وہاں برطانیہ
نے صرف سیاسی و اقتصادی مفادات پر توجہ دی جبکہ امریکہ صرف سیاسی تسلط قائم
کر کے لوٹ مار پر لگا ہوا ہے دنیا پر اجارہ داری قائم کرنا اسکا واحد مقصد
ہے ہمارے حکمران ان کے لیے قوم کو یہ سوچ و فکر دے کر آسانیاں پیدا کر رہے
ہیں کہ ترقی کرنی ہے تو آقا کی زبان اور ثقافت سیکھو۔ سرکاری تعلیمی اداروں
کا نظام حکومتوں کی بے توجہی کا اس قدر شکار ہے کہ اگر نجی ادارے نہ ہوں تو
شاید ہمارے ملک کی شرح خواندگی موجودہ شرح سے نصف سے بھی کم ہو البتہ نجی
اداروں کو چند ایک باتوں پر توجہ دینے کی ضرورت ہے اور وہ ہے نصاب ۔اوقات
کار اور سالانہ چھٹیوں کے شیڈولز میں یکسانیت۔ایک گھر کے اگر ایک سے زائد
بچے زیر تعلیم ہیں تو ایک ہی گھر میں ایک بچہ چھٹیوں پرہے اور دوسرا سکول
جا رہا ہے جسکی وجہ سے والدین کے لیے ٹرانسپورٹ اور دیگر مسائل پیدا ہوتے
ہیں ۔ ہم کشمیریوں کا ایک اضافی مسلہ یہ بھی ہے کہ تعلیمی اداروں میں بھارت
الحاق ہندوستان اور پاکستان الحاق پاکستان کے نعرے لگواتا ہے لیکن جموں
کشمیر کی تاریخ و جغرافیہ ہندو پڑھاتا ہے نہ پاکستانی مسلمان جموں کشمیر کی
تاریخ و ثقافت کو دبانا کم از کم ہندوستان پاکستان دونوں کی ایک مشترکہ قدر
و پالیسی ہے۔ اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کہ ہمارے ملک میں نجی تعلیمی
اداروں میں زیر تعلیم بچوں کے اندر جو خود اعتمادی پائی جاتی ہے وہ سرکاری
اداروں کے بچوں میں نہیں ہے جسکی بڑی وجہ ادبی سرگرمیاں ہیں۔ بی اے کوینز
کی تقریب میں مہمان خصوصی برطانیہ کے ایک کونسلر راجہ محمد اقبال خان اور
صدر تقریب کوٹلی کے نامور سنئیر وکیل راجہ جاوید اختر تھے جنہوں نے نوجوان
اور پرجوش پرنسپل تصور علی خان اور انکے اعلی تعلیم یافتہ سٹاف کو بہترین
کارکردگی پر مبارک باد دی ۔ کونسلر اقبال خان نے بھی اردو زبان پر زور دیتے
ہوئے کہا کہ مادری زبان نظر انداز کرنے سے قوم کے اندر احساس کمتری پیدا
ہوتا ہے۔ اقراء سائنس کالج کی تقریب میں مہمان خصوصی مائر اردو اور وادی
بناہ کھوئیرٹہ کی ایک بڑی علمی شخصیت جناب پروفیسر ذولفقار زاہد تھے۔
پرنسپل صیاد خان کی اس سیلیکشن کی تعریف کرتے ہوئے مققرین نے کہا کہ علمی
پروگرامات میں سیاستدانوں اور امیروں کے بجائے علمی شخصیات کو ہی مدعو کیا
جانا چائیے تاکہ طلباء و طالبات ان سے کچھ سیکھ سکیں اور ایسا ہی ہوا۔
پروفیسرزاہد کے ایک ایک لفظ کو سامعین نے غور سے سنا اور سراہا انہو ں نے
کہا کہ معاشرے کو استاد کا اصل مقام و مرتبہ بحال کرنا چائیے اور حکومت کو
تعلیمی اصلاحات پر توجہ دینی چائیے اقراء سائنس کالج کی تقریب میں ایک
اضافی بات مہمانوں کو بھی جموں کشمیر کی تاریخ بارے سوالات کے مقابلہ میں
شامل کر کے تقریب کو مزید دلچسپ بنا دیا ۔ اعلی کارکردگی کا مظاہ کرنے والے
طلباء و طالبات کے ساتھ ساتھ معلومات عامہ کے صحیح جوابات دینے والوں میں
بھی انعمات تقسیم کیے۔صدر تقریب ریٹائرڈ ڈپٹی کمشنر راجہ عبدالراؤف خان نے
کہا کہ پوزیشنز حاصل کرنے والے بچوں کو تو انعمات سے نوازا گیا لیکن بچوں
کو اس قابل بنانے والے پرنسپل راجہ صیاد خان اور انکا سٹاف بھی انعام کا
مستحق ہے جنکے لیے انہوں نے نقد انعام دیا جو پرنسپل صیاد خان نے بچوں کے
نام کر دیا۔ |