یہ 1948 کی بات ہے جب اقوام متحدہ کی طرف سے قانون برائے
شفافیت اور معلومات تک رسائی کی شق آئین میں شامل کی گئی جس کا مقصد
معلومات تک رسائی کا حق سوائے ان کے جو ملک کے دفاعی معاملات ہوں یا ذاتیات
پر ! عوام الناس کا حق ہے ۔پہلے نو سال تو پاکستان بغیر آئین کے ہی چلتا
رہا لیکن 1956 میں باقاعدہ مملکت پاکستان کا آئین بنایا گیا اور پھر اسی
طرح وقتاََ فوقتاََ اس میں تبدیلیاں کی گئیں۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ
باقاعدہ طور پر 1973کے آئین کو پاکستان کا صحیح آئین تسلیم کیا جاتا ہے ،
لیکن اس وقت بھی آئین میں شفافیت اور معلومات تک رسائی کی شق کو شامل نہیں
کیا گیا تھا ، پھر ایک عرصہ گزرنے کے بعد جب چیک اینڈ بیلنس کا معیار
انتہائی تک گرنے لگا اور اداروں کی من مانیاں کنٹرول سے باہر ہوگئیں تو
سرکار نے اس کی کمی کو بڑی شدت سے محسوس کرتے ہوئے 2013 میں پنجاب کی
صوبائی حکومت کے آئین کے آرٹیکل نوے میں ترمیم کرتے ہوئے قانون برائے
شفافیت اور معلومات تک رسائی کی شق کو اس کا حصہ بنایا ۔یہ ایک انتہائی
احسن اقدام تھا سرکار کی جانب سے اور بہت سے حلقوں نے اس سے استفادہ ملنے
پرسراہا بھی کہ اس سے جو شعور و آگہی کی کمی کا رونا پیٹا جاتا ہے اس میں
بہت حد تک کمی لائی جا سکتی ہے ، لیکن بعد میں اس کے اطلاق میں حکومتی سطح
پر ہٹ دھرمیاں سامنے آنے لگیں کیوں کہ بہت سے راز افشاں ہونے لگے تھے اور
بڑے بڑے مگر مچھوں کی روٹی بند ہو رہی تھی ، اس طرح پھر پنجاب کے قریب سارے
ہی اضلاع میں سے ڈائریکٹر اطلاعات کی سیٹں خالی کر دی گئیں اور اب تو کمشنر
اطلاعات کی سیٹ بھی کافی عرصے سے خالی پڑی ہے اور کئی جگہوں پر جہاں افسران
تعینات ہیں وہ ڈیوٹی سر انجام ہی نہیں دیتے جس کی وجہ سے قانون برائے
شفافیت اور معلومات تک رسائی کا استعمال کرنے والوں کو مشکلات کا سامنا ہے
، جبکہ آئین میں واضح طور پر لکھا گیا ہے کہ معلومات تک رسائی ہر شہری کا
بنیادی حق ہے سوائے اس کے کہ وہ کسی کی ذاتیات پر یا دفاعی معاملات کی خاص
معلومات کو طلب کرے اور معلومات تک عوامی رسائی کو یقینی نہ بنانے والے
اداروں کے مہتممین کیلئے سزا بھی متعین کی گئی ہے جس میں جرمانہ اور کچھ
عرصہ قید شامل ہے ۔قانون سازی کے بعد سنٹر فار پیس اینڈ ڈویلپمنٹ انیشی
ایٹو CPDI این جی او قانون برائے شفافیت اور معلومات تک رسائی کے عوامی
شعور کو اجاگر کرنے اور اس کی پاسداری کو یقینی بنانے کیلئے جی توڑ کوششیں
کر رہی ہے ، اسی سلسلے میں وہ مختلف سکولوں کالجوں میں سیمینار کا انعقاد
بھی کرتی نظر آتی ہے اور مختلف تقریبات کے انعقاد کے علاوہ اداروں کے
افسران کو بھی اس قانون بارے آگہی فراہم کرتی رہتی ہے ۔ ضلع جھنگ میں بھی
اس کی سرگرمیاں قابل تحسین ہیں اور اس طرح کی جہاں کہیں بھی سر گرمی پائی
