دُکھ تو پھر دُکھ ہوتا ہے لیکن اس کا درد اُس وقت زیادہ
شدت سے محسوس ہوتا ہے جب یہ دُکھ کوئی اپنا دیتا ہے۔ میرے موبائل فون پر
ایک اجنبی فون کال آئی تو دُوسری طرف ایک خوبصورت اور پُرکشش آواز ملک شیر
خان کی تھی۔ انہوں نے مجھے بتایا کہ وہ میرے پُرانے قاری ہیں اور میرے
کالمز کو پسند کرتے ہیں۔ انہوں نے اپنی داستانِ غم سنانا شروع کی تو میں نے
اُن سے وعدہ کر لیا کہ میں خود آپ کے پاس آؤں گا اور انشاء اﷲ ضرور اس پر
قلم اُٹھاؤں گا۔ اُن کی داستانِ غم سننا کمزور دِل انسان کے بس کی بات نہیں
ہے اس کا احساس ہر شخص نہیں کر سکتا۔ یہ وہی جانتا ہے جس پر ایسی قیامت
برپا ہوئی ہو۔ ان کی ٹانگوں سے ہڈیوں کا قیمہ بن کر باہر نکل چکا ہے۔ ملک
شیر خان ایک ایسا شخص جو انتہائی متحرک اور چاک و چوبند تھا جس کے شب و روز
مسلم لیگ (ن) کے لئے تھے، جو خدمت انسانیت کے لئے جیتا اور اسی کے لئے مرتا
تھا۔ اسی خدمت انسانیت کی سزا میں معذوری کو گلے لگا لیا۔ اب اس کا کوئی
پُرسان حال نہیں ہے۔ وہ ایک مایوسی اور نااُمیدی کی تصویر بن چکا ہے۔ اس کے
پاس ضلع چکوال سے کسی بھی مسلم لیگی کو یہ توفیق نہیں ہوئی کہ اُس کا حال
احوال پوچھیں۔ ایک وقت تھا جب ملک تنویر اسلم سیتھی خود ان کو فون کال کیا
کرتے تھے مگر آج ان کو ملک شیر خان کے گھر کا راستہ بھول گیا ہے۔ جب مسلم
لیگ (ن) کسان ونگ کے انفارمیشن سیکرٹری کی یہ حالت ہے تو عام لوگوں کی کیا
حالت ہو گی۔ مجھے ملک شیر خان نے بتایا کہ خود کو خادمِ اعلیٰ پنجاب کہنے
والے میاں محمد شہباز شریف کو میں نے 12 خطوط لکھے مگر مجھے کسی ایک کا بھی
جواب نہیں ملا، تنگ آکر خود اُن کی رہائش گاہ پر ملنے چلا گیا تو وہاں پر
بھی مایوسی اور نااُمیدی ہی میرا مقدر بنی۔ مجھے انہوں نے وہ خط دکھایا جو
انہوں نے وزیر اعلیٰ پنجاب میاں محمد شہباز شریف کو لکھا۔ اس میں انہوں نے
10-10-2011 کو پیش آنے والے حادثے کے حوالے سے لکھا۔ اس میں انہوں نے کہا
کہ اُن کے علاقے کے کچھ لوگ جو کہ کرائے کے قاتل اور ڈکیت ہیں انہوں نے ان
پر فائرنگ کی۔ میری دونوں ٹانگوں میں کلاشنکوف کے فائر لگے جس وجہ سے میری
ٹانگوں کی ہڈیاں بھی اُڑ گئیں۔ اب میں ساری زندگی کے لئے معذور ہو چکا ہوں۔
چارپائی پر پڑ ہوں، چل پھر نہیں سکتا چونکہ ٹانگوں میں ہڈیاں نہیں ہیں۔ جن
ملزمان نے مجھ پر فائرنگ کی ہے اُن کا 9 بندوں کا گروپ ہے جو کرائے پر قتل
اور ڈکیتیاں بھی کرتے ہیں اب اشتہاری ہیں۔ ان کو پولیس نہیں پکڑتی کیونکہ
ان کے 8 رشتہ دار محکمہ پولیس میں سروس کرتے ہیں۔ میں تنگ آکر 25-09-2013
کو جناب کے پاس لاہور ملاقات کرنے کے لئے گیا تاکہ ساری حقیقت آپ کو بتا
سکوں اور آپ میری حالت بھی اپنی آنکھوں سے دیکھ سکیں کیونکہ دو بندے مجھے
اُٹھا کر لے جاتے ہیں، میں زمین پر پاؤں نہیں رکھ سکتا۔ میں نے آپ سے
ملاقات کی بڑی کوشش کی مگر ملاقات نہ ہو سکی اور پریشانی کی حالت میں واپس
آگیا۔ میرے چھوٹے چھوٹے بچے ہیں اُن کی تعلیم کے اخراجات ہیں، میں کسمپرسی
کی زندگی گزار رہا ہوں۔
قارئین محترم! یہ المناک داستان ملک شیر خان ساکن مانک پور تحصیل کلرکہار
ضلع چکوال کی ہے جنہوں نے فلاح انسانیت کے لئے کرائے کے قاتلوں سے جنگ
چھیڑی جس کا نتیجہ یہ نکلا۔ 2008ء سے مسلم لیگ (ن) کسان ونگ کے انفارمیشن
سیکرٹری ہیں۔ اب نہ کوئی کاروبار ہے اور نہ ہی کوئی ذریعہ معاش۔ 14 لاکھ
روپے اپنے علاج پر خرچ کر چکے ہیں۔ اب زندگی دُوسرے لوگوں کے رحم و کرم پر
چل رہی ہے۔ مشرف کے دور میں جب مسلم لیگ (ن) پر مشکل وقت تھا تو اُس وقت
بھی مسلم لیگ (ن) کا بھرپور ساتھ دیا۔ جن جن مسلم لیگیوں کو اُس وقت اپنے
گھر میں پناہ دی وہ بھی میری ذات نہ پوچھنے آئے۔ وزیر اعلیٰ پنجاب میاں
محمد شہباز شریف سے ہمدردانہ درخواست ہے کہ وہ پُرانے مسلم لیگی ملک شیر
خان کی درد بھری داستان سنیں اور اُن کے خاندان کی مالی مدد کریں۔ یہاں پر
قارئین محترم کے لئے ملک شیر خان کا موبائل نمبر بھی لکھ رہا ہوں جو مخیر
حضرات ان کی مدد کرنا چاہیں وہ ان سے 0333-5974590 پر رابطہ کر سکتے ہیں ۔
اﷲ تعالیٰ پاکستان کا حامی و ناصر ہو۔ |