جائے وہاں فیصل منظور انور کا نام پیش پیش ہوتا ہے کیونکہ وہ سی پی ڈی آئی
کے ضلعی کوآرڈینیٹر بھی ہیں ان کے علاوہ اس بارے جھنگ کے معروف صحافی و قلم
کاروں سمیت دیگر سماجی و وکلاء طبقہ بھی کام کرتا نظر آتا ہے ۔ان میں معرو
ف قلم کار حاجی محمد انور ، معروف صحافیوں میں ملک اکمل ، یوسف رضا بھٹی ،
ڈاکٹر ریاض نول ، مدثر حبیب جامی ، طاہر انجم ،ظفر اقبال عاصم سماجی و
سیاسی کارکنوں میں خواتین نیلم ناصر مگھیانہ ،خالدہ راجہ ، پی ٹی آئی ضلعی
صدر خواتین ارم اعجاز سمیت دیگر اور وکلاء میں علی مگھیانہ ایڈووکیٹ ،ثناء
افضل ایڈووکیٹ ،عون رضا ایڈووکیٹ سمیت دیگر وکلاء پر مشتمل ایک گروپ تشکیل
دیا گیا اس میٹنگ میں ناچیز بھی شامل تھا ، اور سب ہی ورکرو ں نے اچھے
انداز میں اپنے تجربے کی بنیاد پر قانون برائے شفافیت و معلومات تک رسائی
کے فوائد اور ضرورت پر روشنی ڈالی ۔ یہ سی پی ڈی آئی کا ایک اچھا اقدام ہے
لیکن سی پی ڈی آئی یا ان چند ورکرز پر یہ کوئی فرض نہیں بن جاتا بلکہ آئین
و قوانین کی پریکٹس عوامی حلقوں کی جانب سے بھی ہوتی رہے تو یہ ایک اہم اور
بڑا اقدام ہوگا ۔ اس وقت جو بڑی دقت اس قانونی پریکٹس میں سامنے آ رہی ہے
اس میں انفارمیشن کمشنر ز کا نہ ہونا ، ضلعی سطح پر مختلف سرکاری محکموں کی
جانب سے پبلک انفارمیشن آفیسرز کی نامزدگی نا ہونے کے باعث قانون کی پریکٹس
کرنے والے سائل کو معلومات کی فراہمی اداروں کی طرف سے یقینی نہیں بنائی جا
رہی ۔ سی پی ڈی آئی کی جانب سے جھنگ میں اس پر کافی محنت کئے جانے کے بعد
مختلف اداروں میں پبلک انفارمیشن آفیسرز کی تعیناتی کی جا چکی ہے لیکن گڈ
گورننس بھی ضروری ہے ۔ اداروں کو اپنے تئیں بھی کوشش کرنی چاہئے کہ وہ عوام
کو مختلف فنڈز اور پروگرامز کی صورت میں اعتماد میں لے اور جو ان کی ویب
سائٹس وغیرہ بنی ہوئیں ہیں یا اخباری اشتہارات اور خبروں کی مد میں تمام
معلومات عوام کے ساتھ بانٹیں تاکہ انہیں اس بات کا علم ہو کہ ان کے ٹیکسوں
کا پیسہ یا وسائل صحیح مد میں استعمال ہو رہے ہیں یا نہیں ۔حکومت پنجاب
آئین کی رو سے قانون کی خلاف ورزی کرنے والے افسران کے خلاف ایکشن لیتے
ہوئے انہیں قرار واقعی سزا دے، تاکہ باقی اداروں کے افسران بھی نصیحت پکڑیں
۔ آئین و قانون کی بالادستی میں ہی ادارو ں اور سلطنت کی بقاء ہوتی ہے اور
اس کو یقینی بنانا ہم سب کا فرض ہے ۔ امید کرتا ہوں کہ سی پی ڈی آئی اور ان
چند قانونی پریکٹس کرنے والوں کے علاوہ عوام الناس کو بھی اس قانون کی
پریکٹس میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے گی اور ادارے بھی عوام کے ساتھ تعاون کو
یقینی بنائیں ۔ اس طرح سے کافی حد تک استحقاق کی جنگ پر بھی کنٹرول ہو گا
اور معاشرے کی لا اعتدالی بھی ختم ہو گی۔شاعر عاصم تنہا نے کیا خوب کہا ہے:
کہیں سورج نظر آتا نہیں ہے
حکومت شہر میں اب دھند کی ہے